Skip to content
زہران ممدانی کی جیت: ٹرمپ کے قلعے میں دراڑ
بقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
سیاست کی عظیم الشان بساط پر، جہاں نگاہیں ہمیشہ بادشاہوں اور وزیروں کی چالوں پر جمی رہتی ہیں، اکثر چھوٹے چھوٹے پیادوں کی پیش قدمی نظر انداز ہو جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی، ایک پیادے کی غیر متوقع جیت پوری بازی کا رُخ بدل دیتی ہے۔ ریاست نیویارک کے اسمبلی انتخابات میں زہران ممدانی کی کامیابی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔ یہ صرف ایک مقامی حلقے میں فتح کا اعلان نہیں، بلکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گونج دار سیاست اور ان کے پرجوش حامیوں، جنہیں "بھکت” کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کے لیے ایک کراری شکست ہے۔ یہ جیت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کے باوجود، امریکی معاشرے میں ترقی پسندی اور عوامی خدمت کی لہر نہ صرف زندہ ہے، بلکہ طاقتور بھی ہو رہی ہے، اور یہ کسی بھی نظریاتی طوفان کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔
اس کہانی کا مرکزی کردار، زہران ممدانی، خود صدر ٹرمپ کی سیاست کا ایک جیتا جاگتا جواب ہے۔ وہ ایک نوجوان، جنوبی ایشیائی نژاد امریکی ہیں، جن کے والدین تارکینِ وطن تھے۔ وہ خود کو فخر سے ایک ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہتے ہیں اور ان کی سیاست کا محور امیروں کو مزید امیر بنانا نہیں، بلکہ عام آدمی کے لیے معیاری صحت، مفت تعلیم اور سستے گھروں کا انتظام کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کارپوریٹ عطیات کے بجائے عام لوگوں کے چندوں سے چلائی، اور یہ پیغام دیا کہ سیاست کا مقصد عوام کی خدمت ہے، نہ کہ سرمایہ داروں کی جیبیں بھرنا۔ اس کے بالکل برعکس، صدر ٹرمپ کی سیاست کا فارمولا "امریکہ فرسٹ” کے نعرے تلے خوف، قوم پرستی اور تقسیم پر کھڑا ہے۔ جہاں ٹرمپ تارکینِ وطن اور اقلیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہیں ممدانی نیویارک کی اسی کثیرالثقافتی فضا کا نمائندہ بن کر ابھرے، جسے ٹرمپ کے حامی کمزوری سمجھتے ہیں۔ ووٹروں نے نفرت کے بیانیے کو مسترد کر کے ایک ایسے شخص کو چنا جو انہی میں سے ایک تھا، اور یہ فیصلہ ٹرمپ کے ان "بھکتوں” کے لیے ایک واضح پیغام تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ پورا امریکہ ان کے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔
یہ جیت محض ایک شخص کی دوسرے پر فتح نہیں، بلکہ ایک نظریے کی دوسرے پر برتری ہے۔ یہ اس سوچ کی ناکامی ہے جو سمجھتی ہے کہ سیاست صرف چیخ و پکار، الزامات اور مخالفین کی تذلیل سے کی جاتی ہے۔ ممدانی کی ٹیم نے اس کے برعکس کام کیا۔ انہوں نے گھر گھر جا کر لوگوں کے مسائل سنے، ان کے حل تجویز کیے اور ایک مثبت تبدیلی کا خواب دکھایا۔ ان کے مخالفین نے انہیں "خطرناک سوشلسٹ” اور "ملک دشمن” کہہ کر خوف پھیلانے کی کوشش کی، لیکن عوام نے اس پروپیگنڈے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امریکی عوام، خاص طور پر نوجوان، اب "سوشلزم” جیسے الفاظ سے ڈرتے نہیں، بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پیچھے پالیسیاں کیا ہیں۔ یہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ ان کا نظریاتی قلعہ شہری اور تعلیم یافتہ علاقوں میں تیزی سے گر رہا ہے۔
ممدانی کی کامیابی کے پیچھے ایک اور خفیہ طاقت تھی: عوامی تحریک۔ یہ جیت کسی ایک شخص کی نہیں، بلکہ ان ہزاروں رضاکاروں اور کارکنوں کی ہے جو ایک بہتر اور منصفانہ معاشرے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ جہاں ٹرمپ اپنی بڑی بڑی ریلیوں اور ٹی وی چینلز کے ذریعے سیاست کرتے ہیں، وہیں یہ تحریک گلیوں، محلوں اور کمیونٹی سینٹرز میں کام کرتی ہے۔ یہ زمینی سطح کی محنت ہی وہ ہتھیار ہے جس نے ممدانی جیسے نئے امیدوار کو ایک پرانے اور مضبوط حریف کے خلاف جتوا دیا۔ یہ صدر ٹرمپ کے لیے ایک کھلا انتباہ ہے کہ سیاست صرف ٹویٹر اور میڈیا پر نہیں ہوتی؛ حقیقی طاقت عوام کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے، اور اس میدان میں ترقی پسند تحریک ٹرمپ کے حامیوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
آخر میں، یہ فتح جہاں ایک طرف امید کی روشنی ہے، وہیں یہ امریکہ کی گہری تقسیم کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ کا دیہی اور قدامت پسند امریکہ ہے، تو دوسری طرف ممدانی کا شہری اور کثیرالنسلی امریکہ۔ یہ دو دنیائیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں اس تقسیم کو مزید ہوا دے رہے ہیں تاکہ اپنے حامیوں کو متحد رکھ سکیں۔ لیکن زہران ممدانی کی جیت نے ثابت کر دیا ہے کہ ترقی پسند اب صرف دفاعی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ اپنا متبادل بیانیہ کامیابی سے پیش کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ کی رُوح کے لیے لڑی جانے والی ایک طویل جنگ کا ایک اہم موڑ ہے، جس نے یہ تو واضح کر دیا ہے کہ ٹرمپ ازم کو شکست دی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے تنظیم، ہمت اور ایک واضح عوامی ایجنڈے کی ضرورت ہوگی۔ یہ فتح ٹرمپ ازم کے خاتمے کا نہیں، بلکہ اس کے خلاف ایک مؤثر عوامی مزاحمت کے عروج کا اعلان ہے۔
Like this:
Like Loading...