Skip to content
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
امسال قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے11 ؍ستمبر کو اپنے پارلیمانی حلقے رائے بریلی کے اندر یہ انکشاف کرکے پورے ملک کو چونکا دیا کہ ’جب ہائیڈروجن بم آئے گا تو سب صاف ہو جائے گا‘‘ اور پھر جب وہ واقعی ہریانہ بم پھوٹا تو الیکشن سمیت بی جے پی کا سُپڑا صاف ہوگیا۔ اپنے دو روزہ دورے پر راہل گاندھی نے الزام لگایا تھاکہ ملک میں ووٹ چوری کرکے حکومتیں بنائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ ’’مہاراشٹر، ہریانہ اور کرناٹک کے انتخابات میں ووٹ چوری ہوئی ہے۔ ہم نے اس کے بلیک اینڈ وائٹ ثبوت دیئے ہیں۔ انتظار کیجیے، بہت جلد ووٹ چوری کے مزیدانکشافات سامنے آنے والے ہیں۔ بی جے پی والے پریشان نہ ہوں، ووٹ چوری کا ہائیڈروجن بم آنے والا ہے، سب کچھ صاف ہو جائے گا‘‘۔ اس وقت راہل گاندھی نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا تھا کہ بی جے پی ووٹ چوری کر کے جیتی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے ملک میں ایک کروڑ جعلی ووٹ بڑھائے ہیں۔اس کے بعد راہل گاندھی نے اپنے "ووٹ چور گدی چھوڑ مشن” کی مدد سے کارکنوں میں جوش بھرنے کے بعد نعرے لگوائے تھے۔
راہل گاندھی نے اس وقت مہاراشٹر اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے بی جے پی کی ووٹ چوری پکڑنے کا جوا الزام لگایا تھا اسے بالآخر انہوں نے مع شواہد ہریانہ تک پھیلا دیا۔ انہوں نے اس حکومت پر آئین کو خطرات میں ڈالنے اور عام لوگوں کے حقوق کو کچلنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا جو پھر ایک بار ثابت ہوگیا۔ راہل گاندھی نے اس ووٹ چوری کے اسکینڈل یعنی ’ہائیڈروجن بم‘ کو گرا کر ووٹ چوری اور ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات کو پہلے کرناٹک کے مہادیو پورہ کی مثال سے ثابت کیا اور اب ہریانہ کے حوالے سے کئی ثبوت پیش کیے۔اس طرح الیکشن کمیشن کے ساتھ بی جے پی کی ملی بھگت کو منظر عام پر آگئی۔ کانگریس ہیڈکوارٹر میں ’دی ایچ فائلز‘ کے نام سے کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران راہل گاندھی نے ’ووٹ چوری‘ کے تازہ ثبوت پیش کر زبردست سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ’ووٹ چوری‘ کےشواہد ایک پریزنٹیشن کے صورت میں پیش کرکے گاندھی نے کئی طرح کی بے ضابطگیوں کو طشت از بام کردیا ۔
راہل گاندھی نے اپنی کانفرنس میں یہ واضح کیا کہ انہیں کئی ریاستوں سے ووٹ چوری کی شکایات موصول ہوئی اور اب تحقیق کے بعد ہریانہ میں ووٹ چوری کا سچ سامنے لا یا جارہاہے جو 101 فیصد سچائی ہے۔ ا س بابت سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ یہ دھوکہ دہی بوتھ کی سطح پر نہیں بلکہ مرکزی سطح پر ہوئی ہے۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ ہریانہ میں ایگزٹ پول میں کانگریس آگے تھی۔ بعد میں بی جے پی جیت گئی۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان صرف چند ہزار ووٹوں کا فرق تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں 25 لاکھ ووٹ چوری ہوئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کرناٹک کے مہادیو پورہ میں پیش آیا۔انہوں نے ہریانہ کے 10 بوتھوں پر ووٹ ڈالنے والی ایک لڑکی کو مثال کے طور پر پیش کیا جس نے جعلی شناختی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے 22 بار ووٹ ڈالا۔ یہ کام اس قدر ڈھٹائی سے کیا گیا کہ کئی ووٹر لسٹوں میں برازیلین ماڈل کی تصویر استعمال کی گئی۔ اپنی دھوکہ دہی کو چھپانے کے لیے ہریانہ میں دو بوتھوں سے ویڈیو فوٹیج کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
راہل گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ میں جملہ دو کروڈ ووٹرس ہیں ان میں کےہر آٹھ میں سے ایک ووٹر فرضی تھا۔ جعلی فوٹو والے 100,000 سے زیادہ ووٹر تھے۔ یہ سب کرنے کے باوجود بی جے پی کوصرف سوالاکھ ووٹ کے فرق سے الیکشن کمیشن کی مدد سے کامیاب کیا گیا ۔ اعدادو شمار سے ہٹ کر راہل نے بی جے پی رہنما سینی کی آڈیو ریکارڈنگ بھی چلا کر دکھا دی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ بی جے پی کے پاس ’’عظیم انتظام‘‘ ہے۔ اس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاملات حل ہو جائیں گے، فکر نہ کریں اور بی جے پی جیت گئی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ملک بھر میں جعلی ووٹنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں صریح جھوٹا قرار دیا۔اس طرح قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے بی جے پی سے کیا جانے والا اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اتنے سارے ثبوت پیش کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کو شرم نہیں آئی ۔ اس نے اپنی غلطی کو تسلیم کرنا تو دور یہ بھی نہیں کہا کہ ہم ان شواہد کی تفتیش کریں گے بلکہ الٹا راہل گاندھی کو دھمکی دینے پر اتر آیا۔
ملک کے اندر اس سیاسی بمباری کے بعد چند گھنٹوں کے اندر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا کہ کانگریس نے نظرثانی کے عمل کے دوران ووٹر لسٹوں پر کوئی اعتراض یا اپیل دائر نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کسی قتل کے بعد اگر مقتول کے وارثین نے شکایت درج نہیں کرائی تو کیا اس کی آڑ میں قاتل کو چھوڑ دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن عین انتخاب سے قبل ووٹر لسٹ جاری کرتا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں تشہیر میں مصروف ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لسٹ کی سافٹ کاپی شائع نہیں کرتا جس سے جانچ پڑتال میں آسانی ہوتی ہو۔ پہلے تو خواتین کے ڈیٹا کی آڑ میں کچھ بھی شائع نہیں کرتا تھا۔ یہ عجب تماشا ہے کہ یوگی برقع کے خلاف بکواس کرتا ہے اور الیکشن کمیشن خواتین کی معلومات چھپاتا ہے۔ اب پی ڈی ایف کی جو لسٹ شائع کی جاتی ہے اس کی جانچ پڑتال میں وقت لگتا ہے تو ای سی کو شکایت ہے کہ وقت کیوں لگا حالانکہ وہ خود اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ای سی آئی میں اگر ہمت ہے تو راہل گاندھی کے الزامات کی تردید کرے وہ تو ہوتا نہیں اس لیے تکنیکی حیلے بہانے بنا کر چوری چھپائی جارہی ہے۔الیکشن کمیشن یہ کیوں نہیں کہتا کہ ہریانہ انتخابات کے دوران برازیلی ماڈل کے نام پر ۲۲؍ ووٹ نہیں پڑے؟
الیکشن کمیشن نے ان الزامات پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الٹا سوال کردیا کہ ’راہل گاندھی جامع ووٹر لسٹ کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘ ای سی کو پہلے الزامات کا جواب دینا چاہیے پھر سوال کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن یہ پوچھتا ہے کہ’پولنگ اسٹیشنوں پر موجود کانگریس پارٹی کے ایجنٹ کیا کر رہے تھے‘؟ ۔ اس کا جواب اگر یہ ہے کہ وہ جھک مار رہے تھے یا غافل تھے تو کیا اس سے الیکشن کمیشن کو ووٹ چوری کا حق مل جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس کو ایک بھی شکایت نہیں ملی مگر جب اکھلیش نے ان شکایتوں کا پلندہ پیش کردیا تو اسے شرمسار ہونا پڑا مگر اصل بات یہ ہے کہ کس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا یہ پوچھنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ انتخابات کو غیر جانبداری کے ساتھ منعقد کرانے کے لیے اس نے کیا کیا ؟ کیونکہ بنیادی طور پر یہ کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ای سی کی یہ بات درست ہے کہ ہریانہ میں انتخابی فہرستوں کے خلاف صفر اپیلیں تھیں مگرہریانہ کی 90 اسمبلی سیٹوں کے لئے ہونے والے انتخابات سے متعلق 22 درخواستیں فی الحال ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ان الیکشن پٹیشن قانون کے تحت مقدمات میں پارلیمانی، اسمبلی یا مقامی انتخابات کے انتخاب کو چیلنج کیا گیا ہے۔ انتخابی درخواست نتائج کے اعلان کی تاریخ سے 45 دن کے اندر اسے دائر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ مدت گزر بھی جائے تب مجرم تو مجرم ہی رہتا ہے۔
سیاست میں مثل مشہور ہے کہ جب لوہا گرم ہو تبھی ہتھوڑا مارنا چاہیے۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو نے ’’ووٹ چور گدی چھوڑ‘‘ کے نعرے کی تمازت سے انتخابی مہم کے دوران لوہا گرم کیا اور جب وہ نرم ہوگیا تو عین پہلی پولنگ کی شام کو یہ دھماکہ کردیا ۔ اس بہترین حکمتِ عملی نے بہاری رائے دہندگان کے اندر زبردست بیداری پیدا کردی ۔ ان لوگوں نے ووٹ کی چوری کے خطرات کو خوب اچھی طرح محسوس کرکے سب سے پہلے تو ووٹر فہرست کی جانب دوڑ پڑے اور اپنا نام تلاش کرنا شروع کردیا۔ امید ہے کہ اس بیداری کے بعد ووٹ دینے والے عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال اور اس کی حفاظت بھی کریں گے اور للن سنگھ جیسا کوئی بدمعاش دھاندلی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو سبق سکھا دیں گے۔ اقتدار کی ہوس میں پاگل ہوکر بی جے کے رہنما آگ سے کھیل رہے ہیں اور اگر یہ خدا نخواستہ یہ بھڑک گئی تو اس کی قیمت پورا ملک چکائے گا۔ بہار کے نوجوانوں میں زبردست جوش و خروش ہے جسے تیجسوی ، راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی اور عمران پرتاپگڈھی کے خطابات عام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہائیڈروجن بم نے نئی نسل میں جو بیداری پیدا کی ہے اس نے این ڈی اے کا سیاسی جنازہ اٹھا دیا ہے۔ اس صورتحال پرمیرٹھ کی جواں سال شاعرہ ہمانشی بابرا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
آج اٹھا ہے مداری کا جنازہ لوگو
کل سے بستی میں تماشہ نہیں ہونے والا
Like this:
Like Loading...