Skip to content
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد
دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کاگوشہ انیس رفیع:ایک اختصاصی مطالعہ
دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کا بیس سالہ سفر مبارک!
دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کا تازہ شمارہ (جنوری تا جون ۵۲۰۲ئ)نئی آب وتاب کے ساتھ منظر عام پر آچکا ہے ۔جب بھی یہ رسالہ دیکھتا ہوں اس کے کئی یادگار شمارے ذہن میں آجاتے ہیں ۔میں اولین شمارے سے اس کا قاری رہاہوں اور اس کے بلندی کی جانب سفر کا شاہد بھی ۔اس نے اپنی رفتار قائم رکھی اور ادبی صحافت میں اپنی شناخت بناے میں کامیاب ہوا۔ افسانہ نمبر ،ناول نمبر،یاد رفتگاں نمبر، غزل نمبر ،نظم نمبر ،مشرف عالم ذوقی نمبر جیسے خاص شمارے اس کے اختصاص میں شامل ہے۔عام شمارے کے ساتھ دربھنگہ ٹائمز میں کئی گوشے بھی شائع ہوئے اور مشاہیر ادباءکی کار کردگی کا اعتراف ہوا۔اس ضمن میں نورالحسنین اور شموئل احمد کا نام لیا جا سکتا ہے جن پہ بسیط گوشے شائع ہوئے ۔اس سلسلہ کو دراز کرتے ہوئے دربھنگہ ٹائمز نے طرز نو کے نمائندہ افسانہ نگار انیس رفیع کا گوشہ تازہ شمارے میں شامل کیا ہے ۔
اس گوشہ میں آٹھ مضامین ”انیس رفیع اور ان کے افسانے“(پروفیسر اسلم جمشید پوری)،”اردو فکشن اور انیس رفیع کی تنقیدی بصیر تیں“(مقصود دانش)،”انیس رفیع کا افسانوی سفر“(ڈاکٹر سید احمد قادری)،”انیس رفیع کے افسانوں میں سیاسی وسماجی شعور“(احمد صغیر)،”اے۔ آر۔ خان سے انیس رفیع تک کا سفر“(سید محفوظ عالم) .” انیس رفیع : جدید افسانے کا ایک معتبر نام“(فخر الدین عارفی)،”جدید فنی لوازم سے آراستہ افسانہ نگار : انیس رفیع “(ڈاکٹر احسان عالم ) اور”انیس رفیع : فکر وفن کا منفر د حوالہ“(ڈاکٹر منصور خوشتر ) کے ساتھ ایک انٹرویو ”میں ایک مشتعل افسانہ نگار ہوں: انیس رفیع “ ( محمد غالب نشتر) اوراور ایک نمونہ ¿ تحریر ”مجیر احمد آزاد کے بعض افسانے “ کے ذریعے انیس رفیع کی شخصیت اور ادبی کاوشوں کوموضوع بناتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔
گوشے کا آغاز پرفیسر اسلم جمشید پوری کی تحریر سے ہوتا ہے ۔انہوں نےانیس رفیع کے افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے یہاں علامتی اور ابہامی رویے کی جانب اشارہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
”۵۵سالہ افسانوی عہد میں انہوں نے کل ۰۶ کے قریب افسانے قلمبند کئے۔ یہ ان کے تخلیقی طور پرمحتاط ہونے کی علامت ہے۔ آپ کو ان کے تینوں مجموعوں میں ہر طرح کے افسانے مل جائیں گے۔ رومانی طر زکے افسانے ، کرداری افسانے ، مسائل کے گرد گھومتے افسانے ، مقامی معاملات کو اٹھاتے افسانے، اساطیری افسانے۔ غرض ہر قسم کے افسانے انیس رفیع کے یہاں ملتے ہیں۔ ان کے معیاری اور سنتے افسانوں میں سانپ سیڑھی ، پشت پہ رکھا آئینہ، دو آنکھوں کا سفر ،ریڑھ کی ہڈی، سبوتاژ، لکڑی کے پاﺅں والا آدمی ، وش پان کی کتھا ، قاف ، اب وہ اترنے وا لا ہے ،نصف بوجھ والا قلی ، میرے نام کی روٹی، کشکول خالی ہے، پنگا، گدا گر سرائے، کاٹھ کے پتلے، ساتواں بوڑھا، پیامبر،لوہے کی مٹھی، ایک سنا ہوا واقعہ ،کرفیو سخت ہے، مسٹر ڈاگ ، اب یہاں گدھے نہیں اترتے ، مورکھ کالی داس ،شب بھر دھواں، شہر گل،ہائی وے ، سبز راتوں کے شہید وغیرہ کا شمار ہونا چاہئے ۔ایک بات او ر بتاو ¿ں کہ انیس رفیع کے افسانے بہت آسان بھی نہیں ہیں۔ یہ آسانی سے واضح ہوتے ہیں نہ ذہن کی تفہیم میں آتے ہیں۔ قاری کو ان میں ڈوبنا پڑتا ہے۔ ان پر غور کرنا پڑتا ہے۔ ان میں آپ کو اشارے ملیںگے اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ ایک خاص مفہوم تک پہنچیں۔ یہ مفہوم ہو سکتا ہے مصنف سے الگ ہو اگر آپ کو ایک رخ دینا ہی مصنف کا کام اور کامیابی ہے ۔ “(انیس رفیع کے افسانے )
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے مشمولہ مضمون میںبطور خاص ’کرفیو سخت ہے ‘اور ’گدا گر سرائے ‘کے متون اور موضوع میں عصری آگہی کا مطالعہ پیش کیا ہے ۔ انہوں نے افسانے کی پرتیں کھولتے ہوئے قاری کو نئے انداز سے سوچنے کی دعوت دی ہے ۔
یہ گفتگو اہم ہو جاتی ہے جب کوئی تخلیق کار ہم عصر قلم کاروں کی تحریروں پر خامہ فرسائی کرتا ہے ۔انیس رفیع نے بے باکی سے اپنا تنقیدی موقف رکھا ،یہ ان کی مطالعہ پسندی اور خود اعتمادی کا مظہر ہے ۔ مقصو دانش کا مضمون اینس رفیع کی تنقیدی بصیرت کے حوالے سے مرحوم کی ناقدانہ صلاحیت کا اعتراف ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ”ظفر اوگانوی کے بعد انیس رفیع پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے فکشن کی تنقید پر خصوصی توجہ دی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی تنقیدی شعور کو صرف اردو زبان میں لکھی تنقید تک محدود نہیں رکھا۔ بنیادی طور پر وہ پالیٹکل سائنس سے منسلک رہے نیز دیگر علوم سے بھی گہری وابستگی رہی ہے۔ مغربی اور مشرقی تنقید سے انہیں گہرا شغف رہا ہے اور ان تمام مطالعات کا اظہار انہوں نے فکشن کی تنقید کے وسیلے سے کیا۔“(اردو فکشن اور انیس رفیع کی تنقیدی بصیر تیں )
انیس رفیع کے افسانوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سید احمد قادری نے جدیدیت کی انتہا اور اور قلم کاروں کے رویے سے سروکار رکھا ہے اور ان کی بعض خوبیوں کا ذکر بھی کیا ہے جس طرف ناقدین کی نگاہ کم جاتی ہے ۔ درجہ ذیل اقتباس سے ان کی افسانہ نگاری کے ادوار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
”انیں رفیع کے ایسے ابہام سے بھرے افسانوں کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ابتدائی دور میں جدیدیت سے متاثر ہو کر اپنے افسانوں میں تجریدیت کو شامل کرتے ہوئے خارجی احوال و احساس کی بجائے داخلیت کو ترجیح دینے سے انھیں نقصان پہنچا۔ جس کا بعد میں خود انیس رفیع کو احساس ہوا تھا کہ ان کے افسانوں میں ابہام (Absaridity) اور تجریدیت کا بہت زیادہ دخل رہتا ہے، جس کی وجہ کر ترسیل کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ترسیل کی ناکامی کا مسئلہ انیس رفیع کے پہلے افسانوی مجموعہ کے کچھ افسانوں میں ضرور ہے۔ مثلاًپولی تھن کی دیوار ترتیب ترمیم شدہ او کٹو پس اور پیش بٹن وغیرہ۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ان افسانوں میں اور مجموعہ کے دوسرے افسانوں مثلاًوش پان کی کتھا، وہ اترنے والا ہے، دو آنکھوں کا سفر اور شاہکار وغیرہ میں انہماک پوری طرح برقرا ر ہے ۔یہ انہماک کبھی تجس اور کبھی استغراق کی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے انیس رفیع کی تخلیقی صلاحیتوں اور افسانے پرفنی گرفت کا احساس ہوتا ہے۔ اور فطری تقاضوں کے ساتھ ساتھ عصری حسیت کی کارفرمائی بھی نمایاں طور پر انیس رفیع کے افسانوں میں موجود ہے۔ تہذیب واقدار کا بکھراو ¿ ، سماجی رشتوں سے شعوری اور لاشعوری طور پر پامالی ، عصر حاضر کا تناو ¿ ، ان سب کا اظہار انیس رفیع نے اپنے مخصوص و منفرد اسلوب میں بخوبی کیا ہے۔ ایسے افسانوں سے انیس رفیع کی منفرد پہچان بنتی ہے۔“(انیس رفیع کا افسانوی سفر )
احمد صغیر نے ان کے افسانوں میں سیاسی اور سماجی شعور کی کار فرمائی کو نمایاں کیا ہے ۔انہوں نے غروب سے پہلے ،ماجرا ،نصف بوجھ والا قلی ،موئن افسانے کے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔احمد صغیر نے اپنے مضمون میں ان کے مشہور افسانہ ’مولا دادا ‘ کے باطن سے تفصیلی مکالمہ کرتے ہوئے اس کے دلت ڈسکورس کو سماجی پس منظر میں دیکھنے کی سعی ہے ۔انیس رفیع کے مشہور زمانہ افسانہ ”کرفیو سخت ہے “کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
”شہر میں کر فیو سخت ہے۔ قاسم اور اسکا مرد داہر کے گھر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شہر کے بہت سارے گھر ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ قاسم بتاتا ہے کہ جب وہ شہر میں تھا تو اذان کی آواز آرہی تھی اور اسی ملبے سے لوگ ٹوپی پہن کر نکل رہے تھے اور کہیں جا رہے تھے۔ داہر کے لاکھ منع کرنے پر بھی قائم صالحین کے ساتھ گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ پولیس والے اسے ہاتھ اوپر کر کے ایک طرف چلنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اس آواز کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہر دو چار مکانوں کے بعد انہیں ملبہ نظر آتا ہے اور ان ملبوں سے لہولہان لوگ نظر آتے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی آذان کی آواز آرہی تھی وہاں مسجد ضرور تھی ان لوگوں نے بھی ہاتھ اوپر اٹھائے بہت لمبا سفر طے کرتے ہیں مگر ایک مقام پر پہنچ کر وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ لوگ نماز کے لئے با جماعت کھڑے ہیں مگر سب کے ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں بھی جماعت میں کھڑے ہو جاتے ہیں مگر انہیں حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب ان کے ہاتھ بھی اوپر سے نیچے نہ آسکے۔“(انیس رفیع کے افسانوں میں سیاسی وسماجی شعو)
سید محفوظ عالم کا مضمون ان معنوں میں اہم ہے کہ اس میں ان کی شخصیت اور اطوار کی جھلکیاں موجود ہیں ۔مضمون کے مطالعے اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم انیس رفیع جہاں اپنے ہم عمر ادبا میں مقبول تھے وہیں جواں سال اور جونیئر قلم کاروں سے شفقت روا رکھتے اور ان کی ہمت افزائی بھی کیا کرتے تھے ۔ان کے مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجے :
” انیس صاحب اپنی نوکری سے سبک دوشی کے بعد کم و بیش ہیں سال تک زندہ رہے۔ آخری دم تک ان کی رہائش سالٹ لیک میں ہی رہی۔ اپنی قیام گاہ میں رہ کر وہ خلوص نیتی سے اردوزبان وادب کی خدمت کرتے رہے۔ ادبی شخصیات سے ملتے۔ ریسرچ اسکالر اور تشنگان ادب اپنی جانکاری اور علم میں اضافہ کے لئے اکثر سوالات کرتے۔ انہیں بھی وہ تشفی بخش جواب دے کر رخصت کرتے۔ شہر کے علمی وادبی تقریبات میں شرکت کرنا ان کی ترجیحات میں سے تھیں۔ اکثر افسانہ نگار اور دیگر قلم کا رانی کتابوں پر تقاریظ لکھوانے آتے۔ وہ بھی انکار نہیں کرتے۔ وقت لے کر لکھ دیا کرتے۔ تقاریظ لکھنے کا سلسلہ شہر نشاط تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ ملک گیر سطح سے قلم کار تقاریظ لکھوانے کے لئے اپنا مسودہ بھیجتے۔ لکھنے میں تاخیر ہوتی لیکن انہیں بھی وہ مایوس نہیں کرتے۔ شہر آہن ( جمشید پور ) کے ایک افسانہ نگار ناصر راہی نے مجھ سے اپنے افسانوں کا مجموعہ ‘سہ شب کا قصہ پر انیس رفیع صاحب سے تقریظ لکھوانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں ان کا مسودہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ طبیعت ناساز تھی لیکن پھر بھی انہوں نے ان کے مسودے کی ورق گردانی شروع کر دی۔ ایک دو افسانہ پڑھا بھی۔ کچھ دیر بعد مجھ سے گویا ہوئے۔ ٹھیک ہے لکھ دوں گا۔ اور ایک ماہ بعد انہوں نے اپنا وعدہ وفا کیا۔“ (اے۔ آر۔ خان سے انیس رفیع تک کا سفر)
فخر الدین عارفی کا مضمون ان کے تعلقات اور ادبی کارناموں پہ محیط ہے ۔انہوں نے ان کی ملازمتی ذمہ داریوں کے بارے میں لکھا ہے کہ” ایک طویل مدت تک انیس رفیع صاحب پٹنہ کی ادبی محفلوں کی جان رہنے کے بعد ، جب آل انڈیا ریڈیو میں ان کی ملازمت ہوگئی تو وہ پٹنہ کو چھوڑ کر گورکھ پور چلے گئے تھے جہاں انہوں نے 3 جون 1975ءکو بحیثیت پروگرام اکز یکیوٹیو جوائن کیا اور کافی دنوں تک وہاں رہے۔ وہ 1992ءمیں اسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہو کر دور درشن کلکتہ چلے گے، جہاں سے اردو نیوز کی شروعات ہوئی تھی ، پھر وہ 1997میں دور درشن ڈیرو گڑھ آسام چلے گے۔ پھر 1999 میں اسی منصب پر ٹرانسفر ہو کر مظفر پور ( بہار ) چلے آئے ، پھر 2003 میں وہ دور درشن کلکتہ واپس ہو گئے۔ اپنی ملازمت کے درمیان وہ آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں بھی (PEX) کی حیثیت سے رہے۔ لیکن اپنی ملازمت مکمل انہوں نے کو ہیما، ناگالینڈ میں کی اور وہیں سے 2005میں Sr.Director (سینئر ڈائریکٹر ) کی حیثیت اپنی سے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 2006ءسے مستقل طور پر کلکتہ میں سکونت پذیر ہیں۔(انیس رفیع : جدید افسانے کا ایک معتبر نام)
اس گوشہ میں شامل ڈاکٹر احسان عالم کا مضمون عرق ریزی سے لکھا گیا ہے ۔مضمون نگار نے انیس رفیع کے مختصر کوائف کے بعد ان کے افسانوی مجموعوں اور پھر ان کے مشہور افسانوں کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے ۔انہوں نے بنگال میں افسانہ نگاری کو بطور تمہید پیش کرتے ہوئے انیس رفیع کی تخلیقی اپج سے گفتگو کی ہے ۔انہوں نے افسانوں کے حوالے اور ناقدین کی آراءسے اپنی گفتگو کو مدلل بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
”جہاں تک انیس رفیع کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے، انھوں نے کبھی بھی سستی شہرت کے لئے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنا طرز اور سلیقہ تحریر و تخلیق کو اپنے ٹریک سے بنتے نہیں دیا۔ ان کا ایک مخصوص انداز ہے جس کی نقل کی افسانہ نگار نے نہیں کی ہے اور نہ کوئی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انفرادیت آج بھی برقرار ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ علامت تمثیل اور استعارے کا ہوں بہترین انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ سیدھی بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی کہانی کا پلاٹ کچھ اور ہوتا ہے مگر معنویت کچھ اور۔ کہانی پڑھ کر قاری کو فوری طور پر ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کافی اور۔ دیر تک سوچ و فکر کی گہرائی میں غوطہ لگانے کے بعد حقیقت سے آشنائی ہوتی ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے یہ افسانہ کیوں اور کس کے لئے لکھا ہے۔ رمز و کنایہ اور ابہام کی فراوانی ان کے افسانوں میں زیادہ ملتی ہے۔“(جدید فنی لوازم سے آراستہ افسانہ نگار : انیس رفیع)
ڈاکٹر منصور خوشتر ،مدیر دربھنگہ ٹائمزنے انیس رفیع کے فکر و فن پر محیط مضمون میں ان کی تعلیم و تربیت ، زندگی کے حالات ،ملازمت کا اختصار سے ذکر کرتے ہوئے ان کے افسانوں کے موضوعات کو ذیلی سرخیوں کے توسط سے پیش کیا ہے ۔انہوں نے ان کے اسلوب پر خامہ پرسائی کی اور ان کی خصوصیات کا حوالہ دیا ہے ۔ مشاہیر ادباءکے خیالات کی شمولیت اس مضمون کا خاص ہے ۔انہوں اپنے مطالعے کو اس طور پر پیش کیا ہے :
” انیس رفیع کا فن ایک ایسی دنیا تخلیق کرتا ہے جو بیک وقت حقیقی بھی ہے اور تجریدی بھی۔جہاں کردار، مکالمے اور فضا سب مل کر ایک وسیع تر فکری اور تہذیبی پس منظر تشکیل کرتا ہے۔ ان کے افسانے نہ صرف عہد کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ عمیق معانی کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ ان میں انسانی رشتے ، اخلاقی گراوٹ ، طبقاتی کش مکش اور سیاسی اتھل پتھل اہم موضوعات کے طور پر انجرتے ہیں جو افسانوں کو اردو ادب میں ایک اہم اور اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں۔
انیس رفیع کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ خارجی مسائل تک محدود نہیں رہتے بلکہ فر کی داخلی کیفیات اور نفسیاتی کش مکش کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا طرز بیان اور اسلوب اردو افسانے میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ وہ حقیقت نگاری ، علامت نگاری اور نفسیاتی تجزیے کو ایک نئے زاویے سے برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب بیان بیانہ محض واقعات کی ترتیب نہیں بلکہ کہانی کے پس پردہ وجودیاتی مسائل کا آئینہ دار بھی ہے۔“(انیس رفیع : فکر وفن کا منفر د حوالہ)
گوشہ ¿ انیس رفیع کو وقیع بنانے میں مدیر نے کافی تگ و دو کی ہے ۔ہر اعتبار سے اسے مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔محمد غالب نشتر کے ذریعے لیا گیا انٹرویو انہیں اور ان کے بے باک خیالا ت کو جاننے کا ذریعہ بنا ہے ۔اس انٹرویو میں ان کے کئی افسانوں کے پس منظر اور افسانہ نگاری کے محرکات کا بیان ہے ۔ان کے افسانوں میں ارضیت کے سوال پر انہوں نے صداقت سے پر دل کو چھو لینے والا جواب دیا۔ملاحظہ کیجئے:
”بنگالہ اور بہار، دونوں صوبوں کی مٹی میرے خمیر میں ہے۔ ظاہر ہے جس فضا میں میں نے آنکھیں کھولیں، جہاں پروان چڑھا ، شعور کی دنیا میں داخل ہوا۔
وہیں کی لفظیات میری اساس ہیں۔ ا ±سی سرمائے کو میں نے اپنے افسانے میں انویسٹ کرتا ہوں تا کہ یہ ضائع نہ ہوں اور یہ بھی درست ہے کہ میرے افسانے اپنے عہد اور اپنے علاقے کو درشاتے ہیں کیوں کہ وہ لفظیات اور وہ فضا، افسانوں کو زندہ اور متحرک کرتی ہیں اور یہ بات حسی پہلو پر بھی دال ہے یعنی فن کار جہاں رچتا بستا ہے، ا ±س کی حسیات بھی اس کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوتی ہیں چوں کہ میں نے اپنے عصر کی حسیات کو افسانوں میں برتا ہے اور اسے فن پارے کی شکل دی ہے لہذا میرے افسانوں میں عصری حیات زیادہ کار فرما ہیں۔(انٹرویو سے)
دربھنگہ ٹائمزدربھنگہ کے اس شمارہ میں اور بھی بہت کچھ ہے جو مطالعہ پسند اذہان کے لئے کسی تحفہ سے کم نہیں ہے ۔ حق ©انی القاسمی (سولر پلیکسس، ستیہ پال آنند اور سہسرر)اور سےفی سرونجی(ستےہ پال آنند،جو مشترکہ ہندوستانی تہذےب کے علم بردار تھے)کے مضامین کے ذریعے معروف ادیب ستیہ پال آنند کو خراج ؑقیدت پیش کیا گیا ہے۔ متفرق موضوعات پر مضامین شامل ہیں جنکی تعداد نو ہے ۔اسی طرح بارہ تبصراتی مضامین کی شمولیت سے اس رسالے کی ہمہ گیری کا ندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
شعیب نظام کا تحریر کردہ خاکہ ’ بھابھی‘ متاثر کرتا ہے ۔گذشتہ شماروں کی طرح کتھا کہانی کا حصہ دلچسپ ہے ۔ جن کی سواری (مشتاق احمد نوری)،تعزیت کی ایک رات (رفیع حیدر انجم ) ، تماشائی کا حیراں ہونا(شاہداختر)،آوازِگریہ…..(ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی)سائے کی سرگوشیاں(ڈاکٹر محمد نہال افروز )، کتابیں بول اٹھیں(عطا اللہ احمد ) افسانے موضوعاتی تنوع کے باوجود عصری مسائل و حالا ت کے آئینہ دار ہیں ۔ شبیر احمد کا تازہ ناول جُگ بانیکا ساتواں باب او ر ڈاکٹر منصور خوشتر کا سفر نامہ ’ دارجلنگ: خوابوں کا سفر، یادوں کی کہانی‘اس شمارے کی نثری مشمولات میں چار چاند لگاتے ہیں ۔
شاعری کا حصہ ڈاکٹر جمال اوےسی،مظفر ابدالی،خالد عبادی کی نظموں اور پروفیسر طرزی،نذیر فتح پوری ،نذر فاطمی کی غزلوں سے آراستہ ہے ۔پرویز رحمانی کی12 غزلیں بطور خاص پیش کی گئی ہیں اور پرویز رحمانی کا تعارف ڈاکٹر عطا عابدی نے سلیقے سے کرایا ہے ۔ دربھنگہ ٹائمز کا ذوقی نمبر (ڈاکٹر احسان عالم)،دربھنگہ ٹائمز کی ادبی خدمات(ڈاکٹر مجیر احمد آزاد )مضامین اس رسالے کو جاننے کا وسیلہ بنا ہے ۔’کتابوں کی باتیں‘میں نئی پرانی کتابوں پہ تبصرے اردو آبادی کے ادباکی تصنیفی و تالیفی سرگرمی کو درشاتا ہے ۔
کل ملا کر یہ شمارہ قارئین کے ذوق کو جلا بخشنے میں معاون ہے ۔ ایک ادبی رسالے میں جو مواد ہونا چاہئے اس کسوٹی پر یہ کھڑا اترتا ہے اور مدیر کا یہ بیان صحیح ثابت ہوتا کہ ”یہ شمارہ محض ایک اشاعت نہیں، بلکہ اردو ادب کے قاری کے لیے ایک سفرنامہ ¿ ذوق ہے، جو دربھنگہ سے نکل کر تاجکستان، جرمنی، امریکہ، جاپان، سعودی عرب، قطر، بحرین، آسٹریلیا اور دنیا بھر میں اردو کے قلوب تک پہنچ رہا ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ یہ شمارہ آپ کے دلوں کو بھی ا ±سی طرح روشن کرے جیسے ہماری محنت کے چراغ کو آپ کی محبتوں کا ایندھن روشن رکھتا ہے۔ آپ کی آراء، آپ کی محبت، اور آپ کی دعائیں ہی دربھنگہ ٹائمز کا اصل سرمایہ ہیں۔“
دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کی پوری ٹیم کو مبارکباد اور نیک تہنیت۔
٭٭٭
Like this:
Like Loading...