جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ:
سرد جنگ کا خوف اکیسویں صدی میں واپس
ازقلم: اسماء جبین فلک
عالمی استحکام کی نازک عمارت، جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بڑی مشکلوں سے تعمیر کی گئی تھی، آج ایک بار پھر لرز رہی ہے، کیوں کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی، پیچیدہ اور پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک دوڑ میں داخل ہو چکی ہے۔ اس بحران کے مرکز میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ دھماکا خیز اعلان ہے جس میں انہوں نے 33 سال کے طویل وقفے کے بعد امریکہ کے جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک پالیسی کی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ اس بات کا علامتی اعتراف ہے کہ ہتھیاروں پر قابو پانے کا وہ دور، جس نے کئی دہائیوں تک دنیا کو ایک خوف ناک تباہی سے بچائے رکھا، اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتِ حال کسی ایک ملک کے اقدام کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر بداعتمادی، ٹوٹتے ہوئے معاہدوں اور ایک نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی ابھرتی ہوئی حقیقتوں کا ایک سنگم ہے، جہاں طاقت کا توازن اب صرف واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان نہیں، بلکہ بیجنگ سمیت کئی نئے کھلاڑیوں کے گرد گھوم رہا ہے۔
اس نئی جوہری دوڑ کا تجزیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ” کی حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کے گہرے فلسفے کو سمجھے بغیر نامکمل ہے۔ ان کا یہ اعلان کہ "وہ کر رہے ہیں، اس لیے ہم بھی کریں گے” دراصل ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بین الاقوامی معاہدوں اور سفارتی نزاکتوں پر ٹھوس، دکھائی دینے والی طاقت کو ترجیح دیتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اس اقدام کا جواز روس، چین، پاکستان اور شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی جوہری سرگرمیوں کو قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ ممالک خفیہ طور پر زیرِ زمین تجربات کر رہے ہیں، جن کے بارے میں دنیا کو لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ ایک ایسی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں امریکہ کے حریف خفیہ طور پر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، اور ایسے میں امریکہ کے لیے یک طرفہ طور پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا قومی سلامتی سے غداری کے مترادف ہوگا۔ اس فیصلے کا فوری محرک روس کے جدید ترین ہتھیاروں، خاص طور پر "پوسائیڈن” سپر ٹارپیڈو اور "بوریوسٹنک” ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل کے کامیاب تجربات ہیں۔ یہ ‘قیامت خیز’ ہتھیار، جو روایتی میزائل دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، انہوں نے مغربی دفاعی حکمتِ عملی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا ان کے موجودہ جوہری ہتھیار اس نئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگرچہ امریکی وزیر توانائی نے وضاحت کی ہے کہ ان تجربات میں فی الحال جوہری دھماکے شامل نہیں ہوں گے، لیکن محض تجربات کی بحالی کا اعلان ہی ایک ایسا علامتی قدم ہے جو ہتھیاروں کی دوڑ کو ایک نئی مہمیز دینے کے لیے کافی ہے۔
تاہم، یہ بحران صرف امریکہ اور روس کے درمیان روایتی دشمنی کا تسلسل نہیں ہے۔ اس نئی دوڑ کی سب سے خطرناک اور غیر متوقع جہت چین کا ایک کلیدی جوہری کھلاڑی کے طور پر ابھرنا ہے۔ سرد جنگ کے دوران، چین نے ایک محدود جوہری مزاحمت کی پالیسی اپنائے رکھی، لیکن صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین اب ایک عالمی معیار کی فوجی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور اس کے لیے ایک وسیع اور جدید جوہری ذخیرہ ناگزیر ہے۔ 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق، چین اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 600 تک لے آیا ہے اور امریکی محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ اس دہائی کے آخر تک یہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے، جو عالمی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ چین کے نئے میزائل سائلوز کی تعمیر اور اس کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اسے وہ وسائل فراہم کر رہی ہے جو کبھی صرف امریکہ اور سوویت یونین کے پاس تھے۔ اس طرح، دنیا اب دو قطبی جوہری مقابلے سے نکل کر ایک انتہائی پیچیدہ ‘سہ فریقی’ مسئلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں تین بڑی طاقتوں کے درمیان غلط فہمی اور حساب کی غلطی کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ عالمی کشیدگی علاقائی سطح پر بھی سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں، بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری توازن ہمیشہ سے نازک رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ ان دونوں ممالک پر بھی اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ بھارت (180 ہتھیار) اپنی ‘پہل نہ کرنے’ کی پالیسی پر قائم ہے، لیکن چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پاکستان (170 ہتھیار) کے ساتھ روایتی دشمنی اسے اپنی صلاحیتوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ دوسری طرف، پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کو بھارت کی بڑی روایتی فوج کے خلاف ایک توازن کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس کی حکمت عملی علاقائی استحکام کے لیے ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔ اسی طرح، شمالی کوریا (50 ہتھیار) کا جوہری پروگرام مشرقی ایشیا میں ایک مستقل خطرہ ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر اعلانیہ جوہری صلاحیت (90 ہتھیار) اس خطے کی پہلے سے پیچیدہ سیاست میں ایک اور غیر یقینی عنصر کا اضافہ کرتی ہے۔ یوکرین کی مثال نے دنیا بھر کے چھوٹے ممالک کو یہ تلخ سبق سکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے بغیر ان کی خود مختاری ہر وقت خطرے میں رہتی ہے، جس سے مستقبل میں جوہری پھیلاؤ کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
اس بحران کی جڑیں ہتھیاروں پر قابو پانے کے اس عالمی ڈھانچے کے ٹوٹنے میں پیوست ہیں جسے کئی دہائیوں کی محنت سے بنایا گیا تھا۔ ‘جامع جوہری تجربہ پر پابندی کے معاہدے’ (CTBT) جیسے معاہدے، جن پر 187 ممالک نے دست خط کیے، آج اپنی افادیت کھو رہے ہیں کیوں کہ امریکہ جیسی بڑی طاقتوں نے کبھی اس کی توثیق ہی نہیں کی۔ امریکہ کا آخری جوہری تجربہ 1992 میں ہوا تھا، جس کے بعد ایک غیر رسمی پابندی قائم رہی، لیکن ٹرمپ کے اعلان نے اس پابندی کو توڑ دیا ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ اور روس کے درمیان باقی ماندہ معاہدوں، جیسے کہ ‘نیو سٹارٹ’، پر دباؤ بڑھے گا، بلکہ یہ چین اور روس کو بھی کھلی چھوٹ دے گا کہ وہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے تجربات دوبارہ شروع کریں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جب شفافیت اور تصدیق کے بین الاقوامی طریقہ کار ختم ہو جاتے ہیں، تو ہر ملک بد ترین صورتِ حال فرض کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس سے ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہوتا ہے جہاں ہر اقدام جوابی اقدام کو جنم دیتا ہے۔
آج دنیا جس موڑ پر کھڑی ہے، وہ سرد جنگ کے مقابلے میں شاید زیادہ خطرناک ہے۔ اس وقت دشمن واضح تھا اور رابطے کے راستے موجود تھے۔ آج کی کثیر قطبی دنیا میں دشمنیاں زیادہ پیچیدہ ہیں اور غلط فہمیوں کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی، بشمول ہائپر سونک میزائل اور مصنوعی ذہانت، اس خطرے کو مزید بڑھا رہی ہے۔ جوہری تباہی کا وہ خوف، جسے بیسویں صدی کی تاریخ کا ایک باب سمجھ کر بھلا دیا گیا تھا، آج اکیسویں صدی کی ایک زندہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عالمی برادری صرف ہتھیاروں کی گنتی پر توجہ نہ دے، بلکہ اس اعتماد اور تعاون کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرے جو اس خطرناک دوڑ کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔
#NuclearArmsRace, #NewColdWar, #GlobalSecurity, #NuclearDisarmament, #WorldPeace, #Nukes, #21stCenturyThreat,
