ڈیجیٹل دور کا میٹھا زہر: لالچ، نفسیات اور ٹیکنالوجی کا گٹھ جوڑ
(خوابوں کے سوداگر، جیبوں کے لٹیرے)
———–
ازقلم: اسماء جبین فلک
———–
عامر، ایک نجی فرم کا وہ محنتی ملازم تھا جس کے خواب اس کی تنخواہ سے کہیں بڑے تھے۔ ہر روز کی طرح اس شام بھی وہ تھکا ہارا گھر لوٹا تو اس کے فون پر ایک انجان واٹس ایپ پیغام جگمگا رہا تھا: ”گھر بیٹھے روزانہ ہزاروں کمائیں! صرف چند یوٹیوب ویڈیوز کو ‘لائک’ اور ‘سبسکرائب’ کریں اور فوری ادائیگی پائیں۔” عامر کے اندر کا منطقی ذہن چیخا کہ یہ ایک فریب ہے، لیکن اس کے دل کے کسی کونے میں چھپی اضافی آمدنی کی خواہش نے اسے ایک موقع دینے پر اکسایا۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے دیے گئے تین کام مکمل کیے اور اگلے ہی لمحے اس کے بینک اکاؤنٹ میں ساٹھ ہزار روپے کی منتقلی کا پیغام آ گیا۔ یہ رقم محض پیسہ نہیں تھی، یہ اعتماد کا وہ بیج تھا جسے انتہائی مہارت سے بویا گیا تھا۔ عامر کا شک پگھلنے لگا اور اس کی جگہ ایک ولولہ انگیز امید نے لے لی، ایک ایسی امید جو اسے ایک خطرناک راستے پر لے جانے والی تھی۔
یہاں سے کہانی ایک نیا، زیادہ پرکشش موڑ لیتی ہے۔ اسے ایک خصوصی ”VIP ٹیلی گرام گروپ” میں شامل کیا گیا، ایک ایسی ڈیجیٹل دنیا جہاں ہر طرف کامیابی کے اسکرین شاٹس اور ڈالروں کی چمک تھی۔ اسے بتایا گیا کہ اب وہ بڑے منافع کے لیے ”سرمایہ کاری” کر سکتا ہے۔ پہلا ٹاسک: پانچ لاکھ روپے ایک خیالی پراڈکٹ کی خریداری کے لیے جمع کروائیں اور صرف چند گھنٹوں میں ساڑھے سات لاکھ روپے واپس پائیں۔ پچاس فیصد فوری منافع! عامر کے ذہن پر چھائے خوشی اور اعتماد کے بادلوں نے خطرے کی ہر علامت کو ڈھانپ لیا تھا۔ اس نے رقم منتقل کی اور واقعی، وعدے کے مطابق اسے ساڑھے سات لاکھ روپے مل گئے۔ اب وہ خود کو ایک ذہین سرمایہ کار سمجھ رہا تھا، جس نے سسٹم کا راز پا لیا تھا۔ اگلا ٹاسک آیا: پچاس لاکھ روپے جمع کروائیں اور اسّی لاکھ روپے واپس حاصل کریں۔ عامر نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی، یہاں تک کہ کچھ قرض لے کر بھی، اس امید پر لگا دی کہ چند گھنٹوں میں اس کی قسمت بدل جائے گی۔ لیکن جیسے ہی رقم منتقل ہوئی، کھیل کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اسے بتایا گیا کہ ”سسٹم میں خرابی” آ گئی ہے اور اپنی اصل رقم اور منافع واپس لینے کے لیے اسے مزید ایک کروڑ روپے کا ”آڈٹ ڈپازٹ” کرانا ہو گا۔ اسی لمحے عامر پر حقیقت کی بجلی گری۔ وہ ایک ایسے میٹھے جال میں پھنس چکا تھا جس نے اس کے خواب ہی نہیں، اس کی پوری زندگی کی کمائی نگل لی تھی۔
عامر کی کہانی بھارت و دنیا بھر میں ہزاروں ان لوگوں کی المناک داستان ہے جو ہر سال آن لائن مالیاتی فراڈ کا شکار ہوتے ہیں۔ ایف آئی اے کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق، ایسے مالیاتی جرائم میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس مسئلے کا تجزیہ اکثر ایک سادہ اور سطحی لیبل پر آ کر ختم ہو جاتا ہے: ”لالچ”۔ یہ کہنا کہ یہ لوگ محض لالچی تھے، حقیقت کی پیچیدگی کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تحریر اس مفروضے کو چیلنج کرتی ہے اور یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ آن لائن فراڈ کا شکار ہونا انفرادی اخلاقی کمزوری کا نہیں، بلکہ انسانی نفسیات کے منظم استحصال کا نتیجہ ہے، جس میں دھوکہ باز جدید ٹیکنالوجی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ان موروثی علمی کمزوریوں کو نشانہ بناتے ہیں جو ہم سب میں موجود ہیں۔ اس دھوکہ دہی کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں اترنا ہوگا، جہاں نوبل انعام یافتہ ماہرِ نفسیات ڈینیئل کاہنمین جیسے مفکرین نے انسانی ذہن کے دو نظاموں کا نظریہ پیش کیا ہے۔ کاہنمین کے مطابق، ہمارا دماغ دو طریقوں سے کام کرتا ہے: سسٹم 1، جو تیز، خودکار، جذباتی اور لاشعوری ہے؛ اور سسٹم 2، جو سست، منطقی، تجزیاتی اور شعوری ہے۔ آن لائن سکیمرز کا پورا کھیل اسی طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے منطقی سسٹم 2 کو مکمل طور پر بائی پاس کر کے سیدھے ہمارے جذباتی سسٹم 1 کو متحرک کر دیں۔ عامر کو ملنے والا ابتدائی منافع دراصل اس کے سسٹم 2 کو سلانے اور سسٹم 1 کو یہ پیغام دینے کے لیے تھا کہ ”سب ٹھیک ہے، یہ ایک محفوظ موقع ہے۔” ایک بار جب ہمارا جذباتی ذہن کنٹرول سنبھال لیتا ہے، تو منطق اور تنقیدی سوچ پسِ پشت چلی جاتی ہے۔
اس نفسیاتی جنگ میں دھوکہ باز ماہر سماجی نفسیات رابرٹ سیالڈینی کے بیان کردہ ”اثر و رسوخ کے اصولوں” کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ ٹیلی گرام گروپ میں جعلی ممبران کی کامیابی کے اسکرین شاٹس ”سماجی ثبوت” کا اصول استعمال کرتے ہیں، جو ہمارے ذہن کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر اتنے سارے لوگ یہ کام کر رہے ہیں تو یہ یقیناً درست ہو گا۔ ”محدود مدت کی پیشکش” کا حربہ ”کمیابی” کا احساس پیدا کرتا ہے، جو ہمارے سسٹم 1 کو فوری فیصلہ کرنے پر اکساتا ہے۔ یہ نفسیاتی حربے ہماری چند بنیادی ذہنی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جن میں سرِفہرست ”تصدیقی تعصب” ہے، یعنی جب عامر کو ابتدائی منافع ملا تو اس کا دماغ فعال طور پر صرف ان معلومات کو قبول کرنے لگا جو اس کے اس یقین کو پختہ کریں کہ یہ اسکیم جائز ہے۔ اس نے ان تمام خطرے کی گھنٹیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اس کے بعد ”ڈوبی ہوئی لاگت کا مغالطہ” کام آتا ہے، جو سب سے طاقتور نفسیاتی جال ہے۔ جب عامر سے مزید رقم مانگی گئی تو اس کا منطقی ذہن جانتا تھا کہ یہ غلط ہے، لیکن اس کا جذباتی ذہن اپنی پچھلی لگائی ہوئی خطیر رقم کو ڈوبتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اس امید پر مزید رقم لگانے پر غور کرنے لگا کہ شاید اس طرح اس کی پچھلی رقم بچ جائے، بالکل اسی طرح جیسے کوئی جواری ہاری ہوئی رقم واپس جیتنے کے لیے مزید جوا کھیلتا ہے۔
لیکن یہ نفسیاتی کمزوریاں خلا میں کام نہیں کرتیں۔ ان کے پھلنے پھولنے کے لیے ایک سماجی اور معاشی ماحول بھی سازگار ہوتا ہے۔ بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور بہتر طرزِ زندگی کی شدید خواہش لوگوں کو ایسے شارٹ کٹس کی طرف راغب کرتی ہے۔ جب جائز طریقوں سے خواب پورے ہوتے نظر نہیں آتے، تو فوری دولت کے وعدے غیر معمولی طور پر پرکشش ہو جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے اس آگ کو مزید ہوا دی ہے۔ کرپٹو کرنسی اور گمنام ڈیجیٹل والیٹس نے دھوکہ بازوں کے لیے رقم کو سرحدوں کے پار منتقل کرنا اور اپنی شناخت چھپانا انتہائی آسان بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ان کا سراغ لگانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل، جو اب ایک قومی ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے، ایک کثیر الجہتی حکمتِ عملی کا تقاضا کرتا ہے۔ انفرادی سطح پر، ہمیں صرف تکنیکی نصیحتوں سے آگے بڑھ کر ”نفسیاتی دفاع” کی تعلیم کو عام کرنا ہو گا۔ ہمیں لوگوں کو ان علمی تعصبات کے بارے میں سکھانا ہو گا جو ہمیں کمزور بناتے ہیں۔ ادارہ جاتی سطح پر، بینکوں اور مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ مشکوک ٹرانزیکشنز پر خودکار انتباہی نظام اور ”کولنگ آف پیریڈ” جیسے اقدامات متعارف کروائیں۔ حکومتی سطح پر، سائبر کرائم قوانین پر سختی سے عمل درآمد اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ان سرحد پار نیٹ ورکس کو توڑنے کی اشد ضرورت ہے۔
آخر میں، عامر کی کہانی محض لالچ کی نہیں، بلکہ ایک جدید المیے کی داستان ہے جہاں ٹیکنالوجی اور نفسیات کا مہلک امتزاج انسانی کمزوریوں کا شکار کرتا ہے۔ اس کا نشانہ کوئی بھی بن سکتا ہے؛ ایک طالب علم، ایک گھریلو خاتون، ایک ریٹائرڈ فوجی، یا ایک ذہین پروفیشنل۔ جب تک ہم اس مسئلے کو ایک جامع تنقیدی نظر سے نہیں دیکھیں گے اور اس کی جڑوں میں موجود نفسیاتی، سماجی اور معاشی عوامل کو نہیں سمجھیں گے، ہم صرف پتوں کو کاٹتے رہیں گے اور جڑیں مزید پھیلتی رہیں گی۔ اس ڈیجیٹل دور میں مالی خواندگی سے زیادہ اہم نفسیاتی خود آگاہی ہے، کیونکہ اس نئے میدانِ جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار آپ کا اپنا تربیت یافتہ ذہن ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#sweetpoison, #digitalage, #greed, #psychology, #technology,
