Skip to content
بہار نتائج: الٹی ہوگئی سب تدبیریں
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
بہار انتخاب کے نتائج بھی آگئے ۔اس انتخاب میں ایک طرف تھکی ہوئی بی جے پی اور اس کے ساتھ کائیاں الیکشن کمیشن تھا اور اس کے مقابلے پرجوش حزب اختلاف کے ساتھ دلیر عوام تھے ۔ ملک بھر کے لوگ یہ توقع کررہے تھے اس بار بہار میں حزب اختلاف اور عوام مل کر مودی اور نتیش کو دھول چٹا دیں گے مگر الیکشن کمیشن نے وہ خواب چکنا چور کردیا۔ ان انتخابی نتائج کا پچھلے اعدادو شمار سے موازنہ کریں تو بی جے کا ووٹ تناسب 19.8ے ڈیڑھ فیصد بڑھ کر 21.25فیصد پر جاپہنچا مگر اس کی نشستوں میں 17 یعنی 23 فیصد کا اضافہ ہوگیا ۔ اسی طرح جے ڈی یو کا ووٹ فیصد تو صرف 3.33 فیصد بڑھا مگر سیٹ 43سے بڑھ کر 78پر پہنچ گئی یعنی81فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس آر جے ڈی کے ووٹ کا تناسب صرف 0.37 فیصد گھٹا مگر سیٹیں 75 سے 30پر آگئیں یعنی 60 فیصد گھٹ گئیں۔ اسی طرح کانگریس کا ووٹ 1.48 فیصد کم ہوا مگر نشستیں 19 سے کم ہوکر 4۴ پر آگئیں یعنی 79 فیصد کی کمی ہوگئی۔ اس ڈنڈی مارنےکو ہاتھ کی صفائی تو کہہ سکتے ہیں مگر محنت کی کمائی کہنا مشکل ہے ۔ اس مشین کی صفائی پر میر تقی میر کے یہ اشعار صادق آتے ہیں؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یہ اشعارالیکشن کمیشن اور شاہ جی کے گٹھ بندھن کی مکمل نمائندگی کرتے ہیں۔ متحدہ قومی محاذ کو اس عظیم کامیابی کے بعد کھلے عام اپنے رائے دہندگان کے بیچ آکر جشن منانا چاہیے تھا اور الیکشن کمیشن کے سربراہ گیانیش کمار کو حسنِ انتظام کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے تھا مگر الٹا ہوگیا ۔ وزیر اعلیٰ اور الیکشن کمیشن کے حفاظتی دائروں میں اضافہ کردیا گیا انتظامات سخت تر کردئیے گئے ۔ یہ دراصل چور کی داڑھی میں تنکا کا اشارہ ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ اتنی بڑی چوری کے بعد عوام کا غصہ بھڑک سکتا ہے۔ اس لیے یہ لوگ اپنے ان رائے دہندگان سے ڈر رہے ہیں جنہوں نے انہیں کامیاب کیا ہے۔ کوئی اگر اس کو مخالفین کا خوف کہتا ہے تب بھی انہیں اپنے حامیوں پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ ان کی حفاظت کریں گے ۔ اس موقع پر امیت شاہ سب زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہیں کی نگرانی میں یہ ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔
انتخابی نتائج کے بعد خوش ہوکر امیت شاہ نے فرمایا کہ بہار کی عوام نے درندازوں کی حفاظت کرنے والوں کو سبق سکھایا ہے جبکہ بہار کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ درانداز کہاں اور کتنےتھے؟ایس آئی آر کرانے والا ان کی آنکھوں کا تارہ گیانیشور تعداد کیوں نہیں بتاتا؟ کوئی کہتا ہے ۶ ملے ان میں سے ۳ کی موت ہوچکی ہے۔ کسی کے مطابق تین سو ملے ان میں سے بھی دوتہائی ہندو ہیں۔ ظاہر ہے بنگلہ دیش سے آنے والا ڈرا ہو شرنارتھی تو بی جے پی کو ہی ووٹ دے گا۔ دراندازوں کی آڑ میں امیت شاہ اگر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے اتحاد المسلمین تو پانچ نشستوں پر پھر سے جیت گئی۔ ان کی تعریف کے مطابق اگر مسلمانوں کے محافظوں کو عوام نے سبق سکھایا تو ایم آئی ایم کیسے کامیاب ہوگئی؟ اندر کی بات یہ ہے 2023سے بی جے پی ریاستی انتخابات میں فراڈ کا تجربہ کر کے ہندوستانی ووٹرس کے صبر و ضبط کا امتحان لے رہی ہے اور ہر مرتبہ اسے نوید مسرت ہی ملی ہے یعنی عوام نے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا۔ عوام کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ ؎
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
پارلیمانی انتخاب سے قبل مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ریاستی انتخابات ہوئے تھے۔ سارا گودی میڈیا چھتیس گڑھ میں کانگریس کی کامیابی پر مہر ثبت کررہا تھا۔مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کی حالت پتلی تھی اور راجستھان میں برابر کا مقابلہ تھا۔ اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا تھا مگر تینوں مقامات پر بی جے پی جیت گئی اور مدھیہ پردیش میں غیر معمولی کامیابی ملی ۔ بہار کے اندر نتیش کمارکی حالت مہاراشٹر کے ایکناتھ شندے جیسی ہوگئی ہے۔ان کو ابتداء میں کم نشستوں کے باوجود وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ بہار میں بھی پچھلی بار کم نتیش کمار کے ساتھ یہی ہوا لیکن اس بار مہاراشٹر کے اندر بی جے پی نے ووٹ چوری کرکے اتنی زیادہ سیٹیں جیت لیں کہ ایکناتھ کے بغیر اجیت پوار کی مدد سے حکومت سازی کے قابل ہوگئے اور ایکناتھ کو سیاسی اعتبار سے اناتھ (یعنی یتیم ‘کردیا۔
بہار میں حزب اختلاف کی انتخابی مہم نے اس بار ماضی کی یاد تازہ کردی تھی ۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک جنگ آزادی اسی ریاست کے چمپارن سے شروع ہوئی اس لیے اسے گاندھی جی کی کرم بھومی (میدانِ کار) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی سرزمین نے موہن داس کرم چند گاندھی کو بابائے قوم کے خطاب سے نوازا یہیں سے انگریزوں کے خلاف باضابطہ بغاوت آغاز ہوا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ چمپارن میں برطانوی حکمرانی کے دوران زمیندار کسانوں سے زبردستی نیل کی کھیتی کراتے ، ان پر بے انتہا ظلم کرتے اور غیر قانونی ٹیکس بھی عائد کردیتے تھے۔ 1917 میں چمپارن کےجسولی پٹی گاؤں ایک کسان کو مارا پیٹا گیا تو اگلے دن گاندھی جی وہاں پہنچے ۔ واپسی میں چندرہیا گاؤں کے ضلع مجسٹریٹ ڈبلیو بی ہائکوک نے گاندھی جی کو جلد از جلد چمپارن چھوڑ کر جانےکا حکم دیا اورگرفتار کرواکے ایس ڈی او کورٹ کے سامنے پیش کردیا ۔ اس کے بعد عوام کا ایک بڑا ہجوم پولیس تھانے، عدالت اور جیل کے باہر جمع ہوکر احتجاج کرنے لگا۔اعلیٰ افسران کی ہدایت پر حکومت نے گاندھی جی کو رہا کیا اور انہیں چمپارن میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ کسانوں کا یہ احتجاج بالآخر برطانوی حکومت کی طرف سے عائد غیر قانونی ٹیکس کے خاتمے پرا ختتام پذیر ہوا۔چمپارن کی سِول نافرمانی تحریک نےہندوستان کو آزادی کی راہ دکھائی اس لیے بہار کو سرزمینِ انقلاب کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
آزادی کے بعد ملک میں مکمل انقلاب کا نعرہ لگا کر نظام بدلنے کی تحریک بھی بہار سے اٹھی ۔لوک نایک 1974 میں جے پرکاش نارائن نے اندرا گاندھی کو چیلنج کرکے اس انقلابی تحریک کی داغ بیل ڈالی ۔ یہ چنگاری بہار سے نکل کر ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی اور بدعنوانی کے خلاف ، بے روزگاری دور کرنے اور تعلیم میں انقلاب لاکر نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں عوام شامل ہونے لگے ۔1975 میں نچلی عدالت نے اندرا گاندھی پر انتخاب کے اندربدعنوانی کے الزام کی تائید کردی تو جے پرکاش نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ جے پی کااصرار تھا کہ اندرا حکومت کو اب گرنا ہی ہوگا۔ اس سے پریشان ہوکر اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگادی۔ان دنوں بہار ہی کے شاعر رام دھاری سنگھ دنکر کا مصرع زبان زدِ عام ہوگیا کہ’ سنگھاسن کوخالی کرو کہ جنتا آتی ہے’۔جنوری 1977 میں ایمرجنسی ختم ہوئی تو اسی مکمل انقلاب تحریک کی بدولت ملک میں پہلی غیر کانگریسی حکومت بنی۔اس لیے اسے آزادی کی دوسری جنگ قرار دیا گیا۔
ایمرجنسی نے سارے حزب اختلاف کو متحد کردیا بلکہ غیر کمیونسٹ جماعتوں نے جن سنگھ کے ساتھ مل کر جنتاپارٹی قائم کی جو اقتدار میں آئی۔ یہ اتحاد دیرپا نہیں رہ سکا پہلے تو کانگریس نے چرن سنگھ کی مدد سے مرارجی کی سرکار گرائی اور پھر انہیں بھی باہر کا راستہ دکھا دیا اور اندرا گاندھی پھر سے اقتدار پر فائز ہوگئیں۔ جنتا پارٹی کے آپسی سرپھٹول کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اس میں جن سنگھ والوں نے الگ ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی بنالی ۔ اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو اقتدار کی باگ ڈور ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو تھما دی گئی۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے مسئلہ پر انہیں کے دستِ راست وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے بغاوت کرکے جنتا دل قائم کی اور سنگھیوں و اشتراکیوں کی حمایت سے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ جے پی کی تحریک سے ابھرنے والے چندرشیکھر ، لالو یادو، ملائم سنگھ اور نتیش کمار وغیرہ ان کے ساتھ تھے ۔ سماجی انصاف کے ان علم برداروں نے جب منڈل کمیشن کی سفارشات کو قبول کرتے ہوئے پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دیا تو بی جے پی نے اپنی حمایت واپس لے لی ۔ کانگریس نے اس کا فائدہ اٹھا کر چندر شیکھر کو وزیر اعظم بناکر اور گراکرپھر سےاپنی پارٹی کے نرسمھا راو کی قیادت میں اپنی حکومت قائم کرلی ۔
بی جے پی نے منڈل کے خلاف کمنڈل تھام کر رام مندر کی تحریک چلائی تو اس رتھ کو بھی بہار میں لالو یادو نے ہی روک دیا ۔ اس کے بعد بی جے پی نے اترپردیش سے ہوتے ہوئے ایوانِ پارلیمان پر اپنا قبضہ جمایا لیکن اسے بہار میں اپنا وزیر اعلیٰ بنانے سے روکنے کی خاطر نتیش کمار ایک دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ اس طرح شمالی ہندوستان میں اپنا وزیر اعلیٰ بنانے سے روکنے کا کام بھی بہار ہی نے کیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس تحریک سے نکلنے والے دو رہنماوں میں سے ایک لالو پرشاد یادو کا بیٹا تیجسوی فی الحال اندراگاندھی کے پوتے راہل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ اس کے مقابلے نتیش کمار بھی جے پی تحریک سے آئے مگر فی الحال بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اقتدار کی خاطر نظریات کو پیروں تلے روند دیا اور اب بی جے پی ان اپنے قدموں تلے روندے گی۔ وہ اسی سلوک حقدار ہیں۔ نتیش اگر بفرضِ محال وزیر اعلیٰ بنا دئیے گئے تب ذلت بھی و رسوائی سے انہیں نجات نہیں ملے گی۔ ا ن پر غالب کا یہ شعر صادق آتا رہے گا ؎
بنا ہےشہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگر نہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
Like this:
Like Loading...