Skip to content
مشائخ مارہرہ کے علمی، فکری،سماجی اور اصلاحی کارنامے! اجمالی جائزہ
از قلم :محمد حسنین رضا برکاتی علیمی مصباحی
امام ماتریدی انسٹی ٹیوٹ مالیگاؤں۔
………….
اس عارضی اور فانی دنیا میں نہ جانے کتنے لوگ آئے اور اپنی حیات کا ایک طویل حصہ گزار کر دنیا سے رخصت ہو گئے، ایسا کیوں نہ ہو جب کہ سب کو جانا ہی ہے، کیوں کہ موت رب کا اٹل فیصلہ ہے، لیکن انہیں جانے والوں میں کچھ ایسے بھی گئے جو جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں، آج بھی دنیا ان کے علمی، روحانی، فکری ،سماجی اور اصلاحی کارناموں سے انہیں یاد کر رہی ہے، تاریخ کے پنّے ان کی عظمت کے خطبے پڑھ رہے ہیں، لوگوں کے قلوب ان کی یاد سے مستفید و مستنیر ہو رہے ہیں۔ اور ایسا اس لیے کہ ان نفوس قدسیہ نے مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق کیا اور پھر پوری حیات اس عشق کا بھرم رکھنے میں گزار دی اور خود کو اس صادق و مصدوق کی سیرت کا عکس جمیل بنا ڈالا ،پھر اسی کے فرمان کے مطابق خلق خدا کی نصرت و اعانت کی ، اخلاق و محبت اور علمی و فکری کارنامے ان کی حیات کا وہ روشن باب رہے کہ جس کے دریچوں سے نور و نکہت کی شعائیں پھوٹیں اور ان شعاؤں سے پورا جگ بقعہ نور بن گیا۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد جب ہم دنیائے سنیت کی عظیم مرکزی خانقاہ جسے اہل عقیدت "خانقاہ برکاتیہ "ماہرہ مطہرہ کے نام سے جانتے ہیں، کی طرف نظر کرتے ہیں تو جہاں ہمیں اقطاب مارہرہ کے روحانی فیوض و برکات کی خوشبو ہر چہار جانب بکھری نظر آتی ہے، وہیں ان کے سماجی ، علمی، فکری اور اصلاحی کارنامے ہمیں دعوت فکر دے رہے ہوتے ہیں، اب آئیے ہم اپنی معلومات کے مطابق خانقاہ برکاتیہ کی چند شخصیات کے علمی، فکری اور اصلاحی کارناموں کو دیکھتے ہیں: خانقاہ برکاتیہ کے سب سے پہلے بزرگ حضرت سید عبد الجلیل بلگرامی(المتوفی: ١٠٥٧ھ) ہیں، جنہوں نے بلگرام سے ہجرت کر کے مارہرہ مطہرہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے رونق بخشی، آنے کے بعد آپ مارہرہ میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے میں لگ گئے، تاہم آپ کی خدمات کا دائرہ سلوک و معرفت، اعلائے کلمۃ اللہ، تعمیل حکم خداوندی، اطاعتِ ارشادات نبوی، صبر و شکر، خلق خدا سے محبت، نیکیوں کی دعوت، برائیوں سے نفرت، شریعت محمدیہ پر مضبوطی سے عمل ، خلق خدا کی نصرت و اعانت، اور فکر و نظر سے شریعت محمدیہ کی تائید و توثیق کو محیط تھا۔ اسی لیے مشیت خدا وندی نے آپ کو یکتائے روزگار بنا دیا، تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ جب آپ مارہرہ شریف تشریف لائے تو اہل مارہرہ گمراہی و فساد میں مبتلا تھے، یہاں کے لوگ طرح طرح کی برائیوں ، فسق و فجور، جہالت و گمراہی کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، آپ کی آمد نے انہیں تاریکیوں سے نکال کر اجالے میں لا کھڑا کیا اورآپ کے نور باطن نے ان کے دلوں کو منور و تاباں کیا۔ آپ کے بعد آپ کے شہزادے سید الراحمین حضرت سید اویس قدس سرہ العزیز رشد و ہدایت اور علم و عرفان کی شمع سے عالم اسلام کو روشنی عطا کرتے رہے۔
بعد ازاں آپ کے پوتے اور سید الراحمین حضرت سید اویس قدس سرہ العزیز کے سب سے بڑے صاحبزادے حضور صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ عشقی مارہروی رحمۃ اللہ علیہ گدی نشین ہوئے، پس آپ نے بھی اپنے آبا و اجداد کے مشن کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا، اور علم و عرفان کاایسا شجر لگایاجس سے آج بھی اہل دنیا مستفید ہو رہے رہیں چناچہ آپ نے اپنے عہد مبارک میں رشد و ہدایت، سلوک و معرفت کے ساتھ ساتھ تصنیفی و تالیفی کاموں میں بھی امتیازی کارنامے انجام دیے، اور اپنی کتابوں کے ذریعہ خانقاہ برکاتیہ کے علمی وقار کو دو بالا کر کیا ، شاید اس کی وجہ آپ کے مرشد گرامی کا یہ جملہ رہا ہو جو آپ پر نگاہ پڑتے ہی آپ کے مرشد برحق نے سینے سے لگا کر فرمایا تھا "دریا بہ دریا پیوست”۔
خیر آئیے آپ کی تصنیفات کا جائزہ لیتے ہیں، آپ کی ذات علوم ِشریعت و معرفت کا خزینہ تھی، آپ اپنے عہد کے عربی و فارسی، ہندی و برج بھاشا کے زبردست شاعر تھے، ادبی خدمات کا مرقع ”پیم پرکاش“ اور ”دیوان عشقی “ کی صورت میں موجود ہے، کئی تصانیف عقائد و سلوک کے باب میں ہیں، اردو کے ابتدائی دور میں آپ نے شُستہ نثر اور رواں نظم کا نمونہ پیش کیا، آپ کے تصنیفی و تالیفی کارناموں سے متعلق حضرت محمد میاں برکاتی لکھتے ہیں: حضرت کی تصنیف و تالیف سے متعدد کتابیں تصوف میں اور متعدد بیاضیں اعمال و اشغال و اوراد میں ہیں۔ تصنیفات درج ذیل ہیں۔ رسالہ چہار انواع، رسالہ سوال و جواب، دیوان عشقی(فارسی)، پیم پرکاش دیوان اشعار(ہندی)، عوارف ہندی، ترجیع بند، مثنوی ریاض العاشقین، وصیت نامہ، بیاض باطن، بیاض ظاہر، رسالہ تکسیر۔ ان کے علاوہ تصوف، اعمال و اشغال میں کئی کتابیں حضرت نے تصنیف فرمائیں جن میں صرف چند طباعت کے مراحل سے گزر کر منظر عام پر آ سکیں، ان کتابوں سے کیا اندازہ ہوتا ہے؟ یہی کہ آپ صرف ایک پیر اور صاحب سجادہ ہی نہیں تھے بلکہ علم و حکمت کے ایسے مینار تھے جس کی اونچائی فلک بوس تھی۔
آپ کے بعد آپ کے شہزادے قدوۃ الواصلین حضرت سید آل محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اہل عقیدت کو جام سلوک و معرفت پلانے میں اہم کردار کیا، اور لوگوں کو رب تعالی کی معرفت سے آشنا کرایا، بتایا جاتا ہے کہ آپ کے والد گرامی حضور صاحب البرکات نے آپ کو اپنی نگاہ عنایت سے اتنا نوازا تھا کہ آپ ہمیشہ خوف خدا، نصرت و اعانت خلق خدا، ذوق پابندی احکام شرع کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کوشاں رہے۔یہ تو یقینی امر ہے کہ خانقاہ برکاتیہ نے ہر زمانے میں دین و سنیت کی خدمت میں علمی، فکری، سماجی، اصلاحی اعتبار سے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اسی کی ایک کڑی حضرت سید آل محمد رحمۃ اللہ علیہ کے شہزادے اسد العارفین حضرت سید شاہ حمزہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات با برکت ہے، جنہیں سلوک و معرفت کے علاوہ مروجہ علوم و فنون میں خصوصی مہارت تھی، آپ کے علمی احاطے میں بیک وقت جملہ مروجہ علوم کے زاویے سمٹے ہوئے تھے، تفسیر، حدیث، فقہ و تصوف، اصول و بیان، طب و ادب جیسے دقیق علوم سے آپ کی فکر روشن تھی، یہی نہیں بلکہ آپ مروجہ علوم کے علاوہ نادر علوم میں بھی اپنی مثال آپ تھے، معانی و عروض، جفر و تکسیر، فلکیات و ارضیات وغیرہ آپ کے حیطہ علم کا حصہ ہیں، آپ نے اپنے علوم کو صرف خود تک محدود نہیں رکھا بلکہ کتابوں اور تقریروں کے ذریعہ اسے لوگوں میں عام کر کے ’’بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘ کا مصداق ٹھہرے ، آپ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سب سے مایہ ناز کتاب ’’کاشف الاستار شریف ‘‘ہے، جو کہ تصوف میں ممتاز مقام رکھتی ہے، جس کی جلالت شان کا اعتراف ہر دور کے اکابر صوفیہ نے کیا ہے، خود سیدی سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے فتاوی رضویہ شریف میں اس کا حوالہ نقل فرمایا ہے، جس سے اس کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، حضرت علیہ الرحمہ کی دوسری شاہکار تصنیف فص الکلمات شریف ہے، جو دو جلدوں پر مشتمل ہے، جو ابھی تک قلمی صورت میں خاندان برکات کے ذاتی ذخیرہ کتب میں محفوظ ہے، یہ کتاب بھی سلسلہ تصوف کی ایک بہترین کڑی ہے، جس میں تصوف کے حقائق و دقائق پر تفصیلا روشنی ڈالی گئی ہے(اہل سنت کی آواز: خصوصی شمارہ اکابر مارہرہ مطہرہ۔ص:٤٤٧)۔ اس کے علاوہ بھی تحریری دنیا میں آپ کے کافی مضامین ہیں جو آپ کی حیات کے علمی پہلووں کو روشن کرتے ہیں۔ یہ علمی کارنامے حضور سید حمزہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے، علمی کاموں سے امت کو راہ ہدایت دلانے میں آپ کے چھوٹے بھائی عالم ربانی حضرت علامہ سید شاہ محمد حقانی معروف بہ برکات ثانی قدس سرہ کا کردار بھی قابل عمل و لائق تقلید ہے، آپ بھی کئی علوم و فنون کے جامع، یکتائے روزگار شخصیت تھے، جس کی دلیل آپ کی مایہ ناز تصانیف ہیں، آپ کی تین قلمی یادگاریں محفوظ ہیں جن میں ١. تفسیر”عنایت رسول کی” ٢. "نعت رسول کی” احادیث کریمہ کے انتخاب کا ترجمہ ٣. ذاتی بیاض(جس میں غالبا آپ کی شعری یادگار ہیں) اس میں تفسیر” عنایت رسول کی” یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے۔ جو کہ چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔(اہل سنت کی آواز خصوصی شمارہ اکابر مارہرہ)
رفتہ رفتہ خدمات دینیہ کا سلسلہ حضرت سید حمزہ عینی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کے شہزادے شمس مارہرہ سید آل احمد اچھے میاں مارہروی علیہ الرحمہ تک آ پہنچتا ہے، آپ کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا، آپ مقام غوثیت پر فائز تھے اور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا مظہر اتم تھے، آپ نے بھی حسب دستور خانقاہی نظام میں حیرت انگیز بہتری لائی اور جام سلوک و معرفت سے اہل عقیدت کو سیراب کرتے رہے، اور طریقت و معرفت کی خوشبو سے اہل جہاں کو معطر کرتے رہے، اوراد و اشغال آپ کی حیات کا خصوصی عمل تھا، جس سے بہت سارے گم گشتگانِ راہ کو راہ ہدایت پر گامزن فرمایا، اوراد و اشغال کی مصروفیت اور خلق کی خدمت نے آپ کو تصنیف و تالیف کے کام سے معذور رکھا، پھر بھی آپ نے اپنے خلفا، علما و فضلا کے ذریعہ ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا مرتب کروایا، جو آئین احمدی کے نام مشہور ہوا، جس میں قریبا علوم متداولہ سے کوئی ایسا علم نہیں جو اس میں نہ ہو، جس کی بعض جلدیں تلف ہو گئیں جبکہ بعض جلدیں قدیم مکاتب کی زینت بنی ہوئی ہیں، آپ نے زیادہ تر تصنیف و تالیف کے امور اپنے خلفا وغیرہ سے انجام دلوائے، اس وجہ سے آپ کے حیطہ تحریر میں چند کتابیں ہی آ سکیں، جن میں ١.بیاض عمل و معمول دوازدہ ماہی. ٢.آداب السالکین مطبوعہ۔ آخر الذکر کتاب سلسلہ تصوف کی مایہ ناز کتاب ہے۔
ہر دور میں خانقاہ برکاتیہ نے اپنی علمی خدمات سے خلق خدا کی راہ حق کی طرف رہنمائی فرمائی، جس کی ایک اور مثال حضرت شاہ آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کا سلسلہ حدیث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے جا ملتا ہے آپ نے بھی علم دین مصطفی کی اشاعت و تبلیغ میں امتیازی کردار ادا کیا، نیز اس خصوص میں شاہ ابو الحسین احمد نوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے، جن کی تصانیف نے ایسے وقت میں جب کہ ہندوستان پر انگریز قابض تھے، مسلمانانِ ہند کی علمی و فکری قیادت و رہنمائی کی، آپ کی کتابوں میں سر فہرست، دلیل الیقین من کلمات العارفین، عقیدہ اہل سنت نسبت محاربین جمل و صفین و نہروان غیر مطبوعہ، تحقیق التراویح ، العلسل المصفّی فی عقائد ارباب سنۃ المصطفی۔ شامل ہیں، جو اہم اور حساس موضوعات پر تشنگان علم کی پیاس بجھا رہی ہیں۔
جیسا کہ واضح ہوا کہ اس خانقاہ کا امتیازی وصف فروغ علم ، تبلیغ احکام خداوندی رہا ہے جس کی وجہ سے ہر دور میں رشد و ہدایت اور تعلیمات تصوف کا احیا بحسن و خوبی ہوتا رہا ہے ، جس کی مثال مذکورہ خانقاہ کی مایہ ناز شخصیت حضرت سیدنا میر ابو القاسم اسماعیل حسن شاہ جی میاں ہیں جنہوں نے سلسلہ قادریہ برکاتیہ کو اپنے علوم و معرفت سے مزید عروج بخشا، آپ نے اپنےعہد میں تصوف کی جڑوں کو خوب مضبوط کیا، اور لوگوں کو صلاح و فلاح کے اس مشک دان سے روشناس کروایا جس کی خوشبو سے آج بھی اہل دنیا معطر ہو رہے ہیں ، نیز اگر سیاسی، سماجی، علمی، تصنیفی و تالیفی میدان میں زریں کارنامے انجام دینے والی عظیم ہستی تاج العلما سید اولاد رسول مارہروی کا ذکر نہ کیا جائے تو اس خانقاہ کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی جنہوں نے اس کی تاریخ پر بہترین کام کیا ، آپ ایک بہترین قلم کار، شاندار مصنف اور باکمال تاریخ داں تھے جس کی وجہ سے خصوصی طور پر آپ کو ایک مؤرخ کی حیثیت سے شہرت ملی ، انگریز کے خلاف ذہنی فضا ہموار کی، تاہم تعلیمات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج و اشاعت اور فروغ و ارتقاء میں سید العلماء سید آل مصطفیٰ مارہروی اور احسن العلما سید مصطفیٰ حیدر حسن میاں رحمھما اللہ کے نمایاں کردار بھی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
یہ رہی چند اکابر مارہرہ کی خدمات، ان کے علاوہ بھی دیگر اکابر مارہرہ نے اپنے علمی و روحانی فیضان سے ہر خاص و عام کو مستفیض کیا ہے، طوالت کے خوف سے چند شخصیات کی خدمات کا تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے، البتہ موجودہ دور میں خانقاہ برکاتیہ کے امتیازی کارنامے ہر اہل نظر کو دعوت فکر دے رہے ہیں، اگر ایک طرف اس مرکزی خانقاہ نے دینی علوم و فنون کا عظیم سرچشمہ جامعہ احسن البرکات کی شکل میں دیا ہے تو دوسری طرف عصری علوم کی لائق و فائق اور کامیاب یونیورسٹی، جامعۃ البرکات عطا کی، جن سے نا جانے کتنے لوگوں نے استفادہ کیا اور کر رہے ہیں، اس کے علاوہ مارہرہ پبلک اسکول بھی عصری دنیا میں امتیازی مقام رکھتا ہے، تاہم ملی و سماجی، فکری، اصلاحی فلاح و بہبود میں مذکورہ خانقاہ دیگر خانقاہوں کے بہ نسبت بہت ہی متحرک و فعال خانقاہ ہے، جس کا ثبوت اس کی خدمات دینیہ ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں، ان سب خدمات اور کارہائے نمایاں کا سہرا جن شخصیات کے سر جاتا ہے وہ ہیں امین ملت ، پرورفیسر سید امین میاں قادری برکاتی ، رفیق ملت سید نجیب حیدر نوری اور شرف ملت حضرت سید اشرف میاں برکاتی دامت فیوضھم ، ان شخصیتوں نے اکابر مارہرہ کی سچی جانشینی کی اور بزرگوں کے فیوض و برکات سے امت مسلمہ کو مستفیض و مستنیر کرنے میں اعلیٰ کارنامہ انجام دیا ۔ مولیٰ تعالیٰ اکابر مارہرہ کی دینی و ملی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں فیضان برکاتیہ سے مالا مال فرمائے ۔ آمین
Like this:
Like Loading...