Skip to content
دہلی سے سرینگر تک دھماکے ہی دھماکے
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ذرائع ابلاغ کے اندر دہلی دھماکے کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ سرینگر کی فضا ہولناک دھماکوں کی گونج سے لرز اٹھی۔ یہ اس قدر شدید دھماکے تھے کہ ایک عینی شاہد نے بتایا : ’’ چند لمحوں کے لیے لگا جیسے پورا محلہ زمین سے اکھڑ گیا ہو۔‘‘ ان دھماکوں میں پہلی حیرت کی بات اس کا جائے وقوع تھا کیونکہ یہ دھماکہ نوگام پولیس تھانے کےاندر ہوا ۔ اس نے نہ صرف تھانے کے وسیع حصے کو تباہ کر دیا بلکہ آس پاس کے رہائشی علاقوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اس حادثے میں کم از کم 9؍ افراد نے اپنی گنوائی تھی یعنی یہ تعداددہلی دھماکے سے صرف4؍ کم تھی جبکہ 30 سے زائد لوگ زخمی بھی ہوگئے۔ اس حادثے میں زخمی ہونے والے بیشتر پولیس اہلکاراور تفتیشی ٹیم کے ارکان تھے ۔ ان زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے یعنی ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کا امکان ہے۔ سوال یہ بھی ہے اس دھماکے کے نتیجے میں تھانے کا یا قریبی گھروں کی دیواروں اور کھڑکیوں وغیرہ کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی کیسے ہو گی؟ کیا حکومت ان کی مدد کرے گی؟ نیز ہلاک و زخمی ہونے والوں کی کوئی نقصان بھرپائی کی جائے گی ؟
آئین کی دفع 370 کا خاتمہ کرتے وقت یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اب وادی دہشت گردی سے پاک ہوجائے گی مگر تشدد کے واقعات جاری و ساری رہے۔پہلگام سانحہ نے پوری دنیا میں دھوم مچادی اور جوہری جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے لیکن بقول ڈونلڈ ٹرمپ انہوں نے جنگ رکوا کر ایک بہت بڑی تباہی ٹال دی ۔ دہلی دھماکے کے چار دن بعد اگر پولیس تھانے میں دھماکہ ہوجائے تو یہ نہایت تشویش کی خبر ہے اور چونکہ نظم و نسق کی ذمہ داری وزیر داخلہ پر ہے اس لیے انہیں جواب دینا پڑتا ۔ اس طرح بہار انتخاب کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ پڑجاتا لیکن جب یہ خبر بھی آگئی کہ اسے کسی دہشت گرد نےنہیں کیا تھا بلکہ فرانزک سائنس لیبارٹری کی ٹیم، مقامی نائب تحصیلدار اور تفتیش کار کےذریعہ تکنیکی معائنہ کے دوران ہوگیا جس سےعملے کی مہارت پر کئی سوال پیداہوگئے۔ کیا ان لوگوں اتنا بھی نہیں معلوم کہ یہ مواد انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور معمولی رگڑ، دباؤ یا درجہ حرارت میں تبدیلی سے تباہ کن ردِعمل پیدا کر سکتاہے؟ یہ ماہرین کی تربیت میں شدید کوتاہی کی علامت ہے اور اس کے لیے چین یا پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ایسے اہلکار جو خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے وہ عام لوگوں کو تحفظ کیسے فراہم کریں گے؟
اس معاملے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کا پولیس تھانے میں کیا کام ؟ سرکاری رپورٹ کے مطابق یہ دھماکہ خیز مواد حال میں دہلی لال قلعہ دھماکہ کیس سے منسلک بین ریاستی دہشت گرد ماڈیول سے ضبط کیا گیا تھا اور فرانزک جانچ کے لیے نوگام پولیس اسٹیشن میں محفوظ رکھا گیا تھا۔ ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس تقریباً 2,900 کلوگرام آئی ای ڈی مواد کو فرید آباد سے ضبط کیا گیا تھا اور اس میں امونیم نائٹریٹ کی بڑی مقدار شامل تھی لیکن ہریانہ سے اسے سرینگر لے کر جانے کی وجہ ناقابلِ فہم ہے۔ اسےدہلی لاکر تفتیش کرنی چاہیے تھی مگر حیرت انگیز طور پر وہ سرینگر لے جایا گیا۔ اب کہا جارہا ہے کہ حادثے کے بعد بھڑکنے والی آگ نے تھانے کے ریکارڈ روم اور تفتیشی سیکشن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یعنی اگر عدالت ریکارڈ طلب کرے تو اس کے جل کر خاک ہوجانے کا جواز موجود ہے۔ اب نہ تو فرید آباد سے برآمد کیاجانے والادھماکہ خیز مواد موجود ہے اور نہ اس نوگام پہنچنے اور رکھنے کا کوئی ثبوت باقی ہے یعنی تو بانس اور بانسری دونوں غائب ہیں۔
10؍ نومبر کو دہلی میں لال قلعہ کے قریب کار ہونے والے دھماکے کی بابت جانچ ایجنسیوں کی تفتیش کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ حکام نے گرفتار ڈاکٹروں سے پوچھ تاچھ کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ دہلی اور دیگر مقامات پر سلسلہ وار بم دھماکےکرنے کی خاطر 32؍ کاروں کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ بھی دعوی کیا جارہا ہے کہ دہشت گرد 6 ؍ دسمبر کو بابری مسجد کی برسی پر دہلی میں سیریل دھماکوں کا منصوبہ بنار ہے تھے۔ ان کاروں میں بریزا، سوئفٹ ڈیزائر، ایکو اسپورٹ اور آئی 20؍ جیسے گاڑیاں شامل ہیں۔ جانچ ایجنسیوں کے مطابق گرفتار شدگان میں 6؍ ڈاکٹر یوم جمہوریہ 26 ؍ جنوری کو حملہ کا دھماکے کرنے منصوبہ بنا رہے تھے ۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ ایودھیا میں دھماکے کرنا چاہتے تھے ۔ بابری مسجد کی شہادت کو 33؍ سال ہوگئے اور رام مندر کے فیصلے کو 6؍ سال ہوگئے اس دوران اتنی ہی بار بات یوم جمہوریہ منایا گیا لیکن اس بیچ مسلمانوں کو دھماکوں کا خیال نہیں آیا تو اچانک اس وقت کیوں آگیا؟ جب بی جےپی کو اس سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ویسے عام مسلمان بی جے پی کا ہمدرد بھی نہیں ہے کہ اس کے سیاسی فائدے کی خاطر کام کرے ۔
تفتیشی ایجنسیوں کے ان متضاد بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ ابھی حتمی طور پر کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں کہ کیا الزام لگایا جائے؟ اس دوران یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 6؍ دسمبر یا 26 جنوری سے قبل اچانک بہار انتخاب کے دوسرے مرحلے کی رائے دہندگی سے عین ایک دن قبل ڈاکٹر عمر نبی لال قلعہ پر آکرحالیہ دھماکہ کرنے کی کیا سوجھی؟ یہ تفتیش ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ۔ انتظامیہ کا یہ کام ہے کہ وہ ان شواہد کو لے کر عدالت میں جائے اور وہاں سے جو سزا تفویض کی جائے اسے نافذ کرے۔ لیکن موجودہ سرکار کو اس کی فرصت نہیں ہے۔ اس نےمبینہ طور پر دہلی دھماکے میں ملوث دھماکہ خیز مواد سے بھری کار چلانے والے ڈاکٹر عمر نبی کے گھر کو جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں مسمار کر دیا ہے ۔اس مکان کو منہدم کرنے کے لیے آئی ای ڈیز (IEDs) کا استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر عمر نبی کو فرید آباد میں رہتے تھے ۔ بفرضِ محال یہ مان لیا جائے کہ وہ جرم میں ملوث تھے تب بھی اس کی سزا کشمیر میں رہنے والوں کو دینے کا کیا جواز ہے؟ کل کو اگرجئے شاہ کوئی بدعنوانی کربیٹھے تو کیا اس کی سزا امیت شاہ کو دی جائے گی ؟
معروف خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے جب اس انہدامی کارروائی کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا ایکس پر شیئر کیا تو اس ویڈيو کے نیچے بہت سے افراد نے اپنے تبصرے کیے۔ ان میں سے ایک صارف سوال کیا کہ آخر حملہ ہونے کے بعد ملزم کے پورے خاندان کو اس طرح سے سزا دینے سے کیا فائدہ ہو گا؟ نریش بھاٹیہ نامی صارف نے لکھا: اس سے کیا فائدہ؟ آپ کو یہ اس وقت کرنا چاہیے، جب کوئی مشتبہ شخص ثبوت کے ساتھ پکڑا جائے اور وہ زندہ ہو تو یہ دیکھتا کہ اس کے گھر کا کیا ہوتا ہے؟ یہ پیغام بھیجتا۔”ایک اور صارف ڈاکٹر کمار رشی کیش نے لکھا: "یہ ہندوستان اور اس کے شہریوں کو دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے اور ذہنیت سے محفوظ رکھنے میں کس طرح مدد کرتا ہے؟ مجھے تو یقین نہیں ہے کہ دہشت گرد کے خاندان کے دیگر افراد کو بے گھر کر کے یہ عمل کس طرح مدد کرتا ہے؟ غریب ماں نے اسے ڈاکٹر بننے کے لیے پالا اور وہ ایک حد تک کامیاب بھی رہیں، پھر دہشت گردی نے اسے جیت لیا۔” اور اس کی سزا پورے خاندان کو دی گئی یہ کہاں کا انصاف ہے؟
اعلیٰ افسران کے مطابق ڈاکٹر عمر نبی بٹ اور ڈاکٹر گنائی گزشتہ کئی مہینوں سے بارودی مواد اور ڈیٹونیٹرز جمع کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عمر نبی بٹ اکثر ‘بڑے حملوں’ کی بات کیا کرتا تھا اگرچہ دونوں ڈاکٹروں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، لیکن پولیس کا ماننا ہے کہ وہ 2018 سے ایک دوسرے کے رابطے میں تھے۔ دھماکے اور اس دہشت گرد نیٹ ورک سے متعلق مزید تحقیقات جاری ہیں۔افسران کے مطابق داکٹرعمر نبی کا جیش محمد اور انصار غزوات الہند سے تعلق رکھنے والے "وائٹ کالر” دہشت گردی کے ماڈیول سے تعلق تھا۔ یہ الزام درست ہے تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟اس صورت میں دھماکہ ہی نہیں ہوتا۔ تحقیقاتی اداروں نے دھماکے کے بعد فرید آباد میں واقع الفلاح یونیورسٹی کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیاہے۔ حکومت نے الفلاح یونیورسٹی کے تمام ریکارڈس کے فارینسک آڈٹ کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی نے کسی بھی بیرونی فنڈ سے انکار کیا ہے۔
ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز نے الفلاح یونیورسٹی کی رکنیت منسوخ کردی ہے۔ یہ بھی اندھا قانون ہے۔ ملک کے کئی بڑے بڑے اداروں سے سرکاری راز پاکستانی بھیجنے والے جاسوس پکڑے جاتے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق ہندو سماج سے ہوتا ہے اس لیے نہ ان کے گھر پر بلڈوزر چلتا ہے اور ان اداروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ ہریانہ پولیس، دہلی پولیس، جموں وکشمیر پولیس اور یو پی اے ٹی ایس کو اب تلاشیاں لینے اور بے قصور لوگوں شبہ کی بنیاد پر حراست میں لے کر پریشان کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ معاملہ کتنا پھیلے گا اور عدالت میں ٹِک بھی پائے گا یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے پہلے تفتیش مکمل کی جائے اور عدالت میں اسے پیش کرکے فیصلے کا انتظار کیا جائے ۔ اندریش کمار سمیت سادھوی پرگیہ جیسےسنگھ کے کئی لوگوں پر سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے سے لے کر اجمیر اور مکہ مسجد جیسے کئی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام لگا لیکن ان کی جائیداد کو نقصان نہیں پہنچایا گیااور وہ چھوٹ بھی گئے ۔ اس لیے ایجنسیوں کے الزام پر ملزم کے رشتے داروں کو سزا دینا بہت بڑی ناانصافی ہے اور اس طرح ظلم کو ظلم سے کاٹنے کی کوشش کرنا سرکاری دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔
Like this:
Like Loading...