Skip to content
دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
دہلی میں ہونے والے دھماکوں کی بابت پہلے تو یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ کسی گاڑی کے سیلنڈر پھٹنے سے ہوا ہے یا دھماکہ خیز مادے کی مدد سے کیا گیا ہے۔ اس گاڑی کو چلانے والا فدائین حملہ آور تھا حادثاتی طور پر موت کے منہ میں چلا گیا۔ شاید اس وقت تک سرکار دربار کے لوگ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ کون سا بیانیہ سیاسی طور پر مفید یا مضر ہوگا؟ بی جے پی کی فرقہ پرستانہ سیاست کے لیے دہشت گردانہ بیانیہ ہی مفید تھا اور اگر وہ اقتدار میں نہیں ہوتی تو بلاتحقیق اسی کو آگے بڑھایا جاتا لیکن چونکہ یہ دھماکہ دارالخلافہ دہلی میں ہوا تھا جہاں ڈبل انجن سرکار ہے یعنی ریاستی حکومت کو بھی اس کے لیے گھیرا نہیں جاسکتا اس لیے یہ ہچکچاہٹ تھی کہ کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟ ملک میں فی الحال ایک بہت طاقتور مانے جانے والے وزیر اعظم ہیں جو ایک زمانے میں چین کو لال آنکھیں دِکھا کر ٹھیک کردینے کی عار دلاتے تھے اس لیے ان کے ہوتے یہ ہوجانا موصوف کی ’مہا مانو‘( عظیم انسان) والی شبیہ پر سوال کھڑے کرتا تھا۔اس کے علاوہ وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی انتظامی صلاحیت بھی مشکوک ہوجاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دو تین دن گومگوں کی کیفیت رہی لیکن وزیر اعظم کے بھوٹان سے لوٹنے کے بعد اب تفتیشی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے زاویہ کا اشارہ دے دیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد تیسرے دن تحقیقاتی ایجنسیوں نے گرفتار شدگان سے پوچھ گچھ کے بعد یہ دعویٰ کردیا ہے کہ دہلی سمیت ملک بھر کے کم از کم 32؍ مقامات پر ایک ساتھ دھماکے کرنے کی سازش رچی گئی تھی ۔ ملک تفتیشی ایجنسیوں کو اس طرح کی کہانیاں گھڑنے کابہت وسیع تجربہ ہے اور وہ اس معاملے میں بڑے بڑے سے فکشن نگار کو چاروں خانے چِت کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ وطن عزیز میں یہ ہوتا رہا ہے اور یہ کام اس قدر سفاکی سے کیا جاتا ہے کہ باضمیر افسران کے لیے ایسے ظلم کا حصہ بننا ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ ممبئی کے ٹرین دھماکوں کی تفتیش شاہد ہے 11 جولائی 2006 کو ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کے سینئر تحقیقاتی افسرونود وٹھل بھٹ پراسرار حالت میں خودکشی کرلی تھی۔ ریلوے پولیس کو ان کی لاش مشکوک حالت میں ریل کی پٹریوں کے درمیان ملی تھی ۔ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ونود بھٹ اس وقت انسداد دہشت گردی عملہ کے تفتیشی افسر تھے۔ اس سے قبل وہ ممبئی میں بارہ مارچ 1993 میں ہوئے بم دھماکوں کی جانچ سے بھی منسلک رہے تھے۔ آگے چل کر جن نام نہاد ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کو برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور ان میں سے کئی لوگوں کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی عدالت میں نہیں ٹک سکے اور سارے کے سارے ملزم باعزت بری ہوگئے لیکن میڈیا میں سنائی جانے والی کہانی اس قدر مرصع تھی کہ ہر کسی نے اس پر اعتبار کرلیا بقول وسیم بریلوی ؎
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں 21اور22مارچ 2000کی رات ایسا ہی ایک سانحہ پیش آیا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے موقع پر بے قصور سکھوں کو ہلاک کرکے اس سانحہ کا الزام لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین پر لگا کر پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کے انکاونٹر کا دعویٰ کردیا گیا۔ آگے چل کر معلوم ہوا وہ پانچوں مقامی باشندے تھے اور انہیں گشتی دستے کو گائیڈ کرنے کے لیے اٹھا یا گیا تھا۔ اس ہلاکت پر احتجاج درج کرنے کے لیے ضلع ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کرنے والوں پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ اس سے پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔اس کے بعد سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں تحقیقات کا حکم دیا۔ ایک سال بعد جب کولکاتہ اور حیدرآباد کی فورنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ مہلوکین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی خاطر بھیجےجانے والے نمونے نقلی تھے، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔ان دونوں کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ایس او جی کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفار ش کی اور ابتداء میں گھڑے جانے والے جھوٹ کو مسترد کردیا۔ اس لیے ویسا ہی تجربہ دہلی دھماکے کے معاملے میں دوہرایا نہیں جائے۔ چھٹی سنگھ پورہ کے سکھ اب بھی ہر سال 22مارچ کو انصاف کی خاطر اس امید پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں کہ؎
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
دہلی دھماکے کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے نٹھاری قتل کیس میں بنیادی ملزم سریندرکولی کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ اس مقدمہ کے نشیب و فراز کو دیکھا جائے تو نہ صرف تفتیشی ایجنسی بلکہ عدلیہ کے رویہ پر بھی کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ نٹھاری قتل معاملے کا انکشاف 29 دسمبر 2006 کو ہوا تھا۔ اس وقت دہلی سے سٹے نوئیڈا کے نٹھاری گاؤں میں صنعت کار مونندر سنگھ پنڈھیر کی رہائش گاہ کے پیچھے نالے سے 8 بچوں کے ڈھانچے برآمد ہوگئے۔ تفتیش کے دوران مرکزی ملزم کے طور پر پندھیر کا گھریلو ملازم سریندر کولی سامنے آیا۔ آگے چل کر جب یہ معاملہ سی بی آئی کے ہاتھ میں گیا تو مزید انسانی اعضا اور ڈھانچے برآمد ہوئے۔ تفتیش کے بعد کولی کو ایک 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے الزام میں مجرم ٹھہرایا گیا ۔ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس کی سزا برقرار رکھی تھی اور 2014 میں اس کی نظرثانی عرضی بھی مسترد کر دی تاہم، 2015 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رحم کی عرضی پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کی تکنیکی بنیاد پر اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ۔
اکتوبر 2023 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے نٹھاری کیس متعلق معاملات میں سریندر کولی اور مونندر سنگھ پندھیر کو کمزورثبوت کمزور ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی سبب بری کر دیا۔اس کے بعد سی بی آئی اور مقتولین کے اہل خانہ نے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتو 30 جولائی 2025 کو عدالت عظمیٰ نے ان تمام 14 اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ دستیاب شواہد اتنے مضبوط نہیں کہ ان کی بنیاد پر سزائے موت یا قید برقرار رکھی جا سکے۔امسال ۷؍اکتوبر 2025 کو عدالت نے کولی کی اصلاحی عرضی پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا مگر ۱۱؍نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں 18؍ برس سے جیل میں بند سریندر کولی کوفوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ نے سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ’’اصلاحی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے، سزا اور جرمانہ منسوخ کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی دوسرے معاملے میں کولی کی ضرورت نہیں ہے تو اسے فوراً رہا کیا جائے۔‘‘ ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ عدلیہ کے اندر یہ کہانیاں کیسے کمزور پڑجاتی ہیں مگر اس وقت تک بے قصور کی زندگی کے کئی سال قیدو بند میں گزر جاتے ہیں ۔
عمر خالد اور شرجیل امام وغیرہ کی مثال ہیں شاہد ہے کہ اس طرح کے معاملات صرف ہندوستان جیسے پسماندہ ملک کا خاصا نہیں ہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بے قصور سبرامنیم ’سبو‘ ویدم کو رہا ہونےسے قبل 43 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں ۔19 سالہ طالب علم سبرامنیم ویدم کو اپنے ہم کمرہ ٹام کنسر کے قتل کا مجرم قرار دے کر 43 سال قبل عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی کیونکہ انہوں نے مقتول کی گمشدگی کے دن اس سے گاڑی لی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹام کنسر کو ان کی گاڑی معمول کی مختص جگہ پر واپس کر دی گئی تھی مگر اس واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ 1984 میں سبرامنیم کو عدالت کے سامنے طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت منشیات کے جرم میں علیحدہ سے ڈھائی سے پانچ برس کی سزا سنا دی گئی۔ یہ سزا انھیں عمر قید کی سزا کے ساتھ ہی بھگتنی تھی۔ سبرامنیم کو قتل کی سزا کے خلاف نئے شواہد سامنے آنے پر بریت مل گئی ان کے خلاف ملک بدری کا حکمنامہ موجود ہے اور وہ حراست میں ہیں۔ ان کا پورا خاندان امریکہ میں ہے جبکہ ہندوستان کوئی بھی نہیں ہے اس لیے وہ یہاں آکر کیا کریں گے کوئی نہیں جانتا مگر امریکی انتظامیہ کے لیے یہ سوال بے معنیٰ ہے۔ سبرامنیم ملک بدری کے مقدمے کے فیصلے تک حراست میں ہی رہیں گے۔ اس طرح دنیا بھر میں بے قصور لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ خدا کرے دہلی دھماکے میں گرفتار ہونے والے بے قصور لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ ہو۔ مذکورہ بالا تشویش کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور عدلیہ کی موجودہ حالت پر امیر قزلباش کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
Like this:
Like Loading...