Skip to content
سیمانچل میں سیاسی بیداری اور ایم آئی ایم کی کامیابی
ازقلم:شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج
9716518126
shamsaghazrs@gmail.com
بہار کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں سیمانچل کی سیاسی فضا نے پورے ریاستی منظرنامے میں ایک منفرد حیثیت اختیار کی۔ اگرچہ مجموعی طور پر مسلم نمائندگی مایوس کن رہی اور ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کے باوجود صرف چند نمائندے ہی اسمبلی تک پہنچ پائے، لیکن مسلم اکثریتی سیمانچل نے ایک بالکل مختلف تصویر پیش کی۔ یہاں ووٹروں نے اپنی سیاسی ترجیحات کا ایسا اظہار کیا جس نے نہ صرف علاقائی سیاست کی سمت متعین کی بلکہ ریاست گیر مسلم سیاست کے بیانیے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان انتخابات میں آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین نے سیمانچل میں اپنی مضبوط بنیاد قائم کی اور پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ اگر کوئی جماعت مسلسل زمینی سطح پر کام کرے، مسائل کو سمجھ کر انہیں مؤثر انداز میں عوام کے سامنے رکھے اور قیادت میں اخلاص کے ساتھ مستقل مزاجی دکھائے تو عوام اسے قبول کرنے میں ہچکچاتی نہیں۔
سیمانچل کے جن پانچ امیدواروں نے ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی، ان میں ریاستی صدر اختر الایمان نے امور اسمبلی حلقے سے دوبارہ جیت درج کرائی۔ یہ جیت نہ صرف ان کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے، بلکہ ان کے اس مستقل اور مربوط عوامی رابطے کی بھی دلیل ہے جس نے عوام کے دلوں میں ان کے لیے اعتماد کو مزید مضبوط کیا۔ اختر الایمان کی شخصیت کو سیمانچل میں ایک مضبوط، بے باک اور فعال سیاسی آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ سیاسی سودے بازی سے زیادہ عوامی مسائل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی کامیابی پارٹی کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہوئی اور دیگر حلقوں میں بھی ایم آئی ایم کے امیدواروں کو حوصلہ ملا۔
اس کے ساتھ ہی بائیسی سے غلام سرور کی کامیابی نے یہ واضح کیا کہ یہاں کے ووٹروں نے ایسی قیادت کو ترجیح دی جو زمینی حقائق سے پوری طرح واقف ہو اور جو صرف اپنی شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی انصاف، ترقیاتی محرومی اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے مسائل کو مؤثر انداز میں اجاگر کرتی ہو۔ بائیسی ایک ایسا حلقہ ہے جہاں وسائل کی قلت، پسماندگی، ناخواندگی اور صحت کے مسائل دیرینہ چیلنج رہے ہیں۔ غلام سرور نے ان مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی محور بنایا اور عوام میں موجود بے چینی، محرومی اور مایوسی کو اپنی سیاسی قوت میں تبدیل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹروں نے ان پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے نوازا۔
سیمانچل کی تیسری اہم نشست جوکی ہاٹ سے مرشد عالم کی جیت نے یہ ثابت کیا کہ یہاں کا سیاسی مزاج تیزی سے بدل رہا ہے۔ برسوں تک یہ حلقہ روایتی سیاسی خاندانوں اور مخصوص جماعتوں کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، لیکن اس بار عوام نے متبادل قیادت کو ترجیح دیتے ہوئے یہ ظاہر کر دیا کہ جب مسائل حل نہ ہوں، ترقی رکی رہے اور عوامی آواز ایوانوں تک نہ پہنچے تو سیاسی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ مرشد عالم کی کامیابی اسی تبدیلی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ انہوں نے خود کو ایک فعال اور مؤثر قیادت کے طور پر پیش کیا، عوام کے ساتھ مضبوط رابطہ قائم کیا اور یہ اعتماد پیدا کیا کہ نئی قیادت مستقبل میں زیادہ مضبوط کردار ادا کر سکتی ہے۔
اسی طرح کوچا دھامن سے سرور عالم کی کامیابی بھی ایم آئی ایم کی سیاسی حکمت عملی اور مقامی ووٹروں کے سیاسی شعور کی گہرائی کی عکاس ہے۔ کوچا دھامن کا شمار بھی ان علاقوں میں ہوتا ہے جو بنیادی سہولیات کی کمی، تعلیم کے فقدان اور معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔ سرور عالم نے انتخابی مہم میں یہ واضح کیا کہ ان کی سیاست محض نعرے بازی پر نہیں بلکہ عملی منصوبوں، بنیادی ضروریات اور زمینی مسائل کے حل پر مبنی ہے۔ ووٹروں نے اس وعدے پر یقین کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے نوازا۔
بہادر گنج سے توصیف عالم کی کامیابی نے ایم آئی ایم کی پانچ نشستوں کی فتح کو مکمل کیا۔ بہادر گنج ایک ایسا حلقہ ہے جہاں گزشتہ کئی انتخابات میں سیاسی عروج و زوال کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں کی عوام سیاسی طور پر نہایت باشعور سمجھی جاتی ہے اور وہ ہر انتخاب میں کارکردگی کے بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔ توصیف عالم نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم میں مقامی مسائل کو مرکز بنایا بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی واضح حکمت عملی پیش کی۔ ان کی جیت اس بات کی دلیل ہے کہ جب عوام یہ محسوس کریں کہ کوئی امیدوار ان کے مسائل کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر ان کے حل کے لیے تیار ہے تو وہ اسے ووٹ دینے میں ہچکچاتے نہیں۔
ایم آئی ایم کی ان کامیابیوں کے ذریعے سیمانچل نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی شناخت اور نمائندگی کے لیے ایک نیا راستہ تراش رہا ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف علاقائی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ ریاستی سطح پر مسلم سیاسی فکر کی نئی تشکیل کی بھی علامت بن گئی ہے۔ جہاں دیگر جماعتوں نے مسلم نمائندگی کو محض انتخابی ضرورت کے طور پر برتا، وہیں ایم آئی ایم نے اسے ایک منظم اور موثر سیاسی قوت میں ڈھالنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ یہی وہ عنصر ہے جس نے عوام کو اسے قبول کرنے پر آمادہ کیا۔
کانگریس کی کارکردگی اگرچہ نسبتاً کمزور رہی، لیکن کشن کنج سے قمر الہدیٰ اور ارریہ سے عابد الرحمن کی کامیابی نے یہ واضح کیا کہ کانگریس کا سیاسی وجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ یہ دونوں رہنما اپنی سادگی، عوامی رابطے اور متوازن سیاسی انداز کے ذریعے ووٹروں کے دلوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ قمر الہدیٰ نے کشن کنج کے عوامی مسائل کو نہایت سنجیدگی سے اٹھایا اور انہیں مؤثر انداز میں ایوان تک لے جانے کا عہد کیا، جسے ووٹروں نے پذیرائی بخشی۔قمر الہدیٰ کی سیاست کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تنازعات سے دور رہتے ہوئے عملی کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ حلقے میں ان کی موجودگی ہمیشہ قابلِ رسائی قیادت کے طور پر دیکھی جاتی رہی ہے، اور وہ مقامی لوگوں کی بات سننے اور فوری ردِعمل دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کا یہی طرزِ عمل ووٹروں میں اعتماد کا ذریعہ بنا اور ان کی کامیابی کے پسِ منظر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پورے انتخابی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ سیمانچل کے عوام اپنے سیاسی فیصلوں میں تیزی سے تبدیلی لا رہے ہیں۔ وہ اب روایتی سیاست سے آگے بڑھ کر ایسی قیادت کو ترجیح دے رہے ہیں جو ان کی شناخت، مسائل، محرومی، ترقیاتی ضرورتوں اور سماجی انصاف کی آواز کو حقیقی معنوں میں ایوان تک پہنچا سکے۔ ایم آئی ایم کی کامیابی اسی بڑھتے ہوئے سیاسی شعور اور بدلتی ہوئی ترجیحات کا نتیجہ ہے۔ یہاں کے ووٹروں نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ سیاسی استحصال، نمائندگی کے فقدان، ترقیاتی ناانصافی اور مسلسل نظراندازی سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہیں ایسی قیادت اور جماعتوں کی تلاش ہے جو ان کی بات سنیں، انہیں اہمیت دیں اور وہ سیاسی وقار فراہم کریں جس کے وہ بحیثیت شہری حق رکھتے ہیں۔
یہ انتخابات سیمانچل کے لیے صرف سیاسی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک سماجی بیداری کا آغاز بھی ہیں۔ یہاں کے عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر وہ متحد ہو کر فیصلہ کریں تو بڑی سیاسی جماعتوں کے توازن کو بھی بدل سکتے ہیں۔ ایم آئی ایم، آر جے ڈی اور کانگریس کی محدود کامیابیاں اور جے ڈی یو کی کمزور کارکردگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عوام اب جذباتی نعروں کے بجائے عملی کارکردگی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہیں ایسے رہنما درکار ہیں جو ان کے درمیان رہیں، ان کی پریشانیوں کو سمجھیں، ان کے مسائل کو ایوانوں میں مؤثر انداز میں اٹھائیں اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سنجیدگی سے کام کریں۔
ان نتائج سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر مستقبل میں مسلم قیادت میں اتحاد قائم ہو جائے، سیاسی ایجنڈا واضح ہو، ترجیحات درست طے ہوں اور عوامی سطح پر مضبوط رابطہ قائم کیا جائے، تو نہ صرف سیمانچل بلکہ پورے بہار میں مسلم نمائندگی مضبوط ہو سکتی ہے۔ ایم آئی ایم کی موجودہ کامیابی نے اس امکان کو مزید تقویت دی ہے۔ اسی طرح، آر جے ڈی کی موجودگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ سیکولر اور ترقیاتی سیاست کے لیے بھی جگہ موجود ہے۔ کانگریس کی جزوی کامیابی اور جے ڈی یو کی کمزوری نے اس سیاسی میدان کو مزید کھلا چھوڑ دیا ہے کہ آنے والے برسوں میں کون سی پارٹی بہتر حکمت عملی کے ساتھ عوام کے قریب پہنچتی ہے۔
یہ انتخابات یہ بھی بتاتے ہیں کہ سیمانچل اب سیاسی طور پر پہلے سے زیادہ خود مختار سوچ رکھتا ہے۔ یہاں کے عوام نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کو صرف مذہبی یا روایتی بنیادوں پر نہیں بلکہ کارکردگی، کردار، اخلاص اور زمینی حقیقتوں کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ یہ تبدیلی نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ بہار کی مجموعی سیاست کے لیے بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔
اگر یہ شعور اور بیداری کا سفر اسی طرح جاری رہا تو آنے والے انتخابات میں نہ صرف سیمانچل بلکہ پورے بہار میں سیاسی طاقت کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اس تبدیلی کو سمجھ کر اپنی حکمت عملی بہتر بنائیں گی یا عوام مزید نئے سیاسی متبادل تلاش کریں گے۔ وقت کے ساتھ اس کا جواب سامنے آ جائے گا، لیکن فی الحال یہ بات واضح ہے کہ سیمانچل نے اس بار اپنی سیاسی طاقت اور شعور کو جس انداز میں منوایا ہے، وہ بہار کی سیاست کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔
Like this:
Like Loading...