رسول اللہ ؐ کا ارشاد گرامی ہے :ان اللہ اختارنی واختار لی اصحابی ( صحابہ ؓ اسلام کی نظر میں بحوالہ تفسیر قرطبی سورۂ فتح)’’اللہ تعالیٰ نے میرا انتخاب کیا اور میرے لئے میرے صحابہ کا انتخاب کیا‘‘، بلاشبہ پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرات انبیاء ؑ کے بعد روء زمین پر سب سے زیادہ محترم و معظم اور مقدس و برگزیدہ شخصیات صحابہ کرام ؓ کے مبارک نفوس ہیں،اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرؐ کی رفاقت کے لئے ان مبارک ہستیوں کا انتخاب فرمایا ہے ،ان مبارک ہستیوں کی عظمت ورفعت اور ان کی امانت ودیانت ، تقویٰ وطہارت اور سچائی و انصاف پر انگلی اٹھا نا دراصل اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر انگلی اٹھانے کے برابر ہے ، اہل علم فرماتے ہیں کہ آدمی عبادت کے ذریعہ ولایت تک تو پہنچ سکتا ہے مگر صحابیت کے مرتبہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا کیونکہ صحابہؓ کو جو مقام حاصل ہوا ہے وہ رسول اللہؐ کی صحبت اقدس کا نتیجہ ہے اور رسول اللہؐ کی ایک لمحہ کسی کو ایمان کی حالت میں صحبت نصیب ہوجائے اور وہ بڑے سے بڑی عبادات وریاضات پر بھاری ہے ، چنانچہ اہل علم فرماتے ہیں کہ امت کے پوری اولیاء ؒ مل کر بھی ایک ادنی درجہ کے صحابیؓ کے مرتبہ کو پہنچ نہیں سکے اس لئے فیض صحبت رسول ؐ صحابی کو وہ مقام تک پہنچادیتی ہے جس کا بعد والے تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
بلاشبہ صحابہؓ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی آنکھوں نے رسول اللہؐ کے رخ انور کا دیدار کیا ہے ،ان کے کانوں نے پیغمبرؐ کے ارشادات سماعت کئے ہیں اور جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ ارست چند لمحوں کے لئے ہی سہی استفادہ کا موقع نصیب ہوا ہے ،انہوں نے مجلس نبوت میں بیٹھ کر رسول اکرمؐ سے علمی استفادہ کیا ہے ،یہ وہ سعادت ہے جس پر بڑے بڑے علماء کی علمی صلاحیتیں اور اولیاء کی ولایتیں قربان ہیں ، صحابہ ؓ وہ اشخاص ہیں جنہوں نے نزول قرآن کا زمانہ پایا تھا اور بلا واسطہ رسول اکرم ؐ کی زبان مبارک سے نازل ہونے والی قرآنی آیات کی تلاوت سماعت کی تھی اور زبان نبوت سے احادیث مبارکہ سماعت کرنے کا شرف حاصل کیا تھا ، صحابہ ؓ کی جماعت کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ قرآن کریم کے اولین مخاطب تھے اور احکام دین پر پہلے عمل کرنے والے بھی تھے، یہی وہ مبارک ہستیاں تھیں جنہوں نے نبوت کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھوں کو دے کر کفر وشرک سے توبہ کرکے توحید کو گلے لگایا تھا ،ماں باپ ،خاندان ورشتے دار ،دوست واحباب ،شہر وملک والوں کے علاوہ پوری دنیا سے دشمنی مول کر اللہ اور اس کے رسول ؐ ؐ سے دوستی کی تھی ، ان برگزیدہ اشخاص نے مال ودولت ، جاہ وحشمت اور وطن پر رسول اکرمؐ کی صحبت ومعیت کو ترجیح دی تھی اور زندگی کی آخری سانس تک دین اسلام پر جمے رہنے اور قبر میں جانے تک آپ ؐ کے دامن رحمت سے وابستہ رہنے کا جو وعدہ کیا تھا اس پر ثابت قدم رہے تھے ، یہی وہ قابل رشک ہستیاں ہیں جنہوں نے اسلام کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی ، اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر گھروں سے نکلے تھے ، مال ودولت لٹایا ،نچھاور کیا تھا اور ضرورت پڑنے پر بیوی بچوں کی پرواہ کئے بغیر میدان کارزار میں کود کر بخوشی اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کر دیا تھا ، یہ حضرات کامل ایمان رکھنے والے تھے ،احکامات دین پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے تھے ،دین متین پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے تھے،اطاعت میں سب سے آگے تھے ،فرماں برداری میں سب میں ممتاز تھے اور اپنی جانوں سے زیادہ رسول اللہ ؐ سے محبت رکھنے والے تھے۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ صحابہ ؓ کی شان ،ان کے مقام اور ان کی دینی حمیت ، ذوق عبادت ، شوق شہادت ، انفاق کی کثرت، آپسی محبت ،کفر وشرک سے نفرت اور دیگر اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے ،قرآن کریم میں ایک مقام پر صحابہ ؓ کی عبادت ،اہل ایمان سے محبت اور کفر وشرک کی گندگی میں ڈوبے ہوئے لوگوں سے نفرت کا ذکر کچھ اس طرح کیا گیا ہے ،ارشاد ہے : مُّحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدْ (الفتح:۲۹) ۔محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو آپ کی صحبت پائے ہیں وہ کفار پر بھاری اور آپس میں مہر بان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں ،کبھی سجدہ،اور اللہ کے فضل ورضامندی کی جستجو میں لگے ہیں ان کے چہروں پر سجدے کے اثر کی نشانیاں ہوتی ہیں،قرآن کریم میں ایک مقام پر ان مبارک ہستیوں کے لئے رضاء الٰہی کی خوشخبری اور جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ،ارشاد ہے: وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ((توبہ :۱۰۰)’’جو مہاجرین وانصار ایمان لانے میں مقدم ہیں اور بقیہ امت میں جتنے لوگ ان کی پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اس نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے ہیں جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بڑی کا میابی ہے،اس آیت میں صحابہ کو دوطبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک اول دوسرے ان کے بعد دونوں کے لئے جنت کی بشارت ہے،قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ میں صحابہ ؓ کے انفاق کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے شوق شہادت اور جذبہ قربانی کی تعریف کی گئی ہے یعنی صحابہ ؓ دین کے معاملہ میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والے تھے چاہئے وہ اسلام کی سر بلندی کے لئے لڑی جانے ولی جنگیں ہوں ،یا غرباء ومفلسین کی مدد ہو یا پھر کار خیر میں خرچ کرنے کا موقع ہو یہ حضرات ان سب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ،وہ لوگ راہ خدا میں اور محبت الٰہی کی خاطر خرچ کرکے اس سے زیادہ خوش ہوتے تھے جتنا کہ مال ودولت کا حریص مال جمع کرکے خوش ہوتا ہے ،یقینا یہ انہیں حضرات کی خصوصیت اور ان ہی کی خوبی ہے ،انہیں اوصاف کی بنا پر اللہ نے ان سب کے لئے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ،ارشاد ہے : ٰ جو فتح مکہ سے پہلے لڑ چکے اور خرچ کر چکے اونچے درجے والے ہیں اور جو فتح مکہ کے بعد خرچ کیا قتال کیا ان میں سے ہر ایک کے لئے جنت کا وعدہ ہے ’’کلا وعد اللہ الحسنی‘‘ اور اللہ کو تمہارے پورے اعمال کی خبر ہے ( الحدید :۱۰)۔
صحابہ ؓ جہاں ایمانی حرارت و کیفیت میں پوری امت میں سب سے امتیازی مقام رکھتے ہیں وہیں تقویٰ وطہارت میں بھی وہ سب سے ممتاز ہیں ،ان کے دل ہمیشہ خشیت الٰہی سے لبریز رہتے تھے ،وہ چاہئے مجمع میں ہوں یا تنہا ، دن میں ہویا پھر رات میں ہر وقت احکام الٰہی کی پابندی کرتے تھے اور اوامر پر عمل کرتے تھے اور نواہی سے بچتے تھے ،ان کے نزدیک چھوٹاسا نیک عمل میں بڑا درجہ رکھتا تھا اور معمولی گناہ بھی پہاڑ سے زیادہ بھاری تھا،یہی وجہ تھی کہ وہ نیکیوں کی فکر میں رہا کرتے تھے اور گناہوں سے بچنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے ،وہ نیکی کو ہیرہ اور گناہ کو شعلہ سمجھتے تھے ،جن کے دل محبت الٰہی سے معمور اور خوف خدا کا اس درجہ ڈر رکھتے ہوں یقینا وہی لوگ ہدایت پر ہوں گے ،قرآن کریم میں ان کے تقوی ٰ کی گواہی ان الفاظ میں دی گئی ہے ،ارشاد ہے:وَاعْلَمُوا أَنَّ فِیْکُمْ رَسُولَ اللَّہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ إِلَیْْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ أُوْلَئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُون(الحجرات:۷)اور جان لو کہ تم میں خدا کے پیغمبر ہیں ،اگر بہت سی باتوں میں سے تمہارا کہنا مان لیں تو تم مشکل میں پڑھ جاؤ گے ،لیکن خدا نے تم کو ایمان عزیز بنادیا اور اس کو تمہارے دل میں سجایا اور کفر وگناہ کو اور نافرمانی سے تم کو بیزار کیا یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ،انہوں نے ایمان قبول کرکے اپنی جان کو آخرت کے عذاب سے محفوظ کر لیا تھا اور دنیوی زندگی کو نافرمانی سے بچانے کے لئے نبوی تعلیمات کے حصار میں خود کو محصور کر لیا تھا ، وہ کوشش کرتے تھے کہ دنیا کا ہر انسان دنیوی نقصان اور اخروی عذاب سے بچ جائے اس کے لئے انہوں نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ مل کر دعوتی مشن پر نکل کھڑے ہوئے تھے ، ان کی کوشش رہتی کہ لوگ اسلام قبول کریں اور ایمان میں داخل ہو جائیں ،وہ رشتہ دار ،دوست احباب اور دیگر قبائل کے لوگوں کے پاس جاکر اسلام کی دعوت دیتے تھے ،اس کی پاکیزہ تعلیمات سے انہیں روشناس کراتے تھے،وحدانیت کا پاٹ پڑھاتے تھے اور نبوت ورسالت سے واقف کراتے ہوئے رسول اکرم ؐ کی ذات اقدس پر ایمان لانے کی ترغیب دیتے تھے ،اس مہم میں انہیں کا فی تکلیفوں ،مصیبتوں اور جسمانی وروحانی اذیتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتاتھا مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اس کام پر جمے رہے اور سینکڑوں لوگوں کے داخل اسلام کا ذریعہ بنے ،قرآن کریم میں انہیں لوگوں کو خیر امت کے لقب سے یاد کیا گیا ہے اور جو قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلیں انہیں بھی یہ اعزاز حاصل ہو گا ،ارشاد ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُوْن(اٰل عمران:۰اا)’’تم لوگ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو‘‘،چنانچہ حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے اصل مصداق تو صحابہ ؓ ہیں اور ان کے بعد جو ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔
صحابہ ؓ کے قلوب ہمیشہ یاد الٰہی میں مصروف رہا کرتے تھے ،وہ آخرت کی فکر ایسے کرتے تھے جیسے تاجر لوگ منافع کی فکر کرتے ہیں ،ان کی زندگی کا مقصد آخرت ہوا کرتا تھا ،وہ ہمیشہ آخرت ہی کو پیش نظر رکھا کرتے تھے ،دنیا اور سامان دنیا ان کی نظر میں بے حیثیت بلکہ ذلیل تھے ، وہ دنیا میں اسی حد تک مشغول رہتے تھے جتنی ان کو ضرورت ہوتی تھی ، ان حضرات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے نہ کبھی دنیا کو اپنے اوپر سوار کیا اور نہ ہی اس کی وجہ سے ان کے دینی معمولات میں کچھ فرق آیا ،وہ دنیا کی مشغولیت میں رہ کر بھی دنیا سے دور رہے کیونکہ ان کا دل ہمیشہ یاد الٰہی میں مشغول رہتا تھا کبھی غافل نہیں رہتا تھا ،قرآن کریم میں ایک مقام پر ان کے اسی وصف کو ذکر کیا گیا ہے ،ارشاد ہے : رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَار(النور ۷۳)’’ ( صحابہ ؓ)ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت اور خرید وفروخت ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ اداکرنے سے غافل نہیں کرتا ‘‘،چنانچہ مرحوم اکبر الٰہ بادی کے اس شعر کے حقیقی مصداق یہی مبارک ہستیاں تھیں جنہوں نے دنیا میں رہ کر آخرت کو ترجیح دی تھی ؎
دنیا میں ہوں ،دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں ،خریدار نہیں ہوں
صحابہ ؓ کی دینداری ،سجاعت وبہادری ،اخلاص وللہیت ،تقوی وطہارت ،ظاہری وباطنی خوبی اور غیر معمولی اطاعت وفرماں برداری کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں اپنا لشکر قرار دے کر ان سے محبت وتعلق کا اظہار فرمایا ہے ،یہ ان کے لئے نہایت اعزاز کی بات ہے ،اس سے ان کی عظمت وشان ظاہر ہوتی ہے اور اس سے ان کے بلند مقام کا پتہ چلتا ہے ،یہ وہ بلندی ہے جس پر ہر بلندی ناز کرتی ہے :أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُون(مجادلہؒ:۲۲)’’ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے اور جنہیں ان جنتو ں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہوئے یہ اللہ کا لشکر ہے بے شک اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہوگا‘‘،صحابہ ؓ وہ مبارک اور برگزیدہ ہستیاں ہیں جو اعمال واخلاق کے لحاظ سے سب سے فائق ہیں ،ان کے اخلاص وللہیت کا کوئی مقابل نہیں ہے ، انہوں نے صحبت رسالت مآب ؐ میں رہ کر ایمان کامل بنایا تھا ،اعمال صالحہ اپنائے تھے ،اخلاق وکرادر سنوارے تھے ، مقصدزندگی کو پالیا تھا ،حقیقی بندگی کا عملی نمونہ بن کر دنیا کے سامنے پیش ہوئے تھے اور دنیا کو بتایا تھا کہ اللہ کی عبادت اور نبی کی اطاعت کس طرح کی جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اللہ نے قیامت تک ان کے ایمان کو دیگر لوگوں کے لئے مثال بنا کر پیش کیا ہے اور ان جیسے ایمان کو ہی معتبر قرار دیا ہے ارشاد ہے : فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ(البقرہ:۱۳۷)’’پھر یہ لوگ بھی ایمان اس طرح لے آئیں جس طرح (اے صحابہ ؓ) تم ایمان لے آئے ہو تو وہ ہدایت یاب ہوجائیں گے اگر منہ پھیر لیں تو اور نہ مانیں تو وہ مخالف ہیں‘‘۔
صحابہ ؓ کے اوصاف ،دینی حمیت اور جذبہ ایمانی کا تذکرہ کرکے آنے والوں کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان جیسا ایمان بنانے کی کوشش کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں ،ان کا ایمان دوسروں کے لئے معیار ہے ،ان کی زندگیاں دوسروں کے لئے نمونہ اور اسوہ ہیں تب ہی تو جابجا ان کے اوصاف کا تذکر ے کئے گئے ہیں ، ان کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے کس طرح عسر ،تنگی اور کٹھن حالات میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پیغمبر اسلام کی نصرت کی تھی نیز بشری تقاضہ پر جو کچھ ان سے کوتاہیاں سرزد ہوئیں ہیں انہیں معاف کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے ، ارشاد ہے : لَقَد تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِن بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ إِنَّہٗ بِہِمْ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ(التوبہ:۱۱۷)’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے نبی ؐ پر ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے ایسی مشکل کی گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا جبکہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں ،پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ،یقینا وہ ان کے لئے بہت شفیق ،بڑا مہر بان ہے‘‘ ، قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ نے انہیں اپنی رضامندی کا پروانہ عطا کیا ہے ، ارشاد ہے : رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہ(البینہ:۸) گویا اس آیت مبارکہ کے ذریعہ تمام صحابہ ؓ کو اللہ کی طرف سے خوشنودی ،رضامندی اور قبولیت تامہ سے نوازا گیا ہے ،یہ وہ اعزاز ہے جو صرف صحابہ ؓ کو عطا ہوا ہے جس سے ان کی عظمت اور شان اور اللہ کی ان سے محبت اور ان کی اللہ سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔