برطانیہ کو مغربی تہذیب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کو مغربی دنیا میں آزادی کا نقیب مانا جاتا ہے کیونکہ اس سے قبل خود ان کے بقول یوروپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ ایران کے بارے میں یہ رائے بنائی گئی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایک اچھا خاصہ مہذب ملک شدت پسندی کے اندھیرے میں ڈوب گیا ۔ اتفاق سے پچھلے دنوں ان تینوں ممالک کے انتخابی نتائج اور اس کے بعد عوامی ردعمل نے ان دعووں کی قلعی کھول کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ۔ یہ سارے نتائج چونکہ مروجہ توقعات کے خلاف تھے اس لیے ان پر نہ تو عالمی ذرائع ابلاغ میں بحث و مباحثہ ہوا اور نہ ہندوستانی میڈیا نے ان کی جانب تو جہ دی ۔ ذرا تصور کریں کہ اگر برطانیہ میں لیبر پارٹی کے بجائے رشی سونک کی قیادت میں قدامت پسند ٹوریز چار سو پار کرجاتے تو ہندوستان کے ہندوتوا نوازوں کا سارا غم کیسے غلط ہوجاتا ۔ ذرائع ابلاغ میں اسے آر ایس ایس کی عظیم کارکردگی اور ہندو مذہب کی زبردست مقبولیت قرار دے کر کیسا شور مچایا جاتا مگر ایسا نہیں ہوسکا ۔ انتخابی نتائج کے بعد اگر فرانس کے بجائے ایران میں تشدد پھوٹ پڑتا تو اسے اسلامی تعلیمات سے جوڑ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کیسی مہم چھیڑ ی جاتی مگر وہ بھی نہیں ہوا۔ اس لیے کوئی سنسنی خیز سرخی نہیں نظرآئی بلکہ چہار جانب سناٹا چھایا رہا اور اسلام دشمن دانشوروں و صحافیوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی نیز احمد فراز کا یہ شعر الٹا پڑگیا ؎
کہاں کہ مکتب وملا ، کہا ں کے درس و نصاب بس اک کتاب ِمحبت رہی ہے بستے میں
ایران میں نرم خو نو منتخب صدرمسعود پزشکیان کی کامیابی کا کشادہ دلی کے ساتھ استقبال اور امن و امان کا بحال رہنا نیز فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی میرین لی پین سمیت معتدل میکرون کی شکست کے بعد تشدد کے پھوٹ پڑنے سے فراز کا شعر اس ترمیم کا محتاج ہوگیا کہ :’جہاں پہ مکتب وملا ، جہاں پہ درس و نصاب، وہیں کتاب ِمحبت رہی ہے بستے میں‘۔ دنیا بھر میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ صرف مسلم ممالک میں مذہبی حکومتیں اور ملوکیت ہے اور پورا مغرب بقول اُن کے ان لعنتوں سے پاک ہوگیا ہے حالانکہ خود برطانیہ میں اب بھی نہ صرف بادشاہ موجود ہے بلکہ وہ ایک مذہبی ریاست ہے ۔ لندن کے اندر ایوان پارلیمان اور چرچ آف لندن کے درمیان ایک معمولی سڑک ہے ۔ وہاں پر چرچ کا کارڈینل بغیر انتخاب لڑے بر بنائے عہدہ ایوان پارلیمان کا رکن ہوتا ہے ۔ برطانیہ کے بادشاہ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان سے ملاقات کو سعادت سمجھتا ہے ۔ یہ منافقت نہیں تو کیا ہے کہ جس شئے کی ایک مقام پر تضحیک کی جائے اسی کر دوسری جگہ سر آنکھوں پرسجایا جائے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ تینوں ممالک میں انتخابات قبل از وقت ہوئے لیکن اس کی وجوہات مختلف ہیں ۔ ایران میں سابق صدر ابراہیم رئیسی کے ایک حادثے میں شہید ہوجانے کی وجہ سے انتخاب واجب ہوگیا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس حادثے کو اسرائیل یا امریکہ سے جوڑ کر اس کی آڑ میں اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کوشش نہیں کی گئی ۔ مغرب کا یہ مزاج ہے کہ وہ ایسے ماحول میں مختلف سازشی نظریات پھیلا کر اختلاف رکھنے والے نظریات اور ان کے حاملین کے خلاف ایک مہم چھیڑ دیتا ہے ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کے وفات کے بعد ملک بھر میں ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ کئی مقامات پر ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی ۔ اس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے لیکن کوئی بدامنی کی واردات نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی نائب صدر نے محمد مخبر نے نہایت نظم و ضبط کے ساتھ اقتدار کی باگ ڈور سنبھال کر انتخابی عمل کا آغاز کردیا ۔ وقت مقررہ پر عوام نے اپنی رائے سے نئے سربراہ کو منتخب کرلیا ۔ اس دوران ایران کے حکمرانوں اور عوام کا صبر و تحمل قابلِ تعریف ہے۔ انتخابی نتائج کا جس کشادہ دلی سے خیر مقدم کیا گیا وہ پچھلے پینتالیس برسوں میں ایک ایسے سیاسی مستحکم سیاسی نظام کا پتہ دیتا ہے جو ہر سرد وگرم کا نظم و ضبط کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔
اس کے برعکس برطانیہ اور فرانس کے اندر قبل ازوقت انتخاب منعقد کرنے وجہ کوئی آسمانی سلطانی نہیں بلکہ سیاسی مفاد پرستی تھی۔ اپنی پارٹی کی بگڑتی ہوئی ساکھ کے پیش نظر اقتدار کو بچانے کی خاطر اچانک 22 مئی ( 2024) کو برطانوی وزیرِاعظم رشی سونک نے برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا ۔ 10 ڈاؤننگ ا سٹریٹ میں کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد انھوں نے کہا کہ بادشاہ چارلس سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور اب عام انتخابات چار جولائی کو ہوں گے۔یہ توقع تو کی جارہی تھی رواں سال خزاں کے موسم میں الیکشن ہوں گے مگر رشی سونک اس کا بھی انتظار نہیں کرسکے ۔ سابق وزیر اعظم رشی سونک کی کابینہ میں ڈپٹی وزیرِ اعظم اولیور ڈاؤڈن سمیت بیشتر ارکان پارلیمان کا خیال تھا کہ حالات اب بہتر نہیں ہوسکیں گے اور اگر رائے دہندگان کو جلداز جلد اپنا حق استعمال کرنے کا موقع نہ دیا گیا تو ان کے ان کی ناراضی کنزرویٹوز کو بہت مہنگی پڑے گی ۔ اس طرح گویا مایوسی اور مجبوری نے رشی سونک کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا اس کے باوجود وہ اپنی پارٹی کو دوسوسال کی سب سے بڑی شکست سے نہیں بچا سکے اور لیبر پارٹی نے چار سو پار کرکے تاریخ رقم کردی ۔ اس طرح مودی اور یاہو کا ایک جگری دوست کیفرِ کردار کو پہنچا ۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ برطانیہ کی طرح فرانس میں بھی جہاں جمہوریت بہت پختہ ہے اور اس کے نتیجے زبردست استحکام کا دعویٰ کیا جاتا ہے حکمرانوں نے اپنے سیاسی فائدے یعنی کمزور پوزیشن کے پیش نظر انتخابی عمل میں جلدی مچائی اور ملک کو عدم استحکام کے منہ میں ڈھکیل دیا ۔ فرانس میں قبل از وقت کرائے جانے والے انتخابات سے صرف سات ماہ قبل صدرایمانیول میکخواں نے گیبریل اٹل کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔وہی اپنی پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اس کے باوجود پارٹی کے دوسرے نمبر پر آنے کے باوجود میکخواں نے بڑی بے حیائی سے اعلان کیا کہ وہ صدر کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔ مودی کی مانند یہ میکخواں کی اخلاقی شکست تھی لیکن اقتدار کے بھوکے جمہوری سیاستدانوں کے نزدیک اخلاق و اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ فرانس اور ہندوستان کے انتخابات میں اور بھی کئی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے ۔
فرانس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے روشن خیال ملک ہے اس کے باوجود نتائج سے قبل وہاں کی سیاست بی جے پی کی جڑواں بہن اور مسلم دشمن انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کو بھاری اکثریت سے کامیابی کی توقع کی جا رہی تھی ۔ پہلے مرحلے میں وہاں کی بی جے پی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور وہ اقتدار کی دہلیز پر دستک دیتی نظر آ رہی تھی۔اس وقت تمام رائے عامہ کے جائزوں میں مودی کی طرح لی پین کو کامیاب کردیا گیا تھا لیکن جب حتمی نتائج آئے تو پتہ چلا کہ جیت کے بجائے وہ تیسرے نمبر پر ہےاور نیو پاپولر فرنٹ نامی بائیں بازو کے اتحاد نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے بازی مارلی ہے۔ فرانس کے اندر رائے دہندگان تمام جماعتوں کو اکثریت سے محروم رکھ کر ایک معلق پارلیمان کی صورت حال پیدا کردی ۔ وہاں 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے 289 نشستیں حاصل نہیں کرسکی اور اب بی جے پی کی مانند مخلوط حکومت بنانے پر مجبور کردی گئی ہے۔
انتخابی نتائج کے بعد وزیر اعظم گیریل اٹل نے اپنی رہائش گاہ پر فرانسیسی رائے دہندگان کے ذریعہ ایک انتہاپسند حکومت کے امکان کو مسترد کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ایسےتمام امیدواروں کی تعریف کی جو آر این کو جیتنے سے روکنے کے لیے دوڑ سے دستبردار ہو گئے تھے۔ان 217 امیدواروں میں میکخواں کی پارٹی کے ارکان بھی شامل تھے جنہوں نے آر این کو روکنے کے لیے دستبرداری کا اعلان کیا تھا ۔ آر این کے رہنما جارڈن بارڈیلا نے بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے ایک ’غیر فطری سیاسی اتحاد‘ کو ان کی پارٹی کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ بی جے پی والے بھی انڈیا اتحاد کو اسی لقب سے یاد کرتے ہیں اور اپنی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی پردہ پوشی کے لیے چالیس پرانی اعلانیہ ایمرجنسی کی دہائی دیتے ہیں ۔ ہر سال پچیس جون کو آئین کے قتل کا دن منانے کا علان کرتے ہیں ۔ دراصل یہی منافقت فرانس کی جمہوریت اورہندوستان کی فسطائیت کے درمیان مشترک ہے۔مرتضی برلاس کے بقول؎
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے