Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
question-on-foreigner-supreme-courts-decision-on-rahim-alis-citizenship

فارنرزایکٹ پر سوال:رحیم علی کی شہریت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

Posted on 14-07-2024 by Maqsood

فارنرزایکٹ پر سوال:رحیم علی کی شہریت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

نئی دہلی، 13جولائی (آئی این ایس انڈیا )
آسام کے ایک شخص کی شہریت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے، جس میں شہریت حاصل کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے اپیل گزار محمد رحیم علی کے حق میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔ اس کے لئے20 سال اسے جدوجہد کرنی پڑی۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف ان کی شہریت بحال کی بلکہ فارنرز ٹربیونل کے کام کرنے کے انداز پر بھی سوالات اٹھائے۔دراصل 19 مارچ 2012 کو آسام میں فارنرز ٹریبونل نے اپیل کنندہ محمد رحیم علی کو غیر ملکی قرار دیا تھا اور بعد میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔
گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلے سے مایوس محمد رحیم علی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی جس پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے انصاف کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فارنرز ایکٹ کی دفعہ 9 کسی افسر کو یہ حق نہیں دیتی وہ کسی بھی شخص کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں اور انہیں اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں شبہ ہے کہ آپ غیر ملکی شہری ہیں، اور پھر قانونی طور پر انہیں غیر ملکی قرار دے سکتے ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس احسن الدین امان اللہ کی بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں ہونے والی غلطی کی وجہ سے اس طرح کے دیگر معاملات پر بھی اثر پڑے گا، جہاں آسام میں مزید لوگوں کی شہریت کو لے کر تحقیقات جاری ہیں۔
عدالت نے کیس میں یہ سوالات بھی اٹھائے کہ جب 2004 میں پہلی بار محمد رحیم علی کی شہریت پر سوال اٹھایا گیا تو اس کی بنیاد کیا تھی؟عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا، مقدمہ کی تفتیش کرنے والے افسران کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی مادی بنیاد یا معلومات ہونی چاہیے جس سے یہ شبہ ہو کہ کوئی شخص ہندوستانی نہیں بلکہ غیر ملکی شہری ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ اپیل کرنے والے کے خلاف کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں آیا، سوائے اس بے بنیاد الزام کے کہ وہ 25 مارچ 1971 کے بعد غیر قانونی طور پر ہندوستان آیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ یہ نہیں معلوم کہ یہ الزام کس نے لگایا یا پولیس کو یہ اطلاع کس نے دی۔ اس کا انکشاف بھی نہیں کیا گیا۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ کیس 7 جولائی 2004 کو اس وقت شروع ہوا تھا جب نلباری تھانے کا ایک سب انسپکٹر محمد رحیم علی کے گھر آیا اور اسے بتایا کہ ان کی شہریت زیر سوال ہے اور ان سے کہا کہ وہ اپنی شہریت ظاہر کر کے ثابت کرے۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستان کے اصل شہری ہیں۔محمد رحیم علی کے لیے یہ سب بالکل نیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ان کے پاس شہریت سے متعلق کوئی کاغذ یا دستاویز نہیں ہے اور اس کے لیے انہوں نے 7 دن کا وقت مانگا ہے۔
بعد میں جب وہ دستاویزات دکھانے سے قاصر رہے تو یہ معاملہ 2006 میں فارنرز ٹریبونل میں چلا گیا۔ کیس کی سماعت کے دوران رحیم عدالت میں پیش نہیں ہو سکے جس کی وجہ انہوں نے اپنی خراب صحت بتائی۔ ان پر الزام ہے کہ ٹریبونل نے یکطرفہ حکم جاری کرتے ہوئے انہیں بنگلہ دیشی شہری قرار دیا تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وہ 25 مارچ 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آسام آیا تھا۔ اس وقت ٹربیونل کا کہنا تھا کہ فارنرز ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ وہ غیر ملکی نہیں ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb