Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Place of Martyrdom and Message of Martyrdom of Syedna Hussain

مقام ِشہاد ت اور پیغام شہادت سیدنا حسینؓ

Posted on 15-07-2024 by Maqsood

مقام ِشہاد ت اور پیغام شہادت سیدنا حسینؓ

ازقلم: مفتی عبدالمنعم فاروقی

اسلام میں شہادت کو ایک عظیم ترین عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اسلام میں شہادت پانے والے کا مرتبہ ودرجہ بھی بہت بلند ہے ، قرآن مجید میں شہادت کا مرتبہ پانے والے کو زندہ کہا گیا ہے اور وہ ایسی زندگی پانے والا ہے جسے رزق دیا جاتا ہے مگر دنیوی زندگی رکھنے والے اس کا شعور نہیں رکھتے ہیں ،حدیث میں شہید کا نہایت بلند درجہ بتلایا گیا ہے ،شہید کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی نوید سنائی گئی ہے ، شہادت اس قدر بلند ترین چیز ہے کہ جس کی آرزو خود رسول اللہؐ نے فرمائی ہے اور باربار فرمائی ہے ،شہید چونکہ اسلام کی سر بلندی کے لئے اپنی جان دیتا ہے تو بدلے میں اللہ تعالیٰ بھی اسے بلند ترین مقام اور اجر عظیم سے نوازتے ہیں ،رسول اللہ ؐ نے اپنے اصحابؐ کے دل میں شہادت کی اس قدر اہمیت وعظمت بٹھائی تھی کہ صحابہؓ شہادت کا ایسا شوق رکھتے تھے جس طرح دنیا سے محبت رکھنے والا شخص زندگی کے طویل ہونے کا شوق رکھتا ہے ، تاریخ وسیرت کی کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ صحابہؓ نے شوق شہادت میں منہ میں رکھے ہوئے کھجور کے نگلنے کی تاخیر کو بھی گوارا نہیں کیا ،انہیں معلوم تھا کہ شہید شہادت کا مرتبہ پاتے ہی جنت میں داخل ہوجاتا ہے چنانچہ صحابہؓ کو جب اسلام دشمنوں سے مقابلہ کے لئے دعوت دی جاتی تھی تو وہ شوق شہادت میں دشمنوں پر اس طرح جھپٹتے تھے جس طرح کوئی بھوکا کھانے کی طرف جھپٹتا ہے،چنانچہ غزوہ بدر میں حضرت سیدنا عمیر بن الحمام ؓ کے ہاتھ میں چند کھجوریں تھیں جن کو آپ کھارہے تھے اسی اثنا میں رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اللہ کی قسم! آج جو بھی شخص کفار ومشرکین سے مقابلہ کرے گا اور وہ صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھتے ہوئے نیز آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا،یہ سن کر آپؓ نے کہاواہ واہ میرے اور دخول جنت کے درمیان صرف اتنی بات ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کردیں ،یہ کہہ کر آپؓ نے کھجوریں پھینک دیں اور تلوار لے کر قتال کرنا شروع کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے (اسد الغابہ) ۔

شہادت کے عظیم مرتبہ پر نواسۂ رسول ،فرزند مرتضیٰ اور جگر گوشہ ٔ فاطمہ حضرت سیدنا حسین ؓ اور دیگر اہل بیت مطہر بھی فائز ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کے گھرانے کو بھی یہ شرف عطا کیا کہ انہوں نے بھی راہ خدا میں جان دے کر قیامت تک تمام اہل ایمان کو یہ پیام دیا کہ رسول اللہ ؐ کا لایا ہوا دین ہم سب کی جانوں سے بھی زیادہ قیمتی ہے اگر دین کے لئے جان دینے کا موقع آجائے تو اس کو اپنی سعادت سمجھنا اور بخوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کردینا ،نوسہ رسول سیدنا حسین ؓ اور دیگر اہل بیت اطہار نے انتہائی نازک اور ناموافق حالات میں نہایت صبر وتحمل کے ساتھ دین پر ثابت قدم رہکر ،باطل کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور پھر اپنے نانا جان کے لائے دین کی عظمت وسربلندی کی خاطر اپنا گھر بار لٹا دیا ،اور اس کے ذریعہ امت مسلمہ کو عملی پیغام دیا کہ دین اسلام اور نانا جان کی لائی ہوئی شریعت مال و اولاد اور ہماری جانوں سے زیادہ قیمتی و عزیز ہے ،لہذا اس کی حفاظت کیلئے جان تو دی جا سکتی ہے مگر جبین شریعت پر معمولی شکن بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا ، جس طرح سے ایک آدمی اپنی جانِ عزیز کی حفاظت کرتا ہے اہل ایمان کے لئے دین متین اور شریعت مطہرہ کی حفاظت اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ،نواسی رسول سیدنا حسین ؓ میدان کربلا میں بلا کے جوہر دکھاکر دین اسلام کی قدر وقیمت کو ثابت کردیا، لیکن افسوس کہ اہل بیت سے محبت کا ڈھونگ رچانے والے اور امت کی عظیم ترین شخصیتوں صحابہؓ سے بغض وعناد رکھنے والوں نے شہادت عظمی کا عظیم واقعہ اور اس کے عملی پیغام کو چھوڑ کر صرف نوحہ خوانی اور گریہ وبکا تک ہی محدود کر دیا ہے ، ان بد باطن لوگوں نے اس عظیم واقعہ کے تاریخی پہلو ؤں اور اس کے پیامات سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف نوحہ خوانی اور سینہ کوبی ہی کو ضروری سمجھ لیا ہے ،اس پر ستم ظرفی دیکھئے کہ بہت سے سادھ لوح مسلمان اس چال باز طبقے کی سازش کا شکار ہوکر وہی سب کچھ کرنے لگے ہیں جس کا شہادت اور شہادت سیدنا حسین ؓ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

اسلام میں مواقع غم وخوشی اور مسرت ومضرت کے احکام بڑی تفصیل اور نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں،خوشی کے موقع پر شکر اور مصیبت کے موقع پر صبر کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ،اور اس سلسلہ میں رسول اللہؐ کے ارشادات وفرمودات اور آپؐ کا عملی نمونہ بھی موجود ہے جو ہر مسلمان کے لئے بہترین نمونہ ہے ،اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کا موقع ہوسکتا ہے کہ رسول اللہؐ مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں ، سرزمین مکہ کا ذرہ ذرہ اسلام کی شوکت سے جگمگا اُٹھا ہے ،نارۂ تکبیر سے مکہ کی وادیاں گونج اُٹھی ، صحابہ ٔ کرام ٹکڑیوں کی شکل میں مکہ کی وادیوں سے ہوتے ہوئے شہر میں داخل ہو رہے ہیں ،شکر اسلام کے رعب ودبدبہ کا یہ منظر دیکھ کر دشمنوں کی آنکھیں خیرہ ہو رہی ہیں ،صرف چند ہی سالوں میں جزیرۃ العرب اسلام کے پرچم تلے آچکا ہے، بخاری میں حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ فتح مکہ کے دن ناقہ پر سوار ہیں اور خوش الحانی کے ساتھ سورۂ فتح پڑھ رہے ہیں،اس عظیم فتح کے وقت مسرت اور نشاط فرحت کے آثار کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں تخشع و تضرع اور تذلل وتمسکن کے آثار بھی چہرۂ انور پر نمایاں ہیں،تواضع کا یہ عالم ہے کہ گردن مبارک اس قدر جھکی ہوئی ہے کہ ریش مبارک ناقہ سواری کے کجاوہ کی لکڑی سے مس کر رہی ہے (بخاری)،اسی طرح رنج و غم کا موقع اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ آپ ؐکی نور نظر اور جگر کا ٹکڑا حضرت زینب ؓ وفات پا چکی ہیں ،عورتیں رونے لگیں ،فاروق اعظم ؓ انہیں کوڑے سے روکنے لگے تو آپ ؐ نے انہیں پیچھے ہٹا لیا اور عورتوں سے فرمایا ’’تم شیطان کی سی چیخ وپکار سے بچو ،پھر فرمایا جب غم نم آنکھ اور دل سے ہوتو اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور رحمت اور جب ہاتھ اور زبان سے ہونے لگے تو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے (مسند احمد:۲۱۲۷)،ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’ جو (کسی کی موت پر) منہ اور سینہ پیٹے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی طرح بین کرنے( یعنی مردے اوصاف بیان کرکرکے رونے اور رلانے والا) وہ ہماری جماعت (مسلم )سے نہیں (بخاری : ۱۲۹۷) ، خود رسول اللہؐ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ بیٹی جب میں فوت ہو جاؤں تو ماتم میں چہرہ نہ نوچنا ،بال نہ بکھیر نا اور ہائے ہائے نہ کرتے ہوئے نہ رونا اور مجھ پر بین کرنے والیوں کو نہ بلانا(فروع کافی)، ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں کہ جن میں آپؐ نے کسی کے مرنے پرسوگ منانے، نوحہ وماتم کرنے اورگال پیٹنے وسینہ زنی کرنے سے سخت منع فرمایا ہے،البتہ اپنے عزیز واقارب اور رشتہ داروں کی جدائی پر جو فطری رنج وغم ہوتا ہے اس کی اجازت دی گئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے عام رشتہ داروں پر تین دن اور شوہر کے انتقال پر بیوی کے لئے چار مہینہ دس دن شرعی حدود میں رہتے ہوئے سوگ کی اجازت دی ہے ،چنانچہ صحابیہ ام عطیہؓ کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا ،تو انہوں نے تیسرے دن ذرد خوشبو منگواکر اپنے بدن پر لگایا اورکہنے لگیں کہ ہم کو شوہر کے علاوہ کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے کو منع کیا گیا ہے(بخاری : ۱۲۷۹)،اسی طرح کسی کے انتقال پر اظہار افسوس ورنج کے طور پر سیا کپڑے پہننا بھی منع ہے ،رسول اللہؐ نے سختی سے منع فرمایا ہے(بخاری:۱۲۹۴) ،یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نیصراحت کے ساتھ اس کے ناجائز ہونے کو لکھا ہے( ہندیہ ۵؍ ۳۳۳)۔

نوسہ رسول سیدنا حسین ؓ نے اپنے عمل سے تمام اہل ایمان کو یہ پیغام دیا کہ مسلمانو! تم ہر گز شہادت کے مقاصد کو فراموش نہ کرنا اور کوئی ایسا عمل نہ کرنا جس سے شہادت اور مقصد فوت ہوجاتا ہے بلکہ تم تو امت دعوت ہو اور تم پر دین کی عظیم ذمہ داری ہے ،اس بات کی ہر وقت کوشش کرتے رہنا کہ پورے عالم میں دین اسلامکا علم بلند ہوجائے ،پیغام اسلام پہنچانے میں کسی بھی طرح کا تساہل نہ برتنا اور نہ ہی باطل کے سامنے کبھی اپنی گردن جھکانا اور یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جان ومال کا سودا کیا ہے جنت کے عوض ،گویا ہم خدا کے ہاتھوں بک چکے ہیں ،یہ ایسا زبردست سودا ہے جس میں نفع ہی نفع ہے اور منافع دینے والا کو ن ہے جو صفت فیاضی سے متصف ہے ،اس کی شان کریمی وصت حیمی دیکھئے کہ اپنی ہی دی ہوئی چیزوں کو خرید رہا ہے صر ف بندوں کے فائدے کے لئے ،ارشاد ہے: إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْْہِ حَقًّا فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(توبہ:۱۱۱)’’ بلاشبہ خدا نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ،وہ لوگ راہ خدا میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ،اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے ولا ہے ،تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ کیا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے‘‘یقینا اس آیت میں مسلمانوں کو آخرت کی کامیابی اور جنت کی دائمی زندگی اور اس کی مسرتوں کی خوشخبری سنائی گئی ہے ،اور اسے بہت بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا اور کیوں نہ ہو کہ دنیا ،اس کا قیام اور اس کی راحتیں عارضی وفانی ہیں ،اس کے مقابلہ میں آخرت ،جنت ،وہاں کا قیام وقرار دائمی اور وہاں کی نعمتیں لازوال ہیں ،اس بیع عظیم اور نفع بخش سودے کے بعد ایک سچے اور پکے مسلمان کامقصد حیات دین اسلام کی سربلندی اور سرفرازی ہونا چاہیے ؎
میری زندگی کا مقصد تیری دیں کی سر فرازی
میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی

اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ کسی عظیم شخصیت کے وصال یا شہادت پر غم منانا ہوتا تو نوسہ رسول سیدنا حسین ؓ ہی کیا رسول اللہؐ کے وصال ،شہادت سیدنا عمرؓ ، سیدنا عثمانؓ ، سیدنا علی ؓ ، سیدنا حمزہ ؓ ، سیدنا حسنؓ اور بدر واحد کے شہداء اسی طرح دیگر غزوات وسرایا میں شہید ہونے والے صحابہ ؓ پر غم کیا جاتا ، سوگ منایا جاتا اور محفل نوحہ خوانی سجائی جاتی مگر دین شریعت میں بڑی وضاحت کے ساتھ ، نہایت صاف الفاظ میں اس طرح کی حرکتوں سے منع کیا گیا ہے اور کرنے والوں پر لعنت اور اس سے بے تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے ،دراصل نوحہ خوانی ،سینہ زنی اور ماتمی محفلیں اور جلوس یہ سب کچھ سبائی فرقے کی اختراع ہے اس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ،یہ وہی گروہ ہے جس نے اہل بیت کی محبت کا سہارا لے کر صحابہ کرام ؓ کی شان میں اقدس میں گستاخیاں کی ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہے ،یہ وہ جھوٹا اور عیار ومکار گروہ ہے جس نے شہادت سید نا حسین ؓ کا سہارا لے کر محرم الحرام کی عظمت اور اہل بیت کی حرمت کا ناس کیا ہے ، ماتم اور سینہ کوبی کے نام پر اہل بیت اطہار کی پاکباز خواتین کو سر بازار لا کھڑا کیا ہے ، اہل بیت سے تعلق کا نام دے کر قوم کو بدعت وخرافات میں مبتلا کیا ہے ،اسی مکتبہ فکر سے متأثر ہوکر اور انہی کا دیکھا دیکھی بعض بھولے بھالے مسلمان بھی وہ سب کام کرنے لگے ہیں جس کا اسلام سے اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے لئے شہادت غم نہیں بلکہ عزم وحوصلہ پانے کی چیز ہے ،ہمیں سیدنا حسین ؓ کے پیغام کو سمجھنا چاہیے کہ انہوں کس قدر نازک حالات میں ثابت قدم رکھ کر نہ صرف حق پر جمے رہے بلکہ اسلام کے پرچم کو بلند کیا اور قیامت تک اہل ایمان کو زبان حال سے پیغام دیا کہ حق کی حقانیت ،مظلوم کی حمایت اور اور اسلام کی سربلندی کے لئے سر تو کٹایا جاسکتا ہے لیکن کسی حال میں بھی اسے جھکایا نہیں جاسکتا ۔
�����
����

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb