ازقلم:ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی ۔بجنور
9897334419
عاشوراء کے معنی ہیں ’’دسواں‘‘۔اس سے مراد محرم الحرام کا دسواں دن ہے۔محرم الحرام قمری سال کا پہلا مہینہ ہے ۔عربوں میں قمری سال کا آغاز اسی مہینہ سے ہوتا تھا۔محرم کے معنی ہیں ’’قابل احترام‘‘اور حرام کے معنی ہیں ’’حرمت والا‘‘۔یعنی وہ مہینہ جو حرمت والا ہے اور اس کی سب کو عزت کرنا چاہئے۔عربوں میں چار مہینے حرمت والے سمجھے جاتے تھے ۔زنامہ جاہلیت میں ان مہینوں میں جنگ نہیں کی جا سکتی تھی ۔دو قبائل میں جنگ ہوتی اور حرمت والا مہینہ آجاتا تو دونوں فریق اس کے احترام میں جنگ روک دیتے ۔ان میںتین مہینے لگاتار ہیں ۔ذی قعدہ ،ذی الحجہ اور محرم ۔ ذی الحجہ میں حج کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک مہینہ ذی قعدہ حرمت والا ہے تاکہ لوگ امن و سکون کے ساتھ حج کے لیے آسکیں ،دوسرا مہینہ ذی الحجہ ہے تاکہ لوگ اس میں آسانی کے ساتھ مناسک حج ادا کرسکیں ۔اس کے بعد تیسرا مہینہ محرم الحرام کا ہے تاکہ لوگ بخیریت اپنے واطن کو واپس ہوسکیں ۔حرمت والا چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو سال کے درمیان میں پڑتا ہے تاکہ لوگ درمیان سال میں بھی لڑائی جھگڑے سے دور رہ کر امن و سلامتی اور اطمینان کے ساتھ رہ سکیں ۔اسلام نے بھی ان چار مہینوں کی حرمت کو باقی رکھا۔ مختصر یہ کہ محرم الحرام کا مہینہ زمانہ قدیم سے قابل احترام رہا ہے ۔قرآن مجید میں حرمت والے مہینوں کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے ۔
’’ اللہ کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں، ان میں سے چار عزت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، سو ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔‘‘(توبہ36)
اس مہینہ کی عظمت کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس میں روزہ رکھنے کی فضیلت بیان فرمائی ۔چنانچہ نبی اکرم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ ؐنے دیکھا کہ یہود دسویں محرم الحرام کو روزہ رکھتے ہیں ۔آپ ؐ نے ان سے وجہ دریافت کی تو انھوں نے بتایا کہ اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی جب کہ فرعون غرقاب ہوگیا تھا ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ کے بارے میں تو ہم زیادہ حق دار ہیں،چنانچہ آپ ؐنے خود بھی دسویں محرم کو روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی حکم دیا ۔ آپ ؐ اور صحابہ ٔ کرام استحباباً دسویں محرم کا روزہ رکھتے رہے ۔آپ نے اپنی زندگی کے آخری سال ارشاد فرمایا:’’اگر میں زندہ رہا تو اگلے سال نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا۔‘‘مگر آپ اگلے محرم تک بقید حیات نہ رہ سکے۔ البتہ صحابہ کرام اور سلف صالحین نویں اور دسویں محرم کا مستحب روزہ رکھتے رہے ہیں اگر کوئی نویں محرم کو روزہ نہ رکھ سکے تو وہ دسویں اور گیارہویں محرم کو روزہ رکھے تاکہ یہود سے امتیاز باقی رہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیںکہ آنحضور ؐ نے ارشاد فرمایا:’’میں آئندہ سال عاشوراء کے ساتھ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا مگر اس سے پہلے ہی آپ دنیا سے رخصت ہوگئے۔‘‘ (مسلم )لیکن جب تک حضور اکرم ﷺ دنیا میں رہے اس روزہ کا اہتمام کرتے رہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو جس قدر اہتمام کے ساتھ رمضان اور عاشوراء کے روزے کا اہتمام فرماتے دیکھااس قدر کسی دوسری فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام کرتے نہیں دیکھا (بخاری)
حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینہ محرم کا روزہ سے ‘‘(ترمذی ‘‘اس حدیث میں محرم کو اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے ۔یوں تو سب مہینے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں مگر محرم کے مہینہ کو اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے ۔جس سے اس مہینے کی حرمت و عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
مندرجہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ محرم الحرام کو چار وجوہ سے فضیلت حاصل ہے ۔ (۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَھْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہٗ شَھْرُ اللٰہِ فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ · (ترمذی) یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ (۲) احادیث میں اس مہینہ کو ’’شھرُ اللہ‘‘ کہا گیاہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔ (۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ’’اشھر حرم‘‘ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے۔ (۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہوتی ہے؛ چنانچہ امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ ’’ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔‘‘ (احیاء العلوم )
ؑٓاگر انسان ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتا ہے تو یہ روزے پوری زندگی کے گناہوںکاکفارہ بن جاتے ہیں۔احادیث کے مطابق یو م عرفہ کا روزہ دو سال کے لیے کفارہ ہے اور یوم عاشوراء کا روزہ ایک سال کے لیے کفارہ ہے ۔
حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔’’اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ عاشوراء کا روزہ رکھنے کی وجہ سے وہ پچھلے ایک سال کے گناہ معاف فرمادے گا۔‘‘(مسلم )
یوم عاشورہ کی فضیلت کا تقاضا یہی ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے اور اللہ کی عبادت کی جائے ۔اس کے علاوہ یوم عاشوراء کے سلسلے میں بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں ۔کسی صحیح حدیث سے ان کا ثبوت نہیں ملتا۔مثلاً:
یوم عاشوراء کے دن حضرت آدم ؑ کی دعا قبو ل ہوئی اسی دن حضرت نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ۔حضرت ابراہیم ؑ کے لیے آگ گلزار ہوگئی ۔حضرت ایوب ؑ کو صحت ملی ۔حضرت یعقوب ؑ کی حضرت یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ۔اسی دن حضرت عیسی ؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا۔قیامت بھی دس محرم کو آئے گی حالانکہ قیامت کے بارے میں صرف اتنی بات احادیث میں کہی گئی کہ قیامت جمعہ کے دن آئے گی ۔
بعض احادیث میں آتا ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر خوان کو کشادہ کرے گا،اللہ تعالیٰ پورے سال اس کو کشادگی عطا فرمائے گا۔اس مفہوم کی حدیث کو طبرانی ،بیہقی اور ابو شیخ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے مگر کہا ہے کہ ان سب کی اسناد ضعیف ہیں۔مگر بہت ساری ضعیف احادیث ملکر کسی درجہ قوی ہوجاتی ہیں ۔ اس لیے بعض علماء و ائمہ کا کہنا ہے کہ عاشوراء کے دن اعزہ ،اقرباء پر خرچ کرنا پسندیدہ و مستحب ہے ویسے بھی انفاق کی عمومی فضیلت ہے ۔
عاشوراء کی فضیلت و احترام کا واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔بعض لوگ عاشوراء کے روزے کو حسینی روزہ کہتے ہیں ۔یہ ان کی کم علمی اور نادانی ہے ۔کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا بدترین باب ہے اس دن نواسہ ٔ رسول کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا۔ہمیں اپنی تاریخ کے طور پر اس واقعہ کی تفصیلات کاعلم ہونا چاہئے اور یہ جاننا چاہے کہ سیدنا حسین ؓ کی شہادت کیوں ہوئی ؟لیکن اس دن تعزیہ بنانا ،سینہ کوبی کرنا،وغیرہ درست نہیں ۔دین کی تکمیل نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں فرمادی تھی ۔اس لیے دین میں کوئی تعبدی عمل داخل نہیں کیا جاسکتا ۔حضرت حسین ؓ کی شہادت کا غم منانا ،سوگ کرنا ،کالے کپڑے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس پیغام کو سمجھنا چاہئے جس کے لیے حضرت حسین ؓ نے اپنی جان کا نذرنہ پیش کیا۔اول تو کسی شہید کا غم نہیں کیا جانا چاہئے ور دوسرے یہ کہ اسلام میں کسی میت کا سوگ صرف تین دن تک منانے کا حکم ہے ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ شہید کربلا کا مقابلہ یزید کی شخصیت اور ذات سے نہ تھا بلکہ اس غلط طرز حکومت سے تھا جس نے اسلامی نظام حکومت کی بنیادیں ہلاڈالی تھیں۔ اس نظریۂ سیاست سے تھا جو اسلامی نظریہ سیاست سے ٹکرا رہا تھا۔ اس نظام حکومت سے تھا جس نے شورائیت کی جگہ آمریت کو جنم دیاتھا۔ نعوذ باللہ امام حسینؓ کی ذات اتنی پست اور سطح نہ تھی کہ ذاتی یا خاندانی عداوت کے لیے میدان جنگ کا انتخاب کرتی بلکہ اس پروردۂ رسولؐ کی آنکھوں سے یہ نہ دیکھا گیا کہ اسلامی نظام حکمرانی میں کوئی تبدیلی وترمیم ہو۔ ان کے دل نے اسلام اور حق پرستی کے تحفظ کے لیے وہی صدا بلند کی جو خلیفۂ رسولؐ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نصف صدی پہلے بلند کرچکے تھے۔اینقص الدین وانا حی‘‘ کیا میرے ہوتے ہوئے دین میں کتر بیونت ہوسکتی ہے؟
واقعہ کربلا سے اہم درس یہی ملتا ہے کہ انسان کو کسی بھی حال میں کسی بھی باطل اور ضلالت و گمراہی کے سامنے کبھی نہیں جھکنا چاہئے بلکہ اسے حق اور سچائی کے راستہ پر قائم رہنا چاہئے ،چاہے باطل کے پاس کتنی ہی بڑی قوت اور طاقت ہو اور اس کے مقابلہ پر حق پرست انسان کے پاس کم سے کم افرادی و مالی وسائل ہوں ۔سچائی کے راستہ پر چلتے ہوئے اسے اپنا مال ،اپنے اعزہ و احباب اور اپنی جان کو بھی قربان کردینا چاہئے ،مگر افسوس کہ مسلمان اس عظیم واقعہ سے عبرت لینے اور زریں اصول کو اپنانے کے بجائے سینہ کوبی، تعزیہ داری، مرثیہ خوانی میں اپنا عزیز وقت اور قیمتی مال صرف کرتے ہیں حالانکہ شریعت میں ان لغویات کے لیے کوئی جگہ نہیں کاش مسلمان سمجھتے! کاش وہ اس واقعۂ کربلا کا اس طرح استہزاء نہ کرتے بلکہ اس درس مبین کی روشنی میں نظام باطل کے خلاف جدوجہد کرکے نظام حق کے قیام کی کوشش کرتے۔
آج بھی حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی پاک روحیں پکار پکار کرکہہ رہی ہیں کہ اے محمدؐ وحسینؓ کے نام لیوائو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ مسجد سے لے کر بازار تک،مدرسہ سے لے کر میدان کا رزار تک، ملکی انتظامات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک خدا سے بغاوت ہی بغاوت ہے۔ مگر تم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہو۔ قوانین الٰہی کو پامال کیا جارہا ہے ، حدوداللہ کو توڑا جارہا ہے، اللہ کے بندوں سے اللہ کے بجائے بندوں کی عبادت کرائی جارہی ہے، کذب وغیبت ، رشوت وخیانت، افتراء وبہتان تراشی، قتل وغارت گری کا دور دورہ ہے اورتم غفلت کی نیند سورہے ہو حالانکہ تمہارے دعویٔ اسلام اور محبت محمدﷺ وحسینؓ کا تقاضا ہے کہ بہادرانہ وار اٹھو اور بدی وگمراہی کے اس سیلاب کا رخ پھیر دو اور اسے اس رخ پر بہنے کے لیے مجبور کرو جو اسلام سے عین مطابقت رکھتاہے۔