عاشورہ کا روزہ و روزوں کی اقسام
تحریر۔محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور
رمضان کریم کے روزے ہرمسلمان عاقل و بالغ پرفرض ِمعین ہیں اسی وجہ سے قوم مسلم بڑی خوشی و مسرت و شادمانی کے ساتھ رمضان شریف کے روزوں کا اہتمام کرتی ہے رمضان شریف کے روزے رکھنے میں کسی مسلمان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہئے اس لئے کہ یہ حکم خداوفرمانِ رسول اللہ ہے ماہ رمضان کریم کے علاوہ دیگرگیارہ مہینوں کے مخصوص دنوں میںروزے رکھے جاتے ہیں
کیا ان مخصوص دنوں میں ان روزوں کا رکھنا فرض ہے یا واجب ہے یانفل ہے ؟
روزوں کی اقسام (۱)فرض(۲)واجب(۳)نفل (۴) مکروہ ِ تحریمی
فرض ۔رمضان المبارک کے روزے فرض معین ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ پارہ ۲ آیت نمبر ۱۸۳میں فرمایاترجمہ کنزالایمان۔اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر روزے فرض ہوئے تھے ۔اس آیت کریمہ میں روزوں کی فرضیت کا حکم موجود ہے روزے عبادت ِ قدیمہ ہیں زمانہء آدم علیہ السلام سے تمام شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگر چہ ایام و احکام مختلف تھے مگر اصل روزے سب امتوں پرلازم رہے
واجب۔ شرعی عذرکے پیشِ نظرمثلاََ سفر مرض کی وجہ سے ماہِ رمضان کا روزہ رکھ نہیں پایا تو ضروری ہے کہ وہ عذرجانے کے بعد باقی روزوں کی قضارکھیں اورجن لوگوں نے عذروں کے سبب روزہ توڑااُن پرفرض ہے کہ ان روزوں کی قضارکھیں جیسے قرآن پاک میں اللہ پاک نے سورہ بقرہ پارہ ۲ آیت نمبر ۱۸۴میں فرمایاترجمہ کنزالایمان ۔توتم میں جو کوئی بیمار یا سفرمیں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھو۔
نفل ۔ نفل روزوں کی بڑی فضیلت احادیث میں موجود ہے صحیح بخاری کتاب الصوم
باب صوم شعبان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ حضور ﷺ شعبان سے زیادہ روزے کسی مہینے میں نہیں رکھتے تھے اور صحیح بخاری کتاب الصوم ہی میں یہ حدیث شریف بھی موجود ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا ،جب حضور ﷺ روزہ رکھنا شروع کرتے تو ہم کہتے کہ اب آپ ﷺافطار نہیں کریں گے اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ آپﷺ ہر ماہ کی ۱۳۔۱۴۔۱۵۔ایام بیض کے روزے رکھا کرتے تھے۔امام احمد وترمذی ونسائی و ابن ماجہ حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ راوی ہیں حضور رحمت دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایاجب مہینہ میں تین روزے رکھنے ہوں تو تیرہ چودہ پندرہ کو رکھواور نفل روزوں کے فضائل پر متعدداحادیث موجود ہیں نفل روزوں اور منت کے روزوں کے متعلق بہارشریعت حصہ پنچم کا مطالعہ فرمائیں
مکروہ تحریمی ۔ایام منہیہ پانچ دن ہیں جن میں روزے رکھناجائزنہیں دونوں عیدیں اور ذی الحجہ کی گیارہویں بارہویں اورتیرہویںتاریخ ہے ان دنوں میں روزے رکھنا مکروہِ تحریمی ہے
عاشورہ کے روزہ کا حکم
صحیح بخاری کتاب الصیام باب صیام یوم عاشورآء میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ قریش جاہلیت کے دنوں میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے توہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا
حدیث۔صحیح بخاری شریف کتاب الصیام ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ شریف تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے روز روزہ رکھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ روزہ کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا مبارک دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے خلاصی بخشی تھی بناء بریں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس روز روزہ رکھا تھا آپ ﷺ نے فرمایا ہم تم سے کہیں بڑھ کر موسیٰ علیہ السلام سے (تعلق کے ) حقدارہیں چنانچہ آپﷺ نے اس دن خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا
حدیث۔حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں یہودی عاشورہ کوعید تصور کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے فرمایا تم بھی اس روز روزہ رکھا کرو
حدیث۔ ترمذی شریف ابواب الصوم باب ماجاء فی صوم المحرم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایارمضان کریم کے روزوں کے بعد اللہ پاک کے مہینے محرم کے روزے افضل ہیں امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث ابوہریرہ حسن ہے
حدیث۔ترمذی شریف ابواب الصوم باب ماجاء فی الحث علیٰ صوم عاشورآء میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یوم عاشورہ کا روزہ رکھے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرمادے گا تو ہمیں چاہئے کہ ضرور باضرورنو دس یا د س گیارہ محرم الحرام کا روزہ رکھے