حالیہ انتخابی نتائج سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی نیندکا اڑنافطری بات ہے کیونکہ ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹرکے انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں کراری ہار کے باوجود آر ایس ایس اس خوش فہمی میں مبتلا ہےکہ ہے کہ وہاں اس کی نیاّ پار لگ جائے گی اس لیے اس نے کل ہند ریاستی پرچارکوں کا اجتماع بتاریخ 12 سے 14 جولائی رانچی میں رکھا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ملک میں جملہ 46 تنظیمی حلقے ہیں۔ اس اجلاس میں منصوبے کا جائزہ، عمل آوری اور آنے والے سال کی منصوبہ بندی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔سنگھ پریوار کو جھوٹ پھیلانے میں زبردست مہارت حاصل ہے مگر اس کی کامیابی کا اصل راز سچ بتانے والوں کا غیر موثر ہونا ہوا کرتا تھا ۔ ماضی میں بی جے پی کی آئی ٹی سیل یا سنگھ کے حامیوں کی جانب سے جو افواہ اڑائی جاتی اسے سارے لوگ سچ مان لیتے تھے کیونکہ کوئی تردید کرنے والا نہیں ہوتا تھا ۔
وقت کے ساتھ حالات بدلے تو ایک طرف زبیر احمد جیسے لوگوں نے زعفرانی جھوٹ کی دھجیاں اڑانے کا کام شروع کردیا ۔دوسری جانب دھرو راٹھی اور رویش کمار جیسے کئی یو ٹیوبر نے سنگھ کی بخیہ ادھیڑ دی۔ فی الحال کانگریس کا آئی ٹی سیل بی جے پی سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اس پریشانی کا اظہار سر سنگھ چالک موہن بھاگوت اپنی اس مشہور تقریر میں کرچکے ہیں جس کے اندر بلا واسطہ مودی کو گھمنڈی کہا گیا تھا ۔ رانچی کے اجلاس میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والےسچ کو غلط پروپیگنڈا قرار دےکر اس بیانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائےگی ۔ ذرائع ابلاغ میں سچ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی گراں قدر خدمات کا سنگھ کی جانب سے یہ اعتراف ہے۔
رانچی میں منعقد ہونے والی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی نشست میں جب جائزے کا باب کھلا تو سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت، جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے، قومی مجلسِ عاملہ کے ارکان اور تمام ریاستی پرچارکوں کی گفتگو کا مرکزی موضوع اترپردیش کی کراری ہار رہا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق سنگھ کے سینئر عہدیدار بدلے ہوئے سیاسی تناظر میں یوپی کے اندر سنگھ کا کردار طے کر کے حکمت عملی وضع کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس نشست کے بعد سنگھ نے یوپی میں اپنی تنظیم میں بھی کچھ اہم تبدیلیاں کی ہوں گی جن پر اعلان کیے بغیر خاموشی سے عمل در آمد ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں سنگھ کی عدم فعالیت کا معاملہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہا ہے اس لیے اب سنگھ اور حکومت کے درمیان تال میل بڑھانے کے طریقوں پرغور و خوض ہو ا ہوگا تاکہ اس کی روشنی میں یوپی پر خصوصی توجہ دے کر سنگھ کی آئندہ دو سال کی سرگرمیوں کا روڈ میپ تیار کیا جا سکے۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ سنگھ پریوار اپنی بگڑی ہوئی اولاد بی جے پی کی حالتِ زار سے پریشان ہے مگر بی جے پی کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ آر ایس ایس کی حمایت کو یہ کہہ کر کھلے عام ٹھکرا دیتا ہے کہ خودکفیل بی جے پی کو سنگھ کی سرپرستی درکار نہیں ہے۔
قومی انتخابات میں شکست کے بعد اترپردیش بی جے پی یونٹ نےبھی 14جولائی کو ہی لکھنو میں پہلی میٹنگ کے اندر اپنی شکست کا جائزہ لیا۔ اس میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ اعتراف تو کیا کہ "بیجا خود اعتمادی ” نے اس سال کے انتخابات میں بی جے پی کو نقصان پہنچایا مگر پھر اس کی اوٹ پٹانگ توجیہ کرنے لگے ۔ بی جے پی اتر پردیش کی مجلسِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے، آدتیہ ناتھ نے کہا کہ بی جے پی پچھلے انتخابات میں اپنا ووٹ شیئر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی، لیکن وہاں "ووٹوں کی منتقلی” ہوئی اور اب اپوزیشن "ایک بار پھر شکست کھا رہی ہے”۔ اسی طرح کی خوش فہمی یوگی جیسے مغرور سیاستدانوں سمیت بی جے پی ارکان کو بیجا خود اعتمادی کے نشے میں غرق رکھتی ہے۔ ان لوگوں پر ایک دن پہلے 7 ریاستوں کے اندر ۱۱؍ اسمبلی سیٹوں میں سے ۹ پر نا کامی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اس لیے یہ لوگ مونگیری لال کے حسین سپنوں میں کھوئے رہتے ہیں۔
وزیر اعلی کا یہ مضحکہ خیز بیان دیکھیں کہ، "پی ایم مودی کی قیادت میں، ہم نے یوپی میں اپوزیشن پر مسلسل دباؤ برقرار رکھا تھا، 2014، 2017، 2019 اور 2022 (قومی اور ریاستی انتخابات) میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی حالانکہ سچائی یہ ہے 2017 کے مقابلے 2022 میں بی جے پی کی 55 نشستیں کم ہوگئیں اور 2019 کے مقابلے بی جے پی 62 سے گھٹ کر 33 پر آگئی۔ اس شرمناک شکست کے بعد بھی اگر کسی کی اکڑ نہیں جائے تو اس کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں ، ’’اپوزیشن جو پہلے ہار مان چکی تھی، آج پھر سے اچھل رہی ہے ‘‘ سچائی یہ ہے حزب اختلاف نے کبھی بھی ہار نہیں مانی تھی اس لیے وہ لڑتی رہی اس کے برعکس بی جے پی والے قبل از وقت اپنی جیت مان کر اوندھے منہ اندھےکنوئیں میں جاگرے اس کے باوجود ٹانگ اونچی کی روش قائم و دائم ہے ۔اس کو کہتے ہیں رسی تو جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ وہ تو مغربی یوپی میں آر ایل ڈی کے ساتھ آنے سے عزت بچ گئی ورنہ بی جے پی کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہتی ۔
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کا فی الحال اتنا برا حال ہے کہ اپنا دل اور نشاد پارٹی جیسےحلیف بھی آنکھیں دکھا نے لگی ہیں۔ بی جے پی کے مختلف کونوں سے یوپی میں شکست کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا جا رہا ہے اور درمیان میں استعفیٰ طلب کیے جانے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگی تھیں۔ اتر پردیش کے اندر بی جے پی رکن اسمبلی رمیش مشرا نے ویڈیو کے اندر صاف کہا ہے کہ بی جے پی کی حالت بہت خراب ہے اور 2027 میں وہ اقتدار میں نہیں آسکتی ۔ انہوں نے اس درگت کو سدھارنے کی خاطر مرکزی مداخلت طلب کی ہے۔ واضح طور یہ یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار ہے لیکن اس حقیقت کو دیکھنے سے قاصر مغرورٰ وزیر اعلی شتر مرغ کی مانند اپنا منہ ریت میں چھپائے ہوئے ہے۔ رمیش مشرا کے بعد بی جے پی کے سابق کابینی وزیر موتی سنگھ کا بیان وائرل ہوگیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ اپنے 42؍ سال کی سیاسی زندگی میں انہوں نے کبھی ایسی بدعنوانی نہیں دیکھی ۔تھانوں اور تحصیلوں میں ایسی بدعنوانی نہ سوچ سکتے تھے ، نہ دیکھ سکتے تھے اور واقعی یہ تصورِ خیال سے پرے ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ نے سوچا تھا کہ نفرت کی شراب کا نشہ اس بدعنوانی کو نظروں سے اوجھل کردے گا مگر عوام نے ان کے ہوش اڑا دئیے۔
اترپردیش میں نچلی سطح پر بدعنوانی کا لاوہ آتش فشاں کے اوپری دہانے سے آیا ہے ۔ سرکاری افسران نے جب دیکھا کہ پورے صوبے میں رام نام کی لوٹ مچی ہوئی ہے تو وہ خود بھی رشوت خوری کی گنگا میں مادر پدرآزاد برہنہ ہوکر ڈبکی لگانے لگے۔ انڈین ایکسپریس نے ایک تفتیشی جائزے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے دوران بڑے پیمانے پر بااثر لوگوں نے آس پاس کے علاقوں میں نجی غیر منقولہ جائیدادیں بنائیں۔ ان باہری لوگوں نے چونکہ سستے سرکل ریٹ پر مہنگی زمین خریدی اس لیے یہ گھوٹالاہے۔ بابری مسجد کے متعلق ناعاقبت اندیش فیصلے کے فوراً بعدسے مارچ 2024 تک ایودھیا اور اس کے ارد گرد اراضی کی رجسٹری کی چھان بین سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 25 گاؤں میں زمین کے لین دین کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔
ایودھیا کے ان زمینی سودوں میں بڑے گھرانوں نیز مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور سرکاری عہدیدار اور بڑے صنعت کارملوث ہیں ۔ مودی کے چہیتے اڈانی گروپ نے 3.55 کروڑ روپے کی "زرعی” زمین خریدی۔ممبئی میں بی جے پی کے سابق صدر منگل پربھات کےبیٹے نے تقریباً 105 کروڑ روپے کی زمین خریدی۔ منگل پرساد کے والد بھی بی جے پی رکن پارلیمان تھے۔ اروناچل پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ چونا مین کے بیٹے چو کان سینگ مین کے علاوہ بی جے پی کے سابق ایم پی برج بھوشن سنگھ کے بیٹے ایم پی کرن بھوشن 1.15 کروڑ روپے میں خریدی تھی۔ اس کا ایک حصہ انہوں نے 60.96 لاکھ روپے میں فروخت بھی کردیا۔سرمایہ داروں کے علاوہ پولیس افسروں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے سستے داموں زمین پر ہاتھ مارا اور کچھ نے اسے فروخت بھی کردیا۔رام نام کے یہ لٹیرے کسی منہ سے اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو رشوت لینے سے روک سکتے ہیں؟
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کو چاہیے کہ پہلے تو بدعنوانی اور اس طرح کے بنیادی مسائل کی جانب توجہ دیں ۔ یوگی کو ماننا پڑے گا کہ ان کا 80 اور 20 والا فارمولا پوری طرح فیل ہوچکا ہے۔پولیس کی حراست میں عتیق احمد اور مختار انصاری کو قتل کرنے کی بزدلی سے لوگ نفرت کرنے لگے ہیں ۔ جن مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر وہ گھر میں بیٹھانا چا ہتے انہوں نے سائیکل پر چڑھ کر ان کے بلڈوزر کو روند دیا ہے۔ دلتوں نے بھی زعفرانی ہاتھی سے نیچے اتر کر کانگریس کا ہاتھ تھام لیا ہے ۔ اس حقیقت کو یوگی جی جتنی جلدی تسلیم کرلیں اس میں ان کی بھلائی ہے۔ آر ایس ایس دلتوں کے اندر پائے جانے والے اندیشوں کی جانب توجہ دلا چکا ہے مگر یوگی کی عقل ٹھکانے نہیں آرہی ہے ۔