کیا یوگی آدتیہ ناتھ کی کرسی خطرے میں ہے؟
ازقلم: عبدالعزیز
2017ء سے پہلے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یوگی آدتیہ ناتھ ہندستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ وہ اپنے علاقہ گورکھ پور سے کئی بار لوک سبھا کے الیکشن میں کامیاب ہوئے۔وہ نہ کبھی مرکزی حکومت کے وزراء میں شامل تھے اور نہ ہی ریاستی حکومت میں کبھی وزیر تھے۔ 2017ء میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کو اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن میں جیت ہوئی تو وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں کیشب پرساد موریہ سب سے آگے تھے۔ کیشب پرساد اس وقت بی جے پی کے صدر تھے ، الیکشن میں بی جے پی کو کامیاب کرنے میں ان کا بہت نمایاں حصہ تھا۔ وہ خود بھی سمجھتے تھے کہ ان کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپ دیا جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں ۔ نریندر مودی اور امیت شاہ منوج سنہا کو جو اِس وقت جموں و کشمیر کے گورنر ہیں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن آر ایس ایس منوج سنہا کے بجائے یوگی آدتیہ ناتھ کے نام کی وزیر اعلیٰ کے لئے تجویز پیش کی۔ بادلِ ناخواستہ گجرات لابی کو آر ایس ایس کی تجویز قبول کرنی پڑی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے وزارتِ اعلیٰ کے لئے اپنی دعویداری بھی پیش کی تھی، ساتھ ساتھ یہ بات بھی اس وقت کہی جارہی تھی کہ انھوں نے بی جے پی ہائی کمان کو یہ باور کرایا تھا کہ اگر ان کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ نہیں سونپا گیا تو وہ بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔بالآخر وزیر اعلیٰ ان کو بنا دیا گیا۔ دو نائب وزرائے اعلیٰ بھی اتر پردیش کی حکومت میں بنائے گئے جس میں ایک نائب وزیر اعلیٰ کیشب پرساد موریہ کو بھی بنایا گیا۔ کیشب پرساد موریہ کو جب وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا تو وہ اکثر و بیشتر اپنی ناخوشی کا اظہار کرتے رہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو موریہ نے کبھی پسند نہیں کیا۔ دونوں کے درمیان اس وقت سے لے کر آج تک کشمکش جاری ہے۔
2022ء کے اسمبلی الیکشن سے پہلے مودی اور امیت شاہ یوگی آدتیہ ناتھ کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا من بنا چکے تھے۔ اس کے لئے انھوں نے اپنے ایک خاص آدمی مسٹر شرما کو جو پی ایم او میں تھے ان کو یوپی بھیجا تھاتاکہ کچھ دنوں تک وہ یوپی کی سیاست میں حصہ لیں۔ پہلے ان کو نائب وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کیا جائے۔ ایک سال تک یوگی آدتیہ ناتھ شرما کو کوئی عہدہ دینے کے لئے رضامند نہیں ہوئے۔ بڑی مشکل سے اپنی حکومت میں وزیر بنانے پر رضامند ہوئے۔ مودی اور امیت شاہ بہت زیادہ زور لگاتے رہے اور کوشش بھی کرتے رہے کہ کسی طرح وہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ان کی کرسی سے الگ کرسکیں۔ آر ایس ایس یوگی کے ساتھ کھڑا ہوگیا جس کی وجہ سے گجرات لابی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مودی اور امیت شاہ کی ناکامی کا حال تو یہ ہوا کہ اتر پردیش کی اسمبلی کا الیکشن یوگی آدتیہ ناتھ کو وزارت اعلیٰ کا چہرہ بناکر لڑنا پڑا۔ 2022ء میں یوگی کی سربراہی میں بی جے پی کو الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت اتر پردیش میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگئی۔ اس کے بعد یوگی کو ہٹانے کی کوئی مہم دہلی سے یا لکھنؤ سے شروع نہیں ہوئی لیکن دہلی اور لکھنؤ میں سرد جنگ ختم نہیں ہوئی۔ کیشب پرساد موریہ کو دہلی کی پشت پناہی بھی حاصل رہی۔ اکثر و بیشتر کیشب پرساد موریہ کوئی نہ کوئی بیان ایسا دیتے تھے جو یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف ہوتا تھا۔ یوگی آدتیہ ناتھ بھی موریہ کو انتہائی ناپسند کرتے تھے پھر بھی ان کو نائب وزیر اعلیٰ سے ہٹانے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح کا سلسلہ چلتا رہا۔ دونوں میں سرد جنگ جاری رہی۔ دہلی کی بھی موریہ کو شہ ملتی رہی۔
2024ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں اتر پردیش میں بی جے پی کو امید تھی کہ 60، 70 سے زیادہ سیٹوں پر اس کی جیت ہوجائے گی لیکن وہ 33 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ 4جون کے بعد اتر پردیش کی بی جے پی میں باہمی لڑائی زوروں پر شروع ہوئی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف جو لوگ تھے اور جن کی سربراہی نائب وزیر اعلیٰ اتر پردیش موریہ کر رہے تھے ان کا حوصلہ بہت بلند ہوگیا اور یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے مہم چلنے لگی۔ ہائی کمان سے آرڈر پر آرڈر جاری ہوتا رہا کہ بی جے پی کو اتر پردیش میں لوک سبھا الیکشن میں جو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کے اسباب کیا ہیں اور اس کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ ایک ایک کرکے وجہ کی تلاش ہونے لگی۔ اس معاملے میں بی جے پی دو کیمپوں میں بٹ گئی۔ موریہ کا کیمپ یوگی آدتیہ ناتھ کو مورد الزام ٹھہرانے لگا کہ ہار کا سبب یہ ہے یوگی آدیہ ناتھ اور ان کے حمایتی الیکشن میں جس طرح حصہ لینا چاہئے تھا نہیں لے سکے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے چاہنے والوں نے موریہ کیمپ کی وجہ کو رد کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر کو اتر پردیش میں بی جے پی کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔ یوگی کے کیمپ کا کہنا ہے کہ امیدواروں کی فہرست مودی اور امیت شاہ نے تیار کی، یوگی کی ایک بات بھی امیدواروں کے انتخاب کے لئے مانی نہیں گئی۔ مودی چاہتے تھے کہ بہت سے سیٹنگ ایم پی جن کی کارکردگی ان کے حلقۂ انتخاب میں اچھی نہیں ہے ووٹرس ان کو ناپسند کرتے ہیں انھیں امیدوار نہ بنایا جائے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی تجویز ہائی کمان نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ سارا الیکشن مودی کی گارنٹی پر لڑا گیا پھر کیسے یوگی آدتیہ ناتھ کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟
چند دنوں پہلے بی جے پی کی ہار کا جائزہ لینے کے لئے لکھنؤ میں میٹنگ منعقد ہوئی جس میں یوگی آدتیہ ناتھ، کیشب پرساد موریہ، بی جے پی کے صدر جے پی نڈا موجود تھے۔ اس میٹنگ میں بی جے پی کے کارکنان اور ارکان کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تقریر کرتے ہوئے اس میٹنگ میں کہاکہ ’’ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور خوش فہمی کی وجہ سے اتر پردیش میں لوک سبھا کے الیکشن میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘‘۔ یہ صاف صاف اشارہ تھا نریندر مودی کی طرف، کیونکہ 400 پار کا نعرہ مودی کے دماغ کی اُپج تھی ۔ اس میٹنگ میں نائب وزیر اعلیٰ اتر پردیش کیشب پرساد موریہ نے کہاکہ ’’حکومت سے بڑی تنظیم ہوتی ہے۔ پہلے بھی بڑی تھی، آج بھی بڑی ہے اور بڑی رہے گی‘‘۔ بی جے پی کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ’’آپ کا درد ہمارا درد ہے‘‘۔ اس پر زیادہ تالیاں بجیں۔ تالیاں بجنے کی وجہ یہ تھی کہ یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ بیورو کریسی کے ذریعے حکومت کا کاروبار چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری محکمے کے چھوٹے بڑے افسران بی جے پی کے ایم ایل اے، ایم پی اور چھوٹے بڑے کارکنان کی بات نہیں سنتے۔ ان کا جائز اور ناجائز کوئی کام سرکاری محکمے میں نہیں ہوتا۔ یوگی کے خلاف وزراء تک یہ شکایت پیش کرتے رہتے ہیں۔ وزیروں کی بات بھی سنی نہیں جاتی۔ ظاہرہ ہے کہ جب وزیروں کی ان سنی کردی جاتی ہے تو دیگر لوگوں کی بات سننے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یوگی آدتیہ ناتھ ’بلڈوزر بابا‘ کہلاتے ہیں ۔ نریندر مودی سے بھی زیادہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف صرف زہر اگلتے یا نفرت کرتے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی ہر قسم کی پریشانیوں میں ہر وقت اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر مسلمانوں کی تجارت اور معاشی سرگرمیوں میں بہت زیادہ دخل اندازی کرتے ہیں۔ اپنے ہندوتو کے کے چہرے کو مستحکم کرنے کے لئے مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی پر ہر وقت اُتارو رہتے ہیں۔ مودی کی طرف سے اور آر ایس ایس کی طرف اس معاملے میں انھیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اتر پردیش میں یا اس کے باہر فرقہ پرستوں میں اس کی وجہ سے یوگی آدتیہ ناتھ کی مقبولیت ہے۔ الیکشن کے موقع پر دوسری ریاستوں میں مودی کے بعد سب سے زیادہ یوگی آدتیہ ناتھ کی مانگ ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں مودی کے بعد بی جے پی میں یوگی ہی کا نام آتا ہے۔ امیت شاہ اپنے آپ کو مودی کا جانشیں سمجھتے ہیں اور جو بھی ان کی راہ کا کانٹا بنتا ہے اس کو ہٹانے کی وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان جیسی ریاستوں میں جن کا رعب اور دبدبہ تھا امیت شاہ نے سب کو کنارے لگادیا۔ گجرات اور اترا کھنڈ میں تو جو چاہا مودی اور امیت شاہ نے ردو بدل کیا۔ کہیں سے بھی چوں چرا کی آواز بلند نہیں ہوئی۔
10مئی کو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کو انتخابی مہم میں شرکت کے لئے سپریم کورٹ سے عارضی ضمانت منظور ہوئی گئی۔ 11مئی کو اروند کجریوال نے عام آدمی پارٹی کے کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے سلسلے میں دو اہم باتیں بیان کی تھیں۔ کجریوال نے کہا تھاکہ ’’نریندر مودی اکتوبر میں 75سال کے ہوجائیں گے جس کی وجہ سے ان کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا کیونکہ انھوں نے خود بی جے پی میں اصول بنایا ہے کہ جو بھی پچھتّر سال کا ہوگا وہ بی جے پی کی عملی سرگرمیوں سے ہٹا دیا جائے گا اور درشن منڈل میں شامل کردیا جائے گا۔ مودی جی اپنے بنائے ہوئے اصول کے مطابق اگر الیکشن جیتنے کے بعد وزیر اعظم ہوتے ہیں تو اکتوبر تک ہی وہ اپنے عہدہ پر متمکن رہیں گے، اس کے بعد وہ امیت شاہ کو وزیر اعظم بنائیں گے۔ مودی جی اپنے لئے ہی نہیں امیت شاہ کے لئے ووٹ مانگ رہے ہیں‘‘۔ دوسری بات انھوں نے یہ کہی تھی کہ ’’اگر بی جے پی الیکشن میں کامیاب ہوتی ہے تو دو مہینے کے اندر اندر یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا‘‘۔ امیت شاہ نے اس بیان کے فوراً بعد کہا تھا کہ ’’آئندہ نریندر مودی ہی وزیر اعظم ہوں گے‘‘۔ نریندر مودی کے لئے امیت شاہ نے بیان جاری کیا لیکن یوگی آدتیہ ناتھ کی مدافعت میں ایک آواز بھی بی جے پی کے اندر سے نہیں اٹھی۔
اس وقت جو دہلی اور لکھنؤ میں جنگ جاری ہے مودی اور امیت شاہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ان کی کرسی سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا میں سب سے زیادہ اسی موضوع پر اس وقت بحث جاری ہے ’کیا مودی اور امیت شاہ وسندھرا راجئے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان، رمن سنگھ کی طرح یوگی آدتیہ ناتھ کو کنارے لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے یا نہیں؟‘ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مودی اور امیت شاہ بی جے پی میں اتنے طاقتور ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو موقع پاتے ہی ان کو کرسی سے اتارنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ البتہ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ اترپردیش ہی میں نہیں بلکہ پورے ہندستان میں مودی کے بعد ہندوتو کے سب سے بڑے چہرے کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس بھی مودی کے بعد یوگی کو وزیر اعظم کے لئے پسند کرتا ہے۔ ایک وجہ تو ان کا ہندوتو کا چہرہ ہے اور دوسری وجہ ان کی عمر کم ہے ۔ وہ زیادہ دنوں تک بی جے پی کی سربراہی کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ آر ایس ایس یوگی آدتیہ ناتھ کی حمایت میں دیوار بن کر کھڑا ہے۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اتر پردیش کے عوام میں مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے یوگی بی جے پی کے لیڈروں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ چوتھی بڑی وجہ یہ ہے کہ کیشب پرساد موریہ یا کوئی اور بی جے پی کا لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کا متبادل نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے مودی اور امیت شاہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہٹانے میں سو بار سوچیں گے۔ یوگی کو انہی وجوہات کی بنا پر سیاسی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو مودی اور امیت شاہ ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068