Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
genocide-of-muslims-historical-context-and-causes

مسلمانوں کی نسل کشی: تاریخی منظرنامہ اور اسباب

Posted on 24-07-202425-07-2024 by Maqsood

مسلمانوں کی نسل کشی: تاریخی منظرنامہ اور اسباب
(اوّل و دوّم)
════❁﷽❁════

🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040

 

(قسط اوّل)
آج ہم دنیا میں انسانی حقوق کے بارے میں جاہلوں اور ظالموں کے دعوے ہر روز سنتے ہیں لیکن ان دعوؤں کے باوجود مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہے اور غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ ہم سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ نفسیات ”ڈیتھ ڈرائیو” (تھانٹوس) جسے اس نے اپنی کتاب ”بیونڈ دی پلیژر پرنسپل” (Beyond the Pleasure Principle) میں تفصیل سے بیان کیا ہے واقف ہونگے، جس میں انسان تباہی اور تکالیف پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہے، عالمی سطح پر آج یہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی واقعی ایک حساس اور سنجیدہ موضوع ہے جس کا مختلف ممالک اور مختلف تاریخی واقعات کی روشنی میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں کچھ اہم مثالیں اور واقعات بیان کیے جائیں گے جہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ہے یا ان پر شدید ظلم و ستم ہوا ہے۔
بوسنیا کی جنگ اور مسلمانوں کی نسل کشی (1992ء-1995ء):
بوسنیا کی جنگ یوگوسلاویہ کے خاتمے کے بعد بوسنیا و ہرزیگوینا کی آزادی کے اعلان کے بعد شروع ہوئی۔ اس جنگ میں بوسنیائی مسلمان، سرب اور کروات شامل تھے۔ جولائی 1995ء میں، سربرینیتسا میں بوسنیائی سرب فوجوں نے تقریباً 8/ ہزار بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کیا۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے اور جنگی جرائم کا نشانہ بنے۔ اس منظم قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف نے اس قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ جنگ کے بعد بین الاقوامی فوجی مداخلت کے ذریعے امن قائم کیا گیا۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی:
روہنگیا مسلمان میانمار (برما) کی ریاست راخائن میں رہتے ہیں اور انہیں میانمار کی حکومت غیر قانونی تارکین وطن مانتی ہے۔ 2017ء میں میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کیں، جسے ”نسل کشی” کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ جن میں ہزاروں روہنگیا قتل کیے گئے، عصمت دری، ان کے گھروں کو جلا دیا گیا اور تقریباً 7/ لاکھوں افراد بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار کی حکومت پر نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ روہنگیا کے حالات کو دنیا بھر میں انسانی بحران کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کی نسل کشی:
اویغور مسلمان چینی صوبہ سنکیانگ میں آباد ہیں اور یہ ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ چینی حکومت اویغوروں کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ کرتی رہی ہے۔ چینی حکومت کی طرف سے اویغور مسلمانوں پر دہشتگردی کے الزامات اور جبری تعلیمی کیمپوں کا قیام کیا گیا۔ چینی حکومت پر الزام ہے کہ وہ لاکھوں اویغور مسلمانوں کو ”ری ایجوکیشن کیمپوں ” میں قید کر رہی ہے جہاں انہیں جبری مشقت اور تشدد کا سامنا ہے۔ اس کے علاؤہ، اویغور ثقافت اور مذہب کو دبانے کے لئے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔
لاکھوں اویغور مسلمانوں کو تعلیمی کیمپوں میں بند کیا گیا، ان کی مذہبی اور ثقافتی آزادیوں پر پابندیاں لگائی گئیں، اور انہیں جبری مشقت کے لئے مجبور کیا گیا۔ متعدد ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے چین پر اویغور مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ چین نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور ان کیمپوں کو تربیتی مراکز قرار دیا ہے۔
عراق و شام میں مسلمانوں کا قتلِ عام:
پہلی جنگ عظیم کے بعد، برطانوی اور فرانسیسی استعماریت نے مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دوبارہ ترتیب دیا، جس سے مصنوعی سرحدیں اور نئی قومیں تشکیل پائیں۔ اس نے مختلف فرقوں اور نسلی گروہوں کے درمیان تناؤ کو بڑھایا۔ 1948ء میں اسرائیل کی تشکیل اور اس کے بعد کے جنگوں نے پورے خطے میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا۔
عراق: 1979ء سے 2003ء تک صدام حسین کے دور میں عراق میں شیعہ اور کرد مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے، جن میں 1988ء کا انفال آپریشن شامل ہے جس میں ہزاروں کردوں کا قتل عام کیا گیا۔
2003ء کی امریکی مداخلت: صدام حسین کے زوال کے بعد، عراق میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں عام ہو گئیں اور دونوں اطراف سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
شام: 2000ء سے شام کے صدر بشار الاسد کے دور میں شیعہ علوی اقلیت کی حکومت رہی ہے، جس نے سنی اکثریت کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ 2011ء میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو بے گھر اور ہزاروں کو ہلاک کیا۔ مختلف فرقہ وارانہ اور نسلی گروہوں کے درمیان کشیدگی نے مزید شدت اختیار کی۔ عراق اور شام میں اندازے کے مطابق تقریباً 35/ ہزار سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور نسل کشی:
فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے اسرائیلی قبضے اور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد آج تک تقریباً 75/ سال سے زائد عرصے سے ظالم و جابر غاصب صَہْیُوْنیوں کہ جانب سے مسلمانوں کی وحشیانہ اور خوفناک نسل کشی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی جن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے شامل ہیں لقم? اجل بن چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 36/ ہزار 586/ اور زخمیوں کی تعداد 83/ ہزار 74/ تک پہنچ گئی ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی نے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ عالیشان مساجد و عمارتیں، تاریخی مقامات، شفا خانے اور تعلیمی ادارے ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے اور انہیں پناہ گزین کیمپوں میں رہنا پڑا۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل پر فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کا الزام لگایا ہے۔ مسئلہ فلسطین عالمی سیاست میں ایک اہم موضوع ہے۔
اسپین میں مسلمانوں پر ظلم و ستم (Reconquista):
8/ ویں صدی سے 15/ ویں صدی تک مسیحی حکمرانوں کی طرف سے اسپین سے مسلمانوں کو نکالنے کی مہم کے نتیجے میں مسلمانوں کو جبر، قتل اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا پڑا۔ اسپین میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی تاریخی جڑیں قرون وسطیٰ میں واپس جاتی ہیں، خاص طور پر 15/ ویں صدی میں جب سقوط غرناطہ (1492ء) کے بعد مسلم حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد مسلمانوں کو جبراً عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں ”موریسکوس” کہا جانے لگا۔
جب آخری مسلم ریاست غرناطہ کو فتح کر لیا گیا تو مسلمانوں کو عیسائی حکمرانی کے تحت رہنے پر مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کو جبراً عیسائیت قبول کروائی گئی۔ جو مسلمان اپنے ایمان پر قائم رہے، انہیں شدید سزاؤں اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں (اور یہودیوں) کو ظالمانہ طریقوں سے تفتیشی (Spanish Inquisition) عمل سے گزارا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ خفیہ طور پر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہیں یا نہیں۔ 1609ء سے 1614ء کے درمیان، لاکھوں مسلمانوں کا اسپین سے اخراج کیا گیا۔
جدید دور میں، اسپین میں مسلمانوں کے حقوق کی صورت حال مختلف ہے۔ یورپی یونین کے انسانی حقوق کے قوانین اور عالمی حقوق انسانی کے معاہدے مسلمانوں کو مذہبی آزادی فراہم کرتے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ مسائل موجود ہیں۔ اسپین سمیت دیگر یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا اور تعصب کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مسلمان اکثر سماجی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں، جیسے کہ روزگار کے مواقع میں امتیازی سلوک اور تعلیمی اداروں میں مسائل۔ کچھ معاملات میں مساجد کی تعمیر اور حجاب پہننے جیسے مذہبی آزادی کے مسائل بھی اٹھتے ہیں۔
چیچنیا کی جنگیں (1990ء اور 2000ء):
روس اور چچنیا کے درمیان جنگیں دو بڑی جنگوں پر مشتمل ہیں جنہوں نے 1990ء اور 2000ء کی دہائیوں میں چچنیا کو متاثر کیا، جن میں چچن مسلمانوں کو شدید تشدد اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجے میں ہزاروں چیچن مسلمان قتل کیے گئے، اور بہت سے بے گھر ہوئے۔ ان جنگوں کا اثر نہ صرف چچنیا بلکہ روس اور عالمی سطح پر بھی محسوس کیا گیا۔
پہلی چیچن جنگ (1994ء-1996ء)
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد چچنیا نے 1991ء میں آزادی کا اعلان کیا، جو روس نے تسلیم نہیں کیا۔ روس کی حکومت نے چچنیا کو دوبارہ کنٹرول میں لانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے جنگ کا آغاز ہوا۔ 1994ء میں روسی افواج نے چچنیا پر حملہ کیا۔ گروزنی، چچنیا کا دارالحکومت، شدید لڑائی کا مرکز بن گیا۔ چچن مزاحمت نے سخت مقابلہ کیا، جس سے جنگ طول پکڑ گئی۔ 1996ء میں دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدہ ہوا، جسے خاساویورت معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چچنیا کو غیر رسمی طور پر خود مختاری ملی، مگر اس کی مکمل آزادی تسلیم نہیں کی گئی۔
دوسری چیچن جنگ (1999ء-2000ء)
1999ء میں چچنیا کے عسکریت پسندوں نے روس کے داغستان علاقے میں حملے کیے۔ ماسکو میں ہونے والے بم دھماکوں کا الزام بھی چچنیا کے عسکریت پسندوں پر لگایا گیا۔ 1999ء میں روسی افواج نے دوبارہ چچنیا پر حملہ کیا۔ گروزنی ایک بار پھر شدید لڑائی کا مرکز بنا۔ روس نے چچنیا کے بیشتر حصّوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ 2000ء تک روسی افواج نے چچنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ چچنیا میں ایک حامی روس حکومت قائم کی گئی۔ جنگ کے دوران اور بعد میں چچنیا میں شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔
دونوں جنگوں کے دوران اور بعد میں چچنیا میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہوئیں، جن میں عام شہریوں کی ہلاکتیں، اغوا، اور تشدد شامل ہیں۔ جنگوں نے چچنیا کی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا۔ لوگوں کو بڑے پیمانے پر بے گھر ہونا پڑا اور پناہ گزینوں کی صورت میں دیگر علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔
چچنیا میں اب نسبتی امن ہے اور وہاں کی حکومت روس کی حمایت یافتہ ہے۔ موجودہ رہنما رمضان قادروف نے چچنیا میں سخت کنٹرول قائم کر رکھا ہے، مگر ان کی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگتے ہیں۔ یہ جنگیں چچنیا اور روس کے تعلقات کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں اور ان کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
سنٹرل افریکن ریپبلک (2013-2014): سنٹرل افریکن ریپبلک میں مسلمان اور عیسائی ملیشیاؤں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد ہوا۔ اینٹی بالاکا ملیشیا نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد اور قتل عام کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان بے گھر ہو گئے۔
نائجیریا میں بوکو حرام کے حملے:
نائجیریا میں بوکو حرام کے دہشتگرد گروہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ بوکو حرام نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں پر بھی حملے کیے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔
یمن کی جنگ: یمن میں جاری خانہ جنگی کے دوران مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے خلاف تشدد اور قتل عام ہوا ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
(جاری)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb