ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی:
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
"کیا عقابوں کا نشیمن زاغوں کے تصرف سے آزاد ہو سکے گا۔۔۔۔؟” طلبہ تنظیم کے مرکزی دفتر کی زبوں حالی پر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرنے والے شاہد بھائی کی روح قفص عنصری سے پرواز کرکے اپنے ربّ حقیقی سے جا ملی۔ ہم نے اور خاص طور سے تحریک اسلامی نے اپنا ایک مخلص و مشفق رفیق کھو دیا ہے، اسی بنا پر تحریک اسلامی کے حلقہ میں ایک بڑا خلا واقع ہوا ہے جس کا پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا، ایک بڑا طبقہ آپ کے فیض سے محرومی کا سوگ منا رہا ہے، آپ کا یوں چلے جانا بہت کِھل رہا ہے اور بہت افسوس ہے کہ ہم نے آپ کی کما حقہ قدر نہیں کی۔
خراجِ عقیدت (Tribute) کا مطلب کسی شخص کی تعریف، خدمات، کارناموں یا شخصیت کے اعتراف اور احترام کے جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ خراجِ عقیدت کا مقصد اُس شخصیت کی عظمت کو تسلیم کرنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ہوتا ہے۔ محسن رفیق اور ملک کے معروف طبیبِ حاذق ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی جیسی عظیم شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرنا، ان کی عظیم خدمات اور شخصیت کے اعتراف میں لب کُشائی کرنا واقعی ایک اہم اور احترام کا تقاضا کرنے والا دشوار گزار مرحلہ ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور جدوجہد کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کرنا واقعی ایک مشکل اور دِل گُداز کام ہے۔
شاہد بدر فلاحی کی رخصتی واقعی ایک عظیم سانحہ ہے۔ ان کی اولالعزمی، خلوص، اور ایمانی جرأت نے ہم جیسوں کے ساتھ بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ ان سے جڑے لمحات، قلب و ذہن میں موجود یادیں اور واقعات واقعی دل کو چھو لینے والے اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے ہیں۔ ان کا قافلہ سخت جاں کا راہرو ہونا، ان کی علمی و عملی زندگی، مشکلات کا سامنا اور ان کی استقامت واقعی قابلِ تحسین ہے۔ ان کی شخصیت میں جوش، ولولہ، اور مقصد کی لگن نمایاں تھی، اور یہی خصوصیات انہیں ایک مثالی رہنما بناتی تھیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان جغرافیائی اور تعلیمی فاصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے حوصلے اور شوق کی خصوصیات انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی تھیں۔ ان کی بلند پروازی اور مستقل مزاجی نے انہیں ہمیشہ ترقی و ارتقاء کی راہوں پر گامزن رکھا، ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
ان کے ساتھ فکری اور جذباتی مناسبت ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی رہی اور ان کے ساتھ گزاری ہوئی تمام ملاقاتیں یادگار بن گئیں۔ ان کے ساتھ یہ اُنْسِیَّت اور قربت ہمیشہ دل میں رہے گی، اور ان کی شخصیت کا اثر ہمارے خیالات اور جذبات پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ ان کی موجودگی، ان کی باتیں، اور ان کا خلوص ایک ایسی یادگار چھوڑ گئے ہیں جو کبھی مٹ نہیں سکتی۔ ان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ہمیشہ ہمیں مسکراتے اور ان کی محبت میں ڈوبے رہنے پر مجبور کریں گے۔
شاہد بھائی کی شخصیت اور ان کی کارکردگیوں کی تفصیلات بہت متاثر کن ہے۔ یقیناً، ان کی شخصیت اور کارکردگی ان کی عظمت کی ایک خوبصورت تصویر پیش کرتی ہے۔ ان کی رہبری اور قیادت نے ان کی کامیابیوں کو واضح کیا ہے اور ان کی قدر و منزلت کو بڑھایا ہے۔ ان کی کامیابیوں کی تفصیلات اور ان کے کردار کی گہرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک نمایاں اور قابلِ احترام شخصیت ہیں۔
شاہد بدر فلاحی کی طلبہ تحریک میں سرگرمیاں اور ان کی قیادت کی داستان نہایت متاثر کن ہے۔ ان کی جدوجہد اور استقامت نے انہیں تاریخ کا حصّہ بنا دیا۔ طلبہ تحریک کے کل ہند صدر کے طور پر انہوں نے نہ صرف طلبہ کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی بلکہ حکومتی پابندیوں اور ظلم و ستم کا سامنا بھی کیا۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات اور ایذا رسانیوں کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے عدالتی مقدمات کا بھرپور مقابلہ کیا اور پابندی کو چیلنج کیا یہ ان کی عظیم قربانیوں کی مثال ہے۔
حکومت کی جانب سے طلبہ تحریک پر پابندی عائد کرنے کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک موقع پر ٹربیونل نے طلبہ تحریک کے حق میں فیصلہ دیا، مگر حکومت نے فوراً سپریم کورٹ سے اسٹے حاصل کرلیا۔ یہ پابندی مسلسل جاری رہی، اور بعد میں اس کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ اس مرحلے پر ان کی قربانیوں اور جدوجہد نے ان کی عظمت کو نمایاں کیا۔
شاہد بھائی کی تصنیف و تالیف کے شوق نے انہیں مختلف موضوعات پر قلم اٹھانے کی تحریک دی۔ سب سے پہلے آپ کی مرتب کی ہوئی کتاب کا مطالعہ کیا وہ تھی "شرک بنام بابری مسجد”۔ اس کے بعد جب انہوں نے ایک عرصہ زنداں میں گزارا، تو ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اپنے اندرونِ زنداں کے تجربات کو لکھ کر محفوظ کریں۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے "فکّوا العانی” (قیدیوں کو چھڑاؤ) کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب میں انہوں نے قیدیوں کے حالات اور اپنے تجربات کو بیان کیا۔
اس کے بعد ان کا قلم مظلومین کے احوال لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ انہوں نے مختلف مظلومین کی کہانیوں کو ضبطِ تحریر میں لانے کا کام شروع کیا، شام کی مظلوم بیٹی ھبہ الدباغ پر لکھی گئی ان کی کتاب "کوہ استقامت ھبۃ الدباغ” ہے، جس میں انہوں نے ھبہ الدباغ کے مصائب اور استقامت کو بیان کیا ہے۔ پاکستان کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی پر انہوں نے "سرگزشتِ عافیہ” کے نام سے کتاب لکھی، جس میں عافیہ صدیقی کی زندگی اور مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کا مقصد ان مظلومین کی کہانیوں کو دنیا کے سامنے لانا اور ان کے حالات و واقعات کو عوام تک پہنچانا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے سیرتِ نبویﷺ کے ایک کم معروف پہلو "شعب ابی طالب” پر کام شروع کیا اور اس موضوع پر ایک اوسط حجم کی کتاب تیار کی، جس میں اس دور کی مشکلات اور مصائب کا ذکر ہے جب مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تھا۔ "وا معتصماہ!” لکھ کر انہوں نے امت اسلامی کے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔
انہوں نے "نیشنلزم اور خلافت” کے موضوع پر بھی ایک کتاب لکھی، جس میں ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ اور ان پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ طبی نوعیت کے مسئلے و مسائل اور علاج پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے، انہیں اگر مرتب کیا گیا تو ایک فن طب پر ایک کتاب شائع ہو جائے گی۔ اس کے علاؤہ، انہوں نے تحفۂ صیام، تحفۂ عید الاضحیٰ، اور یوم الفرقان جیسے موضوعات پر بھی کتابچے لکھے ہیں، جو ان کے علمی کام کا حصّہ ہیں۔ ان کی تصانیف نے مظلومین کے احوال کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ ان کا قلم ہمیشہ ان مسائل کو اجاگر کرنے میں مصروف رہا جن پر بات کرنا مشکل تھا، اور انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔
برادر شاہد بدر کی محبت اور خلوص کے ساتھ ان کی عقل مندی اور جوش و جذبے نے انہیں ہمیشہ ممتاز رکھا۔ ان کی باتوں میں ایک گہرائی ہوتی تھی، ان کی تحریریں دل کو چھو لیتی تھیں، اور ان کی مجلس میں ایک خاص طرح کا لطف ہوتا تھا۔ ان کی دوستی، ہم دردی، اور قربت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے، اور ان کی یادیں ہمیں ان کے ساتھ گزارے ہوئے بہترین لمحوں کی یاد دلاتی رہیں گی۔
برادر شاہد بدر کی یادیں اور ان کی شخصیت کا اثر ہمارے دلوں پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ ان کے ساتھ رفاقت کی مسکراتی و آنکھوں کو نم کر دینے والی حسین یادیں، ساتھ ہی چند تیکھی مگر اصلاحی یادیں دل میں بس گئی ہیں، جن کا اس مختصر تعزیتی نشست میں مکمل تذکرہ ممکن نہیں ہے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات، ان کی فکر و نظر اور ان کے جذبات ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کی محبت، خلوص، اور عظیم حوصلے ہمیشہ ہمیں یاد رہیں گے اور ان کی زندگی کی مثال ہمارے لئے ایک مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔
برادر شاہد کی زندگی کی داستان ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ ان کی جدوجہد، عزم و استقلال اور محنت نے انہیں ایک ایسی مقام پر پہنچا دیا جہاں ان کی شخصیت ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے اصول و اقدار اور مشکلات کا سامنا کرنے کا انداز ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی میں کامیابی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کی داستان ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ کوئی بھی راستہ آسان نہیں ہوتا، مگر مستقل محنت اور حوصلے کے ساتھ ہر مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کی طب یونانی میں مہارت اور ان کی پیشہ ورانہ دیانتداری واقعی متاثر کن ہے۔ ان کا خالص مرکبات پر اصرار اور نسخوں میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرنا ان کی پیشہ ورانہ دیانتداری کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بہتر اور خالص دوائیں تیار کرنے لگے، جو ان کے مریضوں کے علاج میں زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔ ان کی محنت نے انہیں ہندوستان کے نامور حکماء میں شامل کر دیا ہے۔
شاہد بھائی نے نہ صرف بہترین دوائیں تیار کیں بلکہ ایلوپیتھک علاج سے مایوس مریضوں کے لیے امید کی کرن بھی بنے۔ ان کی جانب سے صبح 6:30 سے 8:30 بجے تک مفت طبی مشوروں کا سلسلہ ایک عظیم خدمت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد کے توازن کے ساتھ گزارتے تھے۔ ان کا یہ عمل دوسروں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے اور ان کی انسان دوستی اور خدمتِ خلق کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کی بے باکی، دین کی سچی خدمت، اور سخت حالات میں بھی حوصلہ برقرار رکھنے کی صلاحیت واقعی قابلِ ستائش ہے۔ ان کی شخصیت ہمیں سکھاتی ہے کہ حق کے علمبردار بننے کے لئے بے خوف ہونا ضروری ہے۔ وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے اور اپنی زندگی کو امت کی بھلائی کے لئے وقف کر دیا۔
ان کی جدوجہد اور قربانیوں کا اثر ان کے کلام اور عمل میں بخوبی نظر آتا ہے۔ ان کی باتیں اور کام امت کے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے علم و عمل سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ ان کی شخصیت خود ایک مثال تھی جس سے لوگ سیکھتے اور متاثر ہوتے تھے۔ ان کی حیات سے یہ سبق ملتا ہے کہ مشکلات اور سخت حالات کے باوجود، ایمان اور عزم کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی جائے تو اللّٰہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور انسان بڑی کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔
(آہ شاہد بدر)
روشنی کا خوشنما مینار رخصت ہوگیا
راہ حق کا رہ رو خوددار رخصت ہوگیا
بے غرض اک صاحب کردار رخصت ہوگیا
اک قلندر اک سپہ سالار رخصت ہوگیا
خطۂ شبلی کا وہ اک لائق و فائق سپوت
جہل و ظلمت جس کے آگے ایک تار عنکبوت
کہہ رہا ہے سارے منچوبھا کا افسردہ سکوت
سوئے مرقد جارہا ہے روحِ ملت کا ثبوت
موت کی اس راہ سے گزرے ہیں لاکھوں تاجور
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہگزر
موت ہے لیکن محبت کے سفیروں پر حرام
چشم نابینا سے مخفی ہے ترا اصلی مقام
جراءت اظہار کو پھر استقامت کو سلام
صاحب ” البدر” تیری عزم و ہمت کو سلام
(سرفراز بزمی)
اللّٰہ تعالیٰ ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کی کوششوں کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، اور ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی صبر و ثبات کی داستان اور دلیرانہ جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی بے باک آواز نے ہمیں حق کی بات کہنے کی ہمت دی اور باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی مثال قائم کی۔
اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی قربت کا احساس ہمارے دلوں کو گرماتا رہے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دل میں زندہ رہیں گی اور ان کی قربانیوں کا اثر امت پر جاری رہے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم تمام رفقائے قافلۂ سخت جاں کو صبر اور حوصلہ عطاء فرمائے، اور ہمیں ان کی طرح حق کے راستے پر ثابت قدم رکھے۔ آمین
الٰہی بخش دے تو بدر کو وہ بدر کامل تھا
(22.07.2024)
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
🏠 ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا،
تھانہ- 400612، مہاراشٹر، الہند۔
📧masood.media4040@gmail.com