ازقلم:شیخ سلیم
(سابق صدر مہاراشٹرا ،ویلفیئر پارٹی آف انڈیا)
حکومت مہاراشٹر نے لاڈ لی بہنا اسکیم متعارف کروائی ہے تاکہ خواتین کو درپیش سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل کیا جا سکے۔ اس اسکیم کا مقصد خواتین کو مالی امداد فراہم کرنا، تعلیم کو فروغ دینا اور ان کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ اگرچہ یہ اسکیم مکمل طور پر بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کے جواب میں نہیں ہے، لیکن یہ مسائل ایسی اقدامات کی ضرورت کو بڑھاتے ہیں۔مہاراشٹر میں بے روزگاری اور غربت اہم چیلنجز ہیں،
جیسے کہ بھارت کے کئی حصوں میں ہیں۔ لاڈلی بہنا اسکیم ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پسماندہ طبقات کو اوپر اٹھانا، خواتین کی ورک فورس میں شرکت کو بڑھانا، اور لڑکیوں کے لئے بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہے۔ ان شعبوں کو حل کر کے، حکومت مہاراشٹرا امید کرتی ہے کہ ایک منصفانہ معاشرہ قائم ہو اور غربت اور بے روزگاری کے طویل مدتی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اسی طرح لڑکوں کے لئے لاڈلا بھائی یوجنا متعارف کرائی ہے جس کے تحت بارہویں پاس لڑکوں کے لئے 6000 روپئے ماہانہ اور گریجویٹ افراد کے لیے 10000 روپئے ماہانہ بھتہ دیا جائےگا۔
ہر روز لاکھوں خواتین و نوجوانان اس اسکیم سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے فارم بھر رہے ہیں۔ لاکھوں افراد فارم بھر چکے ہیں سرکار کی طرف سے اسکیم ختم ہونے یا فارم بھرنے کی آخری تاریخ کے بعد ہے پتہ چلے گا مہاراشٹرا میں کتنے کروڑ افراد اس سے مستفیض ہونے والے ہیں۔
ساتھ ہی مہاراشٹر حکومت نے لاڈلی بہنا اسکیم کے لیے سالانہ تقریباً 12,000 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ یہ بڑا بجٹ حکومت کے اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اقتصادی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی مدد کرے اور انہیں مالی امداد اور دیگر اقدامات کے ذریعے ان کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
وہیں حکومت مہاراشٹرا نے لاڈلا بھائی یوجنا کے لیے سالانہ تقریباً 2,000 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ یہ فنڈنگ اقتصادی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے مرد طلباء کی مالی امداد، تعلیمی وسائل، اور مہارت کی ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
مہاراشٹرا لوک سبھا انتخابات میں ذبر دست ہار کر بعد بھاجپا اب کِسی طرح اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کرنا چاہتی ہے جس طرح بھاجپا میں ایکناتھ شند ے اور اجیت پوار کو شامل کرنے سے بھاجپا کو فائدے کی بجائے نقصان اٹھانا پڑا اب کِسی طرح اسمبلی انتخابات میں ہونے والی ممکنہ شکست سے بچنے کیلئے مختلف ذرائع اختیار کیے جارہے ہیں۔
پچھلے دس سالوں کی مودی سرکار کی وجہ سے نوٹ بندی سے اور جی ایس ٹی کو وجہ سے چھوٹی صنعتیں بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں جس کو Unorganised سیکٹر کہا جاتا ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق اسی فیصد سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں بری طرح متاثر ہوا ہے ساتھ ہی حکومتی اداروں میونسپل کارپوریشن اور دوسرے اداروں میں لوگوں کو ٹھیکے پر رکھا جاتا ہے پکی نوکری نہیں دی جاتی جس کے باعث بیروزگاری میں بےانتہا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور اندازہ لگایا جاتا ہے بھاجپا کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
اسی لیے اس بجٹ میں کئی صنعتوں کو اپرینٹی شپ پر لوگوں کو نوکری پر رکھنے کہا گیا ہے ۔ یعنی اب دس سال کی مودی سرکار کی حکومت نے اندازہ لگایا ہے بیروزگاری بڑھی ہے اور اس مسئلے کا فوری حل نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں مہاراشٹرا، ہریانہ اور بہار میں بھاجپا کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انتہا پسندی زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی ۔نوجوانوں کے مسائل کسانوں کے مسائل کا فوری حل تلاش کرنا پڑےگا ۔
مجموعی طور پر یہ ایک مثبت چیز ہے وہ سرکار جو کسی کی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی اب وہ سننے کے لئے تیار ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک مضبوط حزب اختلاف حکومت کے خلاف عوام کی آواز اٹھا رہا ہے دس سال سے پارلیمنٹ میں کسی قسم کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اب سنائی دے رہی ہے۔ اُمید ہے اب عوام الناس کے حق میں زیادہ سے زیادہ فیصلے عوام کے دباؤ کی وجہ سے کیے جائیں گے جمہوریت کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ جہاں تک حکومت بچانے کا سوال ہے حکومت پھر بھی نہیں بچنے والی ایسا ہمارا اندازہ ہے ۔ اللہ خیر کرے ۔