Skip to content
سنو سنو!! اسلام۔ سلامتی اور مسلمان
ازقلم:ناصرالدین مظاہری
"مجھے جب کوئی پانی میں ڈوب رہا ہوتا ہے تو ذات پات یا مذہب کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی”
یہ الفاظ ہیں ایک پولیس افسر کے جس کا نام عاشق علی ہے، جو ہری کی پیڑی ہری دوار میں تعینات ہے، ہری کی پیڑی دریائے گنگا سے کاٹ کر بنائی گئی اس جگہ کا نام ہے جہاں تیرتھ یاتری شردھالو، پجاری، کانوڑ جاکر غسل کرتے ہیں، یہاں مردوزن کا مخلوط نظام رہتا ہے، خواتین بھی نہارہی ہوتی ہیں اور مرد بھی، کچھ اوباش قسم کے لوگوں کو ویڈیو بناتے بھی دیکھا جاسکتا ہے، پل کے دوسری طرف تو اور بھی برا حال ہے۔
ہوا یہ کہ پانچ کانوڑ ڈوبنے لگے تو موقع پر تعینات عاشق علی نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دریا میں چھلانگ لگا دی اور پانی کے تیز بہاؤ کے باوجود عاشق علی نے پانچوں کو بچا لیا۔ چاروں طرف عاشق علی کی واہ واہی ہونے لگی، عاشق علی نے جو تاریخی الفاظ اس وقت بولے وہ یہ ہیں کہ
"مجھے جب کوئی پانی میں ڈوب رہا ہوتا ہے تو ذات پات یا مذہب کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی”
عاشق علی نے صحیح کہا اسلام ایسے موقع پر ذات پات اور مذہب نہیں دیکھتا بلکہ وہ ہر مصیبت زدہ کی مدد اور بروقت اس مشکل سے نکالنے کی تلقین کرتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا راجہ داہر کے دور حکومت میں ایک غیر مسلم خاتون نے اپنے اوپر ہورہی سندھ میں زیادتیوں کی شکایت ایک خط کے ذریعہ کی تھی اور خط پڑھ کر حجاج بن یوسف آگ بگولہ ہوگیا تھا اور پھر حجاج نے سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم کو سندھ فتح کرنے کے لئے بھیج دیا اور آخر کار محمدبن قاسم کو فتح نصیب ہوئی۔
الحمدللہ آج بھی مسلمان ہر ڈوبتے کو بچانے، ہر مظلوم کی مدد کرنے، ہر بھوکے کو کھانا کھلانے ہر ننگے کو کپڑا پہنانے ہر پیاسے کو پانی پلانے، ہر بہن کی عزت بچانے کا درس دیتاہے، عاشق علی جیسے بے شمار عاشق علی اب بھی دنیا میں موجود ہیں جو اسلام کی عظمت ورفعت کاباعث اور چار چاند لگانے کا کام کرتے ہیں۔
مگر دوسری طرف دیکھئے ناعاقبت اندیش حکمراں نے ایک نہایت ہی غلط حکم جاری کردیا کہ کانوڑ یاترا کے دوران سڑکوں اور گزرگاہوں کے کنارے جو بھی مسلم دکاندار ہے وہ اپنے نام کی پلیٹ لگائے تاکہ کانوڑ یوں کو پتہ رہے کہ یہ مسلمان ہے۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کرونا وائرس کے موقع پر جن مسلمانوں نے غیرمسلم کو خون کا عطیہ کیا اس ہندو کے بارے میں کیا کہو گے؟ مسلمانوں نے اپنے ہاتھوں سے جن غیر مسلموں کا کریا کرن کیا اس پر کیا بولو گے؟ گزرگاہ پر بکنے والی چیزیں کیا کسی مسلمان کا ہاتھ لگے بغیر دکان تک پہنچ سکتی ہے؟ منڈی میں آڑھت کس کی ہے، کھیت کس کا ہے، باغ کس کا ہے؟ بلکہ مندروں میں بجنے والا قدیم بھجن بھی سنا ہے محمد رفیع کا گایا ہوا ہے جو آج بھی بجایا جاتاہے، میں یوگی جی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ گورکھ دھام مندر جس کے تم پجاری ہو اس میں زمینیں کس کس کی دی ہوئی ہیں اور تم اس مسلمان کا نام بھی لکھ کر لگاؤ جس نے اپنی زمین دیدی تھی۔ میں کہتا ہوں ان تمام مندروں پر بھی ان مغل بادشاہوں کے نام کی پلیٹ لگاؤ جن کے دور حکومت میں مندر بنائے گئے، مرمت کرائی گئی، زمینیں دی گئیں۔ اگر نام لکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو تاج محل، آگرہ کا لال قلعہ، دہلی کا لال قلعہ، قطب مینار ہر تاریخی یادگار پر نام لکھوادو تاکہ دنیا دیکھے کہ مغل حکمران بھارت کو دے کے گئے ہیں لے کے کچھ نہیں گئے۔
میں عاشق علی جیسےجوانوں کی تعریف کرتاہوں لیکن موجودہ حکمرانوں کے دماغوں پر اظہار افسوس بھی کرتاہوں جو اپنے اقتدار کے لئے اپنی قوم کو بھڑکاتے، بہکاتے، امن کو برباد کرکے دنگوں اور رنگوں پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔
Like this:
Like Loading...