Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
who-was-the-slain-leader-of-hamas-ismail-haniyeh

حماس کے مقتول رہنما اسماعیل ھنیہ کون تھے؟

Posted on 31-07-2024 by Maqsood

حماس کے مقتول رہنما اسماعیل ھنیہ کون تھے؟

لندن ، 31جولائی ( آئی این ایس انڈیا )

ایران میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ غزہ سے متعلق عالمی سفارت کاری میں ایک جارحانہ موقف رکھنے والی شخصیت تھے۔کئی سفارت کاروں کے نزدیک اسماعیل ہنیہ حماس کے دیگر سخت گیر رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند تھے جنہیں حماس نے 2017 میں سیاسی ونگ کا سربراہ منتخب کیا تھا۔غزہ میں سفری پابندیوں کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ ترکیہ اور قطر میں رہتے تھے اور غزہ جنگ کے بعد سے وہ مذاکرات کے سلسلے میں مصر بھی جاتے رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز کے مطابق فلسطینی امور پر گرفت رکھنے والے قطر یونیورسٹی سے وابستہ ماہر ادیب زیادے کے مطابق اسماعیل ہنیہ حماس کے لیے عرب ملکوں کے ساتھ سیاسی جنگ کی قیادت کر رہے تھے اور وہ حماس کا سیاسی اور سفارتی چہرہ تھے۔ادیب زیادے کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے تنظیم کے اندر سخت گیر موقف رکھنے والے رہنماؤں اور عسکری ونگ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات تھے۔گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اسماعیل ہنیہ نے نومبر میں تہران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات بھی کی تھی۔

رائٹرز کے مطابق تین سینئر حکام نے اس ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی سپریم لیڈر نے حماس کے رہنما پر واضح کر دیا تھا کہ تہران جنگ میں شامل نہیں ہو گا کیوں کہ اسرائیل پر حملے سے پہلے حماس نے ایران کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ البتہ حماس اس کی تردید کرتی ہے۔اسماعیل ہنیہ منگل کو نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر اور نو منتخب صدر سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسماعیل ہنیہ تہران میں اپنی قیام گاہ پر موجود تھے جنہیں بدھ کی علی الصباح محافظ سمیت قتل کر دیا گیا ہے۔فوری طور پر اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی جب کہ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مہمان کے قتل کی تحقیقات کی جائیں گی۔اسماعیل ہنیہ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی میں سرگرم طلبہ تحریک کے رہنما تھے اور انہوں نے 1987 میں حماس کے قیام کے بعد اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔حماس میں شمولیت کے بعد اسرائیلی فورسز نے اسماعیل ہنیہ کو گرفتار بھی کیا تھا اور انہیں کچھ مدت کے لیے غزہ سے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔

ابتدا میں اسماعیل ہنیہ چاہتے تھے کہ حماس سیاسی میدان میں قدم رکھے۔ 1994 میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کی تشکیل حماس کو عالمی منظر نامے پر ابھرتی ہوئی تبدیلیوں سے نمٹنے کے قابل بنائے گا۔اسماعیل ہنیہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے بھر پور حامی تھے۔خبر رساں ادارے رائٹرز سے 1994 میں انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیخ یاسین نوجوان فلسطینیوں کے رول ماڈل ہیں جن سے ہم نے اسلام سے محبت کرنا سیکھا ہے۔

حماس کے بانی بھی اسماعیل ہنیہ کے خاندان کو پسند کرتے تھے جن کا تعلق ایشکلون کے قریب الجورا نامی گاؤں سے تھا۔اسماعیل ہنیہ نے بہت جلد ہی شیخ یاسین کا اعتماد حاصل کر لیا تھا اور انہیں 2003 میں حماس کے سربراہ کا مشیر مقرر کیا گیا۔ان کی ایک تصویر بھی موجود ہے جس میں انہیں عمر رسیدہ اور معذور شیخ یاسین کے کان پر فون لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تاکہ وہ بات کر سکیں۔

سال 2004 میں اسرائیلی حملے میں شیخ یاسین کی ہلاکت کے بعد حماس میں قیادت کے بحران نے جنم لیا۔ لیکن 2006 میں اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کے بعد ہونے والے انتخابات میں حماس نے واضح برتری حاصل کی تو اسماعیل ہنیہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

اگلے ہی سال یعنی 2007 میں حماس نے غزہ کی پٹی کا مکمل کنٹرول سنبھالا۔سال 2012 میں جب اسماعیل ہنیہ سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے اپنی مسلح جدوجہد ترک کر دی جس کے جواب میں ہنیہ نے کہا تھا کہ یقیناً نہیں، مزاحمت سیاسی، سفارتی اور عسکری شکل میں جاری رہے گی۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb