Skip to content
اسلام کو زمانے سے ’ہم آہنگ‘ کرنے کی خواہش
پروفیسر خورشید احمد
ترتیب: عبد العزیز
ہر دور کے کچھ مخصوص نعرے ہوتے ہیں، جن کا چلن آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے،حتیٰ کہ وہ ہر شخص کی زبان پر رواں ہوجاتے ہیں اور ہر کس و ناکس بلا ادنیٰ غور و فکر، انہی کے انداز میں سوچنے اور انہی کی زبان میں بولنے لگتا ہے۔
ان نعروں کا رواج عام ہونا، عقل و فہم کی موت کے مترادف ہے۔ جب یہ ذہنوں پر چھا جاتے ہیں تو آزادیٔ فکر باقی نہیں رہتی، عامی اور عالم، اِن پڑھ اور پڑھے لکھے ، سب انہی کا سہارا لینے لگتے ہیں اور سمجھ بوجھ کی صلاحتیں اس آکاس بیل کے تحت مر جھاجاتی ہیں۔
’ زمانے کے ساتھ چلو‘: ہمارے دور میں بھی کچھ خاص نعرے ہیں، جو رواجِ عام اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نعرہ ہے:’ بازمانہ بساز‘ آئے دن یہ بات زور و شور سے دہرائی جا رہی ہے کہ: زمانہ بدل چکا ہے، مذہب کو زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دیتے ہوئے نئے حالات کے مطابق بدلنا چاہئے۔ اگر مذہب دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا، تو اس کے خلاف بغاوت ہوجائے گی اور وہ زندگی سے بے دخل ہوجائے گا جمود کا نتیجہ موت ہے، ہم کو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدلنا ہوگا، ورنہ موت کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔
آج جسے دیکھو وہ کسی نہ کسی عنوان سے یہی درس دیتا نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس نعرے پر’ ایمان بالغیب‘ لانے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں پر عقل و تجربے کی روشنی میں غور کیا جائے اور محض اس لئے کسی بات کو قبول کرنے کی غلطی نہ کی جائے کہ اس کا اظہار بہ تکرار ہو رہا ہے۔
کیا ہر تبدیلی خیر ہے؟ اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ بدلتا رہا ہے، بہت کچھ بدل چکا ہے اور مزید رنگ بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود ایک مصیبت ہے، جو قوم کی تخلیقی قوتوں کو یخ بستہ کر دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ
کیا ہر تبدیلی صحت مند ہے؟ کیا ہر خیر باعثِ تغیر ہے؟ کیا تاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اٹھتا ہے؟
ان سوالات پر جب آپ تاریخ کی روشنی میں غور کریں گے، تو لازماً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔ ہر حرکت لازماً ترقی کے مترادف نہیں، ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے، تو ایک دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک گرا دیتی ہے۔ مطلب ِ نفس، محض حرکت نہیں بلکہ صحیح سمت میں حرکت ہے۔
ترقی ایک نسبتی یا اضافی (relative)اصطلاح ہے۔ ترقی اور تنزل کا فیصلہ ،منزل کے لحاظ ہی سے ہو سکتا ہے ہم صرف اسی حرکت کو ترقی کہہ سکتے ہیں جو صحیح راستے سے ہمیں اپنی منزل کی طرف لے جا رہی ہو۔ جو حرکت منزل کے بر عکس سمت میں لے جائے ، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے ک حرکت سے پہلے سمتِ حرکت اور منزل مقصود کا تعین ہونا چاہئے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کر کے آپ اپنی منزل سے اور دور بھی ہٹ سکتے ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی زندگی میں اصل معیار وہ مقصد ہوتا ہے، جو آپ حاصل کرنا چاہیں، اگر آپ کا مقصد اور آپ کی منزل اسلام ہے تو پھر ہر وہ حرکت جو اس کی مخالف سمت میں لے جائے، خواہ وہ کتنی ہی سبک خرام کیوں نہ ہو،۔ ترقی معکوس ہوگی بلکہ یہ حرکت جتنی تیز ہوگی، تنزل اتنا ہی تیز تیز رفتار ہوگا۔
اسی طرح اندھی تقلید اور کورانہ نقالی صرف ماضی ہی کی نہیں ہوتی۔ یہ حال کے مروجہ طریقوں اور ضابطوں کی بھی ہو سکتی ہے اور کسی فرد یا قوم کی خودی اور اس کے صحت مندانہ ارتقاء کے لئے جتنی مہلک ماضی کے بتوں کی اندھی پرستش ہے، اتنی ہی ملک حال کے نئے بتوں کی پوچھ بھی ہے بلکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو نقالی در اصل جمود ہی کی ایک شکل ہے اگرچہ ہے بڑی پر فریب! عقل و فکر کو دونوں ہی صورتوں میں معطل کر دیا جاتا ہے۔ جمود میں آپ ماضی کی پرستش کرتے ہیں اور لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں، تونقالی میں آپ ماضی کے بجائے کسی نئے سورج کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کی خودی کے لئے دونوں تباہ کن ہیں۔
جو لوگ زمانے کے چلن کی پیری کا بلاوا دیتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ شعوری یا یا غیر شعوری طور پر وہ در اصل دوسروں کی تقلید ہی کی دعوت دے رہے ہیں، اور جدید کی تقلید اگر کی جاے تو وہ کوئی فخر کے قابل چیز نہیں بن جاتی۔ اس کے نقصانات علیٰ حالہ قائم رہتے ہیں، جن کی بناء پر قوم کی اپنی تخلیقی صلاحتیں کبھی ابھرنے نہیں پاتیں۔ اس کی وجہ سے انسان کی روح میں جمود اور احساسِ کمتری پیوست ہوجاتا ہے انجام کار، پوری قوم زمانے کو بدلنے کے بجائے بس خود اپنے ہی آپ کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی ’شاگردی‘ کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔
پھر زمانے کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس امر کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے کہ زمانہ تو بدلنے ہی کے لئے بنا ہے۔ آج وہ ایک خاص سمت میں تبدیل ہو رہا ہے تو کل کسی دوسری سمت میں تبدیل ہوجائے گا۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے ہمیشہ اپنے ہی دور کی غالب تہذیب کو ترقی کا کمال سمجھتے رہتے ہیں۔
ہر ’عظیم‘ اور قدیم تبدیل ہوا: چشم تاریخ نے اس امر کا بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ بڑے سے بڑی طاقتور تہذیب بھی ایک دن زوال کی نذر ہوجاتی ہے:
٭ یونی تہذیب کے غلبے کے زمانے میں یونانیت زدہ لوگ اسی کو تہذیب انسانی کا حرفِ آخر سمجھتے تھے اور اس سے انحراف و اختلاف کو دیوانگی، پریشان خیال اور کفر خیال کرتے تھے، لیکن پھر ایک دن اس تہذیب کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ، اور اب اس کی حیثیت محض آثارِ قدیمہ کی سی ہے۔
٭ روم کے دور عروج میں یہی مقام رومی تہذیب کو حاصل ہوا، لیکن بالآخر اس تہذیب کے بھی پرخچے اڑ گئے اور آج اس کے آثار بالائے زمین نہیں بلکہ زیر زمین ڈھونڈے جا رہے ہیں۔
٭ ایرانی تہذیب کی قسمت بھی اس سے مختلف نہ ہوئی۔ بابلی ،مصری، آشوری، چینی، گندھارا اور ہڑپا کے ساتھ ساتھ ان 29؍ تہذیبوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گزرا، جو اپنے اپنے زمانے میں غالب اور ناقابل تسخیر یا’ ترقی یافتہ‘ سمجھی جاتی تھیں۔
اگر ماضی کی تمام غالب تہذیبیں قابل تخیر ثابت ہوئی ،اور ایک دن کامیاب وہی لوگ ہوئے جو ان کی نقالی نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی جگہ ایک دوسرا نظام پیش کرتے تھے تو مستقبل کے متعلق یہ کیوں تصورکرلیا جائے کہ جدید مغربی تہذیب کو باوجود اس کے موجودہ غلبے کے مسخر نہیں کیا جا سکتا؟
محض یہ چیز کہ آج ایک خاص تہذیب کو غلبہ حاصل ہے ، اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ : ’’یہی تہذیب مبنی بر حق بھی ہے ۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اسی کو ہمیشہ قائم رہنا ہے اور نوعِ انسانی کے لئے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لے۔‘‘
طاقت اور غلبہ حق کے معیارات کو تبدیل نہیں کر دیتے اور اقتدار کسی چیز کومحاسن کا پیکر نہیں بنا دیتا، نہ ہر رائج شدہ چیز ناقابل تغیر اور ناقابل تسخیر ہوتی ہے۔
یہ کمزوروں کی روشن دکھائی دیتی ہے کہ وہ طاقت کی پوجا کرتے ہیں اور ہر چڑھتے سورج کے آگے جھک جاتے ہیں۔
یہ کم نظروں کا طریقہ ہے کہ وہ محض اس بناء پر کسی مسلک کو اختیار کرلیتے ہیں کہ اسے اقتدار اور غلبہ حاصل ہے اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کہاں تک صحیح ہے اور کہاں تک غلط؟ حالانکہ دیکھنے کی اصل چیز غلبہ اور طاقت نہیں بلکہ کسی چیز کا حق یا باطل ہونا ہے۔ اگر زمانہ بدل رہا ہے تو اس کی مزید بھی بدلا جا سکتا ہے لیکن محض زمین وآ سمان کی گردش اورماہ و سال کی آمد و رفت کی وجہ سے زندگی کے اصول، خیر و شر کی تمیز اور حق و باطل کے معیار نہیں بدلے جا سکتے ۔
جدید ذہن کی تعمیر جن عوامل نے کی ہے، ان میں وہ فکر و فلسفہ بھی شامل ہے، جو ہر نئی چیز کو خوب پر اور قابل احترام اور لائق اختیار سمجھتا ہے۔ مغرب کے ذہن کو ہیومنزم (Humanism) کے فلسفے نے بہت متاثرکیا ہے۔ اس فلسفے کی اساس، تاریخ میں ناگزیر ترقی کا اصول(Inevitability of progress) ہے۔ اس کی رو سے:
’’ہر آنے والا دن، گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے۔ انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے، حال، ماضی سے اچھا اورمستقبل ، حال سے بہتر ہوگا۔ ہمارے قدم لازماً ترقی کی طرف اٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
اس اصول کو فریڈرک ہیگل کے فلسفۂ جدلیاتی تاریخ اور کارل مارکس کی معاشی تعبیر تاریخ نے بڑی تقویت پہنچائی۔ یہ اسی انداز فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہر چیز کو کم مایہ اور حقیر اور حال کی ہر شئے کو قابل قدر سمجھا جا رہا ہے۔ ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ تغیر زمانہ کے نام پر ہر قدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔
یہ نظریہ بدیہی، منطقی اور عقلی طور پر غلط ہے۔ ہمیں انسانی تاریخ میں ارتقاء کی کوئی سیدھی لکیرنظر نہیں آتی۔ یہ تاریخ بڑہی کج رو واقع ہوئی ہے: اس میں ترقی بھی ہے اور تنزل بھی۔ عروج بھی ہے اور زوال بھی، ارتقاء بھی ہے اور انحطاط بھی، فراز بھی ہے اورنشیب بھی۔ ہر بعد کے دور کو پچھلے دور سے بہتر سمجھنا تاریخی لحاظ سے ایک بالکل غلط مفروضہ ہے، جسے ہرگز صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
جدید تاریخ ے فلسفیوں میں سے کوئی ایک بھی ہیگل اور مارکس کی اس توجیہ کو صحیح نہیں سمجھتا اور خود تاریخی حقائق اس کی توثیق کرنے سے انکاری ہیں۔مسلسل ارتقاء کا نظریہ آج علمی حیثیت سے ایک متروک نظریہ ہے۔ لیکن اس کے بطن سے جس فاسد تصور نے جنم لیا ہے وہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے دماغ پر مسلط ہے ۔ وہ اپنی ترقی پسندی کا ڈھول پیٹنے کے لئے محض فیشن کے طور پر ہر قدیم چیز پر ناک بھوں چڑھاتے اور ہر نئی چیز کی طرف بے سوچے سمجھے لپک پڑتے ہیں۔ حالانکہ قدیم کو لازماً برا اور جدید کو لازماً اچھا سمجھنا اور تمام قدیم چیزوں کو تبدیلی کے خراد پر چڑھا دینا، ایک غلط روش ہے، جس کے لئے کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068 / 9874445664
Like this:
Like Loading...