گھر کی آبرو غیروں کے گھر !
امت مسلمہ نازک ترین صورت حال سے دوچار
ازقلم: مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160
اللہ تعالیٰ کی ان گنت مخلوقات میں سے انسان بھی ایک مخلوق ہے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں اشرف بنایا ہے اسی وجہ سے انسانوں کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے ،دنیا کے سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ،حضرت سیدنا آدمؑ وحضرت سیدہ حواءؑ تمام انسانوں کے ماں باپ ہیں اسی وجہ سے دنیا کےسارے انسان بحیثیت انسان ایک دوسرے کے ساتھ انسانی رشتہ رکھتے ہیں اور اسی انسانی رشتہ کی وجہ سے وہ فطری طور پر ایک دوسرے سے اُنس ومحبت بھی رکھتے ہیں ،ایک دوسرے سے مل کر وہ اپنائیت محسوس کرتے ہیں اور کچھ ہی لمحوں میں آپس میں گھل مل جاتے ہیں ،مذہب اسلام نے اسی انسانی رشتہ کی بنیاد پر ہر ایک کے ذمہ ایک دوسرے کے حقوق عائد کئے ہیں اور یہ صرف اور صرف اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے کا انسانی بھائی بتاکر آپس میں انسانیت و اخوت کی تعلیم دی ہے اور جو انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ نہ رکھے اسے حیونیت سے تعبیر کیا ہے ،انسانی رشتہ کے علاوہ ایک اور رشتہ ہے جو اس رشتہ سے بہت اونچا اور برتر ہے بلکہ اس رشتہ کو خونی وخاندانی رشتہ سے بھی بلند وبالا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ،اس عظیم رشتہ کو ’’رشتہ ٔ ایمانی‘‘ کہاجاتا ہے ،یہ رشتہ دخول اسلام ،قبول ایمان اور اللہ اس کے رسولؐ کی نسبت سے قائم ہوتا ہے اور ایمانی رشتہ اُسی طرح مضبوط ومستحکم ہوتا ہے جس طرح عمارت کا رشتہ اس کی بنیاد سے ہوتا ہے ، ایمانی رشتہ پر سارے رشتے قربان اور نچھاور ہوتے ہیں ، خاندانی رشتہ جد اعلیٰ سے ملاتا ہے، انسانی رشتہ آدمؑ سے ملاتا ہے مگر ایمانی رشتہ اسلام ،پیغمبر اسلام کے واسطے سے خالق دوجہاں سے ملاتا ہے اور چیز خالق سے ملانے والی ہے وہ سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور کوئی چیز چاہے جتنی مضبوط وقیمتی ہو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے ۔
اسلام نے ایمانی رشتہ کی بنیاد پر ایمان والوں کے لئے بعض خصوصی احکام دئے ہیں جس کا ہر صاحب ایمان کو لحاظ کرنا ضروری ہے ،ان میں بعض احکام وہ ہیں جن کی خلاف ورزی اسے گناہگار بنادیتی ہے تو بعض احکام وہ ہیں جن کی خلاف ورزی اس کو دائرہ اسلام سے نکال کر باہر نکال دیتی ہے جس کے بعد وہ غضب الٰہی کا مستحق ہوجاتا ہے ،کفر وشرک اس قدر خطرناک جرم ہیں جس کا مرتکب فی الفور اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اس جرم کے بعد اس کے لئے معافی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے مگر یہ کہ وہ اس جرم سے توبہ کرکے کلمہ پڑھ کر دوبارہ اسلام قبول کرلے ،چوری ،زناکاری ،شراب نوشی ، سود خوری ، ناپ تول میں کمی، بے حیائی ،فحاشی ،عریانیت اور غیر مسلموں سے شادی وغیرہ یہ ایسے خطرناک قسم کے جرائم ہیں جنہیں گناہ کبیرہ کہاجاتا ہے اور ان کے مرتکبین لعنت کے مستحق ہوتے ہیں ، ان کے اس خطرناک جرموں پر دنیا میں پھٹکار ہوتی ہے اور آخرت میں سخت ترین سزا سے انہیں دوچار ہونا پڑے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان جہاں ایک طرف ان تمام چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے قہر الٰہی کا نزول ہوتا ہے وہیں دوسری طرف ایسے لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان ہیں اور مسلسل ایسے کام کرتے ہیں جس سے اس کی دشمنی ظاہر ہوتی ہے،قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اہل ایمان کو بڑی وضاحت اور صاف لفظوں میں یہ بات بتلائی گئی ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنا دوست اور ساتھی نہ بنائیں جو اللہ تعالیٰ سے صریح بغاوت رکھنے والے اور اس کے احکام کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے ہیں مثلا یہود ونصاریٰ اور کافر ومشرک ہیں ،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لاَّ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّہِ فِیْ شَیْْء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفْسَہُ وَإِلَی اللّہِ الْمَصِیْرُ(اٰل عمران:۲۸) ’’مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یار ومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ،الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے‘‘، قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ باری تعالیٰ فرماتے ہیں: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَائَ تُلْقُوْنَ إِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ (ممتحنہ :۱)’’ اے ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن یعنی کافر کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو پیغام بھیجو دوستی کے‘‘ ،اس کے آکر میں فرمایا : ومَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَائَ السَّبِیْلِ(ممتحنہ:۱) ’’ جس شخص نے ان سے دوستی کی تو وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا‘‘، مذکورہ آیات میں اہل ایمان کو یہود یوں ،عیسائیوں اور بت پرستوں سے دوستی رکھنے اور دوستی جیسے قریبی تعلقات قائم کرنے سے صاف طور پر منع کیا گیا ہےاور باوجود منع کرنے کے اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی سے بھی دوستی کرتا ہے تو اسے بھی گمراہ سمجھاجائے گا کیونکہ اس طرح کی حرکت صرف وہی کر سکتا ہے جس کا دل ایمانی لذتوں سے خالی ہوتا ہے ۔
اسلام نے غیروں سے دوستی نہ رکھنے کے ساتھ ان سے رشتہ داری قائم کرنے سے بھی منع کیا ہے یعنی ان کے گھر اپنی بیٹی دینے اور اپنے گھر اُن کی بیٹی لانے سے بھی منع کیا ہے ،قرآن مجید میں صاف طور پر اعلان کردیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلاَ تَنکِحُواْ الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ وَلأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ وَلاَ تُنکِحُواْ الْمُشِرِکِیْنَ حَتَّی یُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکٍ وَلَوْ أَعْجَبَکُمْ أُوْلَـئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَاللّہُ یَدْعُوَ إِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِإِذْنِہِ وَیُبَیِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (البقرہ :۲۲۲)’’اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ،یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے ،خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو،اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور یقینا ایک غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں پسند آرہا ہو ،یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنے احکام لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘، قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ(الممتحنہ:۱۰) ’’نہ وہ (مسلمان عورتیں ) ان (کافرمردوں) کے لئے حلال ہیں اور نہ ہی وہ(کافر ) ان(مسلمان عورتوں)کے لئے حلال ہیں‘‘،ان آیات مبارکہ کے علاوہ ایسی متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن میں رسول اللہؐ صحابہ کرامؓ اور ان کے واسطے سے تمام مسلمانوں کو ہدایت دی کہ وہ ہر گز کسی غیر مسلم سے نکاح نہ کریں اور نہ ہی انکے گھر اپنی لڑکی کا بیاہ کریں ،چنانچہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو ہدایت دیتے ہوئے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا: اذا خطب الیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ الا تفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد عریض ( ترمذی: ۱۰۸۴) ’’ جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے جس کی دینداری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کردو ،اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا‘‘اس کے علاوہ ایک اور حدیث ہے جس میں آپ ؐ نے دین اور اخلاق والے جملے کو تین مرتبہ دہرایا ہے ،یہی وجہ ہے کہ نکاح کے لئے مرد وعورت دونوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے اور شریعت نے اسے نکاح کی شرط قرار دیا ہے ، جو لوگ حقیقی معنیٰ میں اہل کتاب ہیں ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنا جائز تو ہے مگر مناسب نہیں ہے ،صحابہ کرامؓ اپنے زمانے میں اسے ناپسند سمجھتے تھے ،چنانچہ جب سیدنا عمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ نے مدائن پہنچ کر ایک یہودی عورت سے نکاح کر لیا ہے تو آپؓ نے خط لکھ کر ان کو طلاق دینے کا حکم دیا ،سیدنا حذیفہؓ نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لئے حرام ہے؟ تو دوبارہ سیدنا عمرؓ نے اس مضمون کا خط سیدنا حذیفہؓ کو تحریر فرمایا: آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے کے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کردو کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتدا نہ کردیں اور اہل ذمہ اہل کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن وجمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگے تو مسلمان عورتوں کے لئے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی( معارف القرآن ۳؍۶۲)، قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ غیر مسلم چاہے مرد وہو یا عورت کسی سے بھی نکاح کرنے کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور منع کے باوجود اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرنے والوں کو دین بے زار ،سخت گناہگار ،بدکار بلکہ باغی قرار دیتا ہے۔
اس وقت ایک بار پھر مختلف زبانوں کے اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ خصوصاً مسلم لڑکیوں کے ارتداد ، غیر مسلم لڑکوں سے ان کی شادیوں کی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں اور روزانہ کہیں نہ کہیں سے یہ خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کی سرخیوں میں آکر مسلمانوں کے آنکھوں سے آنسو نہیں بلکہ خون بہانے پر مجبور کر رہی ہیں ،جب بھی اس طرح کی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں دل ہل جاتے ہیں ،جسم لرزجاتا ہے،آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ،مارے شرم کے سر جھک جاتا ہے اور بے ساختہ زبان پر انا للہ جاری ہوجاتا ہے، ایسا نہیں کہ یہ خبریں غیر مصدقہ اور بے بنیاد ہیں ،ان پر توجہ دے کر اپنا ذہن اور وقت خراب نہیں کرنا چاہئے بلکہ باضابطہ ان کی تصویریں ،نام ،عمر اور پتہ تک شائع کیا جارہا ہے جس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے ،اس سلسلہ میں بہت سے غیور مسلمانوں اور بعض مسلم تنظیموں نے ان تک پہنچ کر ان واقعات کی تصدیق کی ہے ، مسلمان جب جب بھی اس طرح کے دل سوز واقعات سنتے ہیں تو پُر زور انداز میں اس کی مذمت کرتے ہیں ، اپنے غم ودکھ کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرنے پر انہیں ملامت بھی کرتے ہیں ،ان کا اس طرح مذمت کرنا اور لعنتی الفاظ زبان سے نکالنا غیرت ایمانی کی علامت ہے اور جو بھی اپنے دل میں غیرت ایمانی رکھتا ہے وہ ضرور پُر زور انداز میں اس کی مذمت بھی کرے گا مگرسوال یہ ہے کہ ان واقعات پر صرف مذمت کردینا اور ان لوگوں پر لعنت ملامت کر دینا کافی ہے؟ ان الفاظ کے ادا کرنے سے ہماری ذمہ داری ختم ہوجائے گی؟ کیا ان واقعات کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ متاثرہ خاندان تک پہنچ کر ان کی مدد اور ذہن سازی ضروری نہیں ہے؟ اور کیا ہم قیامت کے دن اس بارے میں سوال کئے جانے سے بچ جائیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جس پر ہر مسلمان اور خصوصاً مسلم بااثر اشخاص، دینی فلاحی تنظیمیں اور ملت کے غیور مسلمانوں کو ان حالات کا باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ،جو لوگ اور جو تنظیمیں کوششوں میں لگے ہوئے ہیں وہ قابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل تقلید ہیں ، اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کرنا ہمارا دینی،ملی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔
اس سلسلہ میں مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ پچھلے چند سالوں سے ملک کے مختلف صوبوں میں آر یس یس کی ذیلی تنظیمیں مستقل اسی کام پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے میں لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح بہلا پھسلا کر،مال ودولت کی آس دلا کر اور جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر مسلم لڑکیوں کو مرتد بناکر ان سے شادیاں کی جائے اور پھر ایک وقت تک ان سے لطف اندوز ہونے کے بعد انہیں چوراہے پر لاکر چھوڑ دیا جائے جس کے بعد وہ نہ تو سماج میں منہ دکھانے کی لائق رہیں اور نہ ہی گھر والے اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ،اس وقت ایسے کئی لڑکیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں جن کے ساتھ غیر مسلم لڑکوں نے محبت کا جھوٹا ناٹک کرکے انہیں اپنے دام الفت میں گرفتار کرکے ان کے ساتھ ہندو رسم ورواج کے مطابق شادیاں کرکے چند ماہ بعد انہیں تنہا چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلی ہے ،اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے،وہ چیخ وپکار اور آہ وبکا کر رہی ہیں ، انصاف کے لئے دربدر چکر لگارہی ہیں لیکن ان کی کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہے، ان میں سے بعض تو صاحب اولاد ہوچکی ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں ۔
امت مسلمہ کے لئے شرمندگی اور رسوائی کی بات ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے سچا مذہب ہونے ،اس کی تعلیمات سراپا حق وصداقت پر مبنی ہونے اور انسانیت کے لئے اعلی سباق اس کے پاس ہونے اور انسانیت کے لئے مکمل تحفظ کا قانون اپنے پاس رکھنے کے باوجود کس طرح یہ لڑکیاں ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں،فریبی محبت میں گرفتار ہوکر ،دنیا کے چند روزہ لذتوں کی خاطر ارتداد کو گلے لگا کر مرتد ہو تی جارہی ہیں اور اسلام جیسی پاکیزہ تعلیمات اور اس کے محفوظ قلعہ سے نکل کر کفر جیسے غیر محفوظ گھر میں داخل ہورہی ہیں ، اہل علم اہل دانش ، مسلم سماج اور حالات پر گہری نظر رکھنے والوں نے نے بہت غور وفکر کے بعد وہ اسباب تلاش کئے ہیں جن پر محنت کرتے ہوئے اس کا سد باب کیا جا سکتا ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیابی مل سکتی ہے ،ارتداد کے اسباب میں سے چند ایک یہ ہیں ۔
(۱) مسلمانوں اور خصوصاً مسلم بچوں اور بچیوں کا ایمان کی اہمیت اور اس کی قدر وقیمت سے واقف نہ ہونا ،حالانکہ ایمان ہماری جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے ،اہل علم کہتے ہیں کہ اگر جان چلی جائے تو آدمی سے دنیا چھوٹ جاتی ہے مگر ایمان چلا جائے تو پھر آدمی آخرت کی دائمی کامیابی سے محروم ہوکر ہمیشہ کی تکلیفوں میں مبتلا ہوجاتا ہے،صحابہؓ اور ان کے سچے متبعین نے مرنے تک ایمان کی فکر کی اور اس کی حفاظت کے لئے اپنے جان تک کا نذرانہ پیش کردیا اور انہوں نے زبان حال وقال سے کہا کہ ایمان کی حفاظت کی خاطر جان کا سودا کرنا بہت سستا سودا ہے ،مسلمان ایمان کی اہمیت اور اس کی قدر وقیمت کو جانیں ،جب ایمان کی اہمیت دل میں بیٹھ جاتی ہے تو پھر وہ کسی کی طرف نظر نہیں کرتا چاہئے اس کی جان چلی جائے۔
(۲)آخرت اور وہاں کی لامحدود زندگی کی قیمت ،ایک مسلمان کو یہ اچھی طرح یاد رہنا چاہئے کہ دنیا کی زندگی فانی ہے اور آخرت کی زندگی باقی اور لامحدود ہے ،دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی ایسی ہے جیسے قطرہ کی مقابلہ میں سمندر ہے،اب اگر کوئی قطرہ کی چکر میں پڑ کر آخرت کو خطرہ میں ڈالدے اس سے زیادہ نادان اور احمق اور کوئی ہو نہیں سکتا،آخرت اسی کو ملنے والی ہے جو اپنے ساتھ ایمان سلامت لے کر جائے گا گویا ایمان آخرت کا پاسپورٹ ہے ،جنت کا ویزا اسی کو دیا جائے گا جو ایمانی پاسپورٹ ساتھ لائے گا، جب تک آخرت کی اہمیت دل میں نہ ہوگی اور اس پر ایمان پختہ نہیں ہوگا تب تک ایمان کی حفاظت کرنا مشکل ہے ،اس لئے اہل ایمان آخرت اور وہاں کی دائمی زندگی ذہن میں رکھ کر زندگی گزاریں گے تو ان کے لئے ایمان کی حفاظت کرنا آسان ہوجائے گا ۔
(۳)گھروں اور اردگرد کا دینی ماحول،مسلمان اگر اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کی حفاظت چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اولین فرصت میں اپنے گھروں کے ماحول کو دینی واسلامی بنائیں اس لئے کہ انسان ماحو ل سے بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے ،اب اگر اسے گھر کا ماحول ہی صحیح نہ ملے تو پھر اسے بگڑ نے سے کوئی بچا نہیں سکتا،اس وقت اکثر مسلمانوں کے گھروں کا ماحول قابل افسوس ہے ،گھر تو مسلمانوں کا ہے مگر اس میں رہنے والے مسلمان سچے مسلمان نہیں ہیں ،اس گھر کے درودیوار سے بے دینی بلکہ بے زار دینی نمایاں نظر آتی ہے ،جب گھر کا ماحول بے دین رہے گا تو دین ویمان کی حفاظت کس طرح اور کیسے ہو پائے گی ؟۔
(۴) مرد وزن کا اختلاط،جو مسلم لڑکیاں ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں ان میں سے اکثر کے بارے میں یہ سننے میں آرہا ہے کہ کالج یا نوکریوں کی جگہ مرد وزن کے بے پردہ میل ملاپ نے انہیں ارتداد کی چوکھٹ پر لاکھڑا کردیا ہے،مسلمانوں کو اس طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے ، اعلی تعلیم اچھی چیز ہے مگر اس وقت جب کہ وہ حدود اور دائرہ میں ہوں ، اگر حدود سے تجاوز کرجائیں گی تو پھر وہاں سے بے شرمی وبے حیائی کی وبا پھوٹے گی اور آگے چل کر اسے ارد گرد والوں کو لپیٹ لے لے گی اور مزید آگے چل کر اس کا انجام ارتداد ہوگا،جسے ہم آپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
(۵)لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر اور شادیوں میں بے جا رسومات ومطالبات، افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ خسوصاً شادیوں کے معاملہ رسومات کا مجموعہ بن چکا ہے،اس پر لڑکیوں اور لڑکوں کے انتخاب میں تعلیمات نبوی کو چھوڑ کر غیروں کی نقالی اور مال ودولت کو بنیاد بنالیا ہے جس کے نتیجہ میں شادیاں رحمت کے بجائے زحمت بن چکی ہیں اور سنجیدہ گھرانے گُھٹ گھُٹ کر جی رہے ہیں اور بعض لوگ گناہوں میں مبتلا تو بعض گھر بسانے کی چکر میں ارتداد کو گلے لگا کر ایمان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔
غرض ارتداد کے اور بھی اسباب ہیں جس کی وجہ سے خاص کر مسلم لڑکیاں ارتداد کا شکار ہوکر اپنے گھر کی آبرو مٹی میں ملا کر غیروں کے گھروں میں بے غیرتی کی زندگی گزار رہی ہیں ،انہوں نے اپنی چند روزہ دنیوی زندگی کے مزے کی خاطر آخرت کی مزیدار لامحدود زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے۔ ۔۔