Skip to content
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے!
ازقلم:مجاہد عظیم آبادی
بانی و مدیر ہفتہ واری مجلہ روح حیات
موبائل – 8210779650
حسینہ واجد کی حکومت کو ایک ایسے بحران کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے تصور سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔ یہ احتجاج یونیورسٹیوں سے شروع ہوا، لیکن حقیقت میں یہ برسوں کے غصے اور ناانصافی کا لاوا تھا جو اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ جوان دلوں میں بغاوت کی چنگاری بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ سڑکوں پر جلتے الاؤ میں تبدیل ہو گئی۔
انسان کی ناکامی میں اس کی اپنی غلطیوں کے ساتھ ساتھ مشیروں کے غلط مشورے بھی شامل ہوتے ہیں۔ حسینہ واجد نے خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کو سیاسی حریف نہیں بلکہ ذاتی دشمن سمجھا، اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جب انہوں نے پے در پے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت دی، تو انہیں یہ خیال ہوا کہ یہ ہنگامے انہی کی جماعت کی سازش ہیں۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی آئی ایس آئی کا نام لیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ عوام کا وہ غصہ تھا جو برسوں سے دبا ہوا تھا اور اب پھٹ پڑا تھا۔
1971 کی علیحدگی کی تحریک کے وقت عوامی لیگ اور مکتی باہنی نے پاکستان کے حامیوں کو "رضاکار” کہا تھا۔ حسینہ واجد نے بھی مظاہرین کو طعنے میں "رضاکار” کہا، جس کو مظاہرین نے اپنا ہی نعرہ بنا لیا کہ : "ہاں، ہم رضاکار ہیں”۔ یہ نعرہ حکومت کے خلاف ایک طاقتور علامت بن گیا۔ جماعت اسلامی کے کارکنان یقیناً ان مظاہروں کا حصہ بنے ہوں گے، لیکن یہ احتجاج بنیادی طور پر عوام کا غصہ تھا۔ حسینہ واجد نے اسے سیاسی جماعتوں کی سازش سمجھا اور اس طرح وہ صحیح فیصلہ کرنے میں ناکام رہیں۔
عوام کی ناراضگی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان پر جبر اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور خوب من مرضی کی گئی، حسینہ واجد کی حکومت نے معاشی ترقی کو یقینی بنایا، لیکن عوامی آزادی کو محدود کر دیا۔ جب عوام کا غصہ پھٹ پڑا، تو وزیر داخلہ کے گھر کو جلا دیا گیا، اور چیف جسٹس کا گھر بھی محفوظ نہ رہا۔ میں نے ایک تصویر دیکھی جس میں دو نوجوان حسینہ واجد کے بیڈ پر سوئے ہوئے تھے، اور ایک موبائل استعمال کر رہا تھا۔ یہ منظر ایک مضبوط معیشت کے باوجود عوامی غصے کا کھلا اظہار تھا۔
حسینہ واجد کو فرار ہونا پڑا، اور وہ بھی بغیر کسی سیاسی عمل کے۔ آرمی چیف، جو ان کا قریبی رشتہ دار تھا، نے انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا۔ یہ واقعہ عرب بہار کی طرح تھا، لیکن یہاں ایک جمہوری حکومت کا منظر تھا۔ اس منظر نے ایک ایسی حقیقت کو بے نقاب کیا کہ جبر اور ظلم کسی بھی معاشی ترقی کو گھنا دیتے ہیں۔ عوام سونے کا نوالہ بھی ٹھکرا دیتے ہیں اگر ان پر جبر مسلط کیا جائے۔
یہ سب ہمیں ہندوستان کی موجودہ صورتحال کی طرف بھی دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت بھی جبر اور سختی پر مبنی ہے۔ حالیہ بجٹ نے عام لوگوں کے مسائل کو نظرانداز کیا اور سرمایہ داروں کے مفادات کو ترجیح دی۔ NEET اسکیم اور UPSC اسکیم جیسے معاملات نے حکومت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ عدالتیں بھی متنازع فیصلے کر رہی ہیں، جیسے کہ ایک کار حادثے میں ایک امیر شخص نے دو غریب لوگوں کو مار دیا اور سزا کے بجائے صرف 200 الفاظ کا مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ یہ سب واقعات عوامی غصے کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔
نریندر مودی کی حکومت نے ای ڈی، سی بی آئی اور دیگر حکومتی اداروں پر بھی کنٹرول قائم کر لیا ہے، جس سے جمہوری ادارے کمزور ہو رہے ہیں۔ یہ حالات بنگلہ دیشی صورتحال کی یاد دلاتے ہیں، جہاں جبر اور ظلم نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ اگر نریندر مودی نے موجودہ حالات کو سمجھنے اور جبر کی پالیسیوں کو ترک کرنے کی کوشش نہ کی، تو ہندوستان میں بھی وہی حالات پیدا ہو سکتے ہیں جو بنگلہ دیش میں ہوئے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ عوام کے جذبات اور آزادی کی قدر کرنا کسی بھی حکومت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ معاشی ترقی اہم ہے، لیکن عوامی حقوق اور آزادی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ہندوستانی حکومت کو بنگلہ دیش کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے اور عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تاکہ جمہوری نظام مضبوط رہے اور عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ اگر نریندر مودی اور ان کی حکومت نے عوامی مسائل کو نظرانداز کیا اور جبر کا راستہ اختیار کیا، تو ہندوستان میں بھی ایک خطرناک عوامی احتجاجی تحریک جنم لے سکتی ہے جو پورے نظام کو ہلا کر رکھ دے گی۔ بقول منور رانا
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
Like this:
Like Loading...