ایران سے روزانہ 50 سے 60 لاکھ لٹر تیل پاکستان اسمگل ہوتا ہے: پاکستانی فوج
اسلام آباد ، 6اگست ( آئی این ایس انڈیا )
پاکستان کی فوج نے پیر کو انکشاف کیا کہ ملک میں روزانہ لاکھوں لٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جا رہا ہے، لیکن اس نے ان دیرینہ الزامات کو مسترد کر دیا کہ فوج کا بھی اس غیر قانونی تجارت میں کوئی عمل دخل ہے۔فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ تیل کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایران کے ساتھ ملک کی 900 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔شریف چوہدری نے کہا کہ اگر آپ اعداد و شمارکو دیکھیں تو فوج، فرنٹیئر کور، نفاذ قانون اور انٹیلی جنس اداروں کی مشترکہ کوششوں کی بدولت (ایندھن کی اسمگلنگ) ڈیڑھ کروڑ لٹر سے لے کرایک کروڑ ساٹھ لاکھ لٹر یومیہ سے کم ہو کر پچاس سے ساٹھ لاکھ لٹر یومیہ پر آ گئی ہے۔
انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں، لیکن شریف چوہدری وہ پہلے پاکستانی عہدے دار ہیں جنہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تیل کی بڑے پیمانے پر جاری غیر قانونی تجارت کے بارے میں عوامی سطح پر تخمینے شیئر کیے ہیں۔پاکستانی حکومت کے اہلکاروں نے پیر کے ان انکشافات کے بارے میں وی او اے کے سوالات کے فوری طورکوئی جواب نہیں دئے۔طویل عرصے سے جاری اس غیر قانونی تجارت کے بارے میں پاکستان کی دو سرکاری جاسوسی اداروں کی تیار کردہ ایک غیر معمولی جامع تحقیقاتی رپورٹ میں،جو گزشتہ مئی میں مقامی میڈیا کو لیک ہوئی تھی، انکشاف کیا گیاتھا کہ ایرانی تاجر سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی مالیت کا پیٹرو ل اور ڈیز ل پاکستان ا سمگل کرتے ہیں۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ ایندھن کی غیر قانونی سپلائی پاکستان کی سالانہ کھپت کا تقریباً 14 فیصد ہے، جس کے نتیجے میں خزانے کوکروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں تیل کے 200 سے زائد اسمگلروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اور سیکورٹی اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی ہے جو تیل کی منافع بخش غیر قانونی تجارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2,000 گاڑیاں، جن میں سے ہر ایک 3,200 سے لے کر 3,400 لٹر تک تیل لے جا سکتی ہیں، روزانہ سرحد پار سے ڈیزل کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ،تقریباً 1,300 کشتیوں کو بھی ایرانی تیل اسمگل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک میں تیل لے جانے کی گنجائش 1,600 سے 2,000 لیٹر تک ہے،۔ایرانی تاجر مبینہ طور پر پاکستان کے صوبے بلوچستان میں خریداروں کو مقامی کرنسی میں ایندھن فروخت کرتے ہیں اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر وصول کرتے ہیں۔ پھر اس غیر قانونی تیل کو ملک میں دوسرے مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔