Skip to content
امریکہ کا جمہوری تماشا اور ایران
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ایران میں جب ’مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل ‘ کا نعرہ لگا تو عالمی استعمار نے سمجھ لیا کہ مشرق و سطیٰ میں اب اس کے دن تھوڑے ہیں۔ 1951ء میں ایران کی عوام نے صدر مصدق کو اقتدار پر فائز کیا ۔اس مقبول عوامی رہنما کوایک سازش کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کرکے رضا شاہ پہلوی کی ملوکیت کو مسلط کرنے کا کام جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والے برطانیہ و امریکہ نے کیا ۔ اپنے لیے آزادی کی شمع اور غیروں کی خاطر غلامی کا طوق ؟ اپنی حکومت عوام کی مرضی کے مطابق اور دوسروں کی پر اپنے پٹھو ذریعہ مسلط کرنا مغرب کا منافقانہ شعار ہے ۔مغربی ممالک کی ڈھٹائی یہ بھی ہے کہ ایک خاص وقت اپنی سازشوں کو صیغۂ راز میں رکھنے کے بعد انہیں فخر کے ساتھ شائع کردیا جائے۔ 1953ء میں سرزمینِ ایران پر عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم مصدق کی حکومت کے فوجی بغاوت سے تختہ پلٹنے کی تفصیل ساٹھ سال بعد خود سی آئی اے نے شائع کرکے سارے سربستہ راز ازخود کھول دئیے ۔
سی آئی اے نے اپنی دستاویز میں پہلی بار تسلیم کیا کہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے ساتھ مل کر (ایران کو اپنا بلاواسطہ غلام بنانے کی خاطر)فوج کے ذریعے وزیر اعظم مصدق کی حکومت کا تختہ الٹا گیاتھا۔اس مقصد کے حصول کی خاطر وزیر اعظم مصدق کے خلاف پہلے عالمی اور پھر ایرانی میڈیا میں نفرت انگیز مہم چلائی گئی تھی۔ خفیہ ایجنسیوں کی مکمل نگرانی میں فوج کے ذریعہ مصدق حکومت کو ختم کرکے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی اجارہ داری کے تحفظ کی خاطر شاہ ایران کو دوبارہ اقتدار سونپا گیا تھا۔ بعید نہیں کہ نصف صدی کے بعد مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کے حوالے سے بھی اسی طرح کی تفصیل سامنے آئیں اور لوگوں کو پتہ چلے کہ کس طرح ایک مقبول عام رہنما کو عالمی سازش کے تحت اپنے اور اسرائیل کے مفادات کی خاطر عبدالفتاح السیسی جیسے فوجی آمر سے بدل دیا گیا۔ ہوسکتا ہے اس وقت السیسی بھی 19 اگست 1953ء سے لے کر 16جنوری 1979ء تک حکومت کرنے والے شاہِ ایران کی مانند کیفرِ کردار تک پہنچ چکا ہو اور سرزمین مصر پر بھی اسلام کا سورج جگمگا رہا ہو ۔
خلافت عثمانیہ کے بعد سے امتِ مسلمہ میں جو مایوسی پائی جاتی تھی اسے ایران کے انقلاب نے دور کیا ۔ امریکہ اور مغرب کے پٹھو حکمرانوں کو عوامی طاقت بے دست و پا کرنے کاحوصلہ اس انقلاب سے ملا ۔اس خیال خام کو بھی ایران نے غلط ثابت کردیا کہ پوری دنیا سے لڑائی مول لے کر زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ عالمی استعمار کی تمام تر مخالفت اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ایران کا انقلاب زندہ اور تابندہ ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد افغانستان کے عظیم جہاد نے یہ ثابت کردیا کہ مجاہدین اسلام یکے بعد دیگرے دنیا کی دوسُپر پاور کو شکستِ دےسکتے ہیں ۔ ان سے ٹکرانے والے سوویت یونین کا نام و نشان مٹ سکتا ہے۔ امریکہ کو سارے حلیفوں سمیت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔ افغانستان کے جہاد نے عالمِ اسلام کو نئی زندگی اور امنگ عطا کی ہے ۔ بنگلا دیش میں میں عوام نے سڑکوں پر اتر کر ایک ظالم و جابر حکمراں کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا ۔ امت مسلمہ نےایران ، مراکش ، مصر ، افغانستان اور بنگلا دیش میں آمریت و استعمار کے خلاف جس عوامی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے حالیہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ فلسطین میں جاری عظیم کشمکش اسی سلسلے کی ایک روشن ترین کڑی ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ ایران کا استعمال کیسے کرتا ہے اس کی ایک مثال ابھی حال میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے کےوقت سامنےآئی ۔ اس حملے کو بھی ایران سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی گئی جبکہ وہی میڈیا یہ خبر نشر کرچکا تھا کہ حملے سے 50 منٹ قبل ایک مشکوک شخص دکھائی دیا مگرپھر بھیڑ میںغائب ہو گیا۔حملےسے 20 منٹ پہلے صدر کے دستے کو خبردار کرنے کی خبر بھی آچکی تھی اور یہ بتایا جاچکا تھا کہ چند منٹ قبل شرکائے جلسہ نے اسے دیکھا اس کے باوجود حملہ ہوگیا۔ یہ تفصیلات بھی ذرائع ابلاغ میں موجود ہیں کہ جس عمارت سے گولیاں چلائی گئیں اس کے اندر اور باہربھی پولیس اہلکار تعینات تھےپھر بھی حملہ آور تھامس میتھیو کروکس ٹرمپ سے 130 میٹر کی قربت پر پہنچ گیا ۔ عمارت کے اندرموجود مقامی پولیس کے تین سنائپرس نے بھی حملہ آور کروکس عمارت کی چھت کی طرف جا تے دیکھا مگر اسے روکنے کے بجائے حفاظت کی مشترکہ ذمہ داری کے حامل سیکرٹ سروس اور مقامی پولیس ایک دوسروں پر الزام تراشی کرنے لگے ۔ سیکرٹ سروس کے ترجمان انتھونی گولیلمی تسلیم کیا کہ انتخابی ریلی کے مقام کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری ان کے ادارے پر تھی مگر اردگرد علاقے کومحفوظ بنانا مقامی پولیس کا کام تھا اور جس نجی عمارت سے حملہ آور نےگولی چلائی اس کی نگرانی مقامی پولیس کے ذمہ آتی ہے۔
مقامی شیرف تو ریاستی پولیس کو جوابدہ مانتے ہیں مگر وہ خود اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے کے بجائے سیکرٹ سروس کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ اس تو تو میں میں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر امریکی میڈیا نے نامعلوم حکام کے حوالے سے ٹرمپ کے قتل میں ایرانی سازش کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ خفیہ ذرائع نے کبھی نہ کبھی بتایا تھا کہ ایران ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کروانےکی سازش کرسکتا ہے۔ اس طرح سنسنی پھیلا کر عوام کی توجہ ہٹانے کے کارِ خیر میں امریکی ذرائع ابلاغ نے گودی میڈیا کو بھی مات دے دی ۔ایران نے امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے بدنیتی قرار دیا ۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ ایرانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ٹرمپ ایک مجرم ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کاحکم دینے پر انہیں سزا ملنی چاہیےمگر ایران نے (مغرب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ٹارگیٹ کلنگ کرنے کے بجائے) ٹرمپ کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا قانونی راستہ منتخب کیا ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان سیاسی پختگی کا فرق اس طرح بھی نمایا ں ہوتا ہےکہ پچھلے دنوں ایران کے صدر روحانی کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تو کسی نے اس کا الزام اسرائیل یا امریکہ پر دھرنے کی کوشش نہیں کی۔
امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی کوشش کرنے والے مسلح شخص نے حملے سے پہلے ریلی کی جگہ کے ارد گرد ڈرون اڑایا تھا۔ ایسے میں اگرا یران پر الزام کو درست مان لیا جائےتو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی ایجنٹ امریکہ کے اندرون ڈرون سے جائزہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ امریکہ کے لیے شرم مقام ہے مگرفی الحال اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ امریکی میڈیا اور انٹیلی جنس ایران تک تو پہنچ گیا مگر یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ 20 سالہ حملہ آور تھامس میتھیو کروک ایک یہودی نوجوان ہے۔ ٹرمپ کی سفید فام عیسائی انتہا پسندی کے منفی اثرات مسلمانوں سمیت عام یہودیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو دور کی کوڑی لانی ہو تو اسے اسرائیل کے ساتھ تھامس کے ڈانڈے ملانے چاہئیں مگر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کا یہ حال ہے کہ میڈیا ہاوس کے مالکین کی متوقع ناراضی یا قہر اس جرأت کی اجازت نہیں دیتا ۔
امریکی قومی سلامتی کے اہلکار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیکرٹ سروس اور ٹرمپ الیکشن ٹیم کو ریلی سے پہلے خطرے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ٹرمپ کی الیکشن ٹیم نے قتل کے منصوبے یا سازش کی تصدیق کو سکیورٹی تفصیلات پر تبصرہ نہیں کرنے کا بہانہ بناکر گول کردیا۔انہیں اٹکل بازیوں کے سبب ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی خبر آتے ہی چند منٹوں کے اندر امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ’سٹیجڈ‘ (یعنی ڈرامہ) کا لفظ ٹرینڈز میں شامل ہوگیا ۔ اس کےعلاوہ سازشی نظریات کا اظہار کرنے والوں نے حملے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا زبردست طوفان برپا کردیا ۔سماجی رابطے کی سائیٹس پربیشتر صارفین نے سکیورٹی کی مبینہ ناکامی پر انگشت نمائی کرتے ہوئےپوچھا کہ حملہ آور چھت پر کیسے چڑھا؟ اسے کسی نے روکا کیوں نہیں؟ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ’تنہائی پسند‘ اور ’خاموش‘ نوجوان کی بابت یہ معلومات بھی فراہم کی گئی کہ وہ کالج میں بعض اوقات ’شکاریوں کا لباس پہن کر آتا تھا‘۔ایکس پر یہ بھی لکھا گیا کہ ’یہ بہت بڑا ڈرامہ لگ رہا ہے، ہجوم میں بھگدڑ کیوں نہیں مچی؟ اور کسی نے گولی چلنے کی آواز کیوں نہیں سنی؟ مجھے اس حملے کی حقیقت پر شک ہے۔ میں ان (ٹرمپ) پر بالکل بھروسہ نہیں کرتا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی مکّا لہرا رنے والی تصویر میں ان کے چہرے پر بہتا ہوا خون اور پیچھے امریکی پرچم موضوع بحث بن گیا۔ ایک یوٹیوب اکاؤنٹ کے تبصرہ میں لکھا گیا کہ یہ تصویر ’بہت ہی زیادہ پرفیکٹ ہے‘ اور ’جھنڈا بہت ہی صحیح جگہ نظر آ رہا ہے اور باقی چیزیں بھی اپنی جگہ برابر ہیں۔‘ ایکس پر اس تبصرے کو تقریباً 10 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔کچھ لوگوں کےنزدیک گولی چلنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کرنا کسی ڈرامہ کا تاثر دیتاہے ۔ ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’ہمدردی کے لیے ڈرامہ؟ آپ ان لوگوں پر بالکل بھروسہ نہیں کر سکتے۔ میں ان کے لیے دعا بھی نہیں کروں گا۔‘ اس سانحہ کو جہاں ٹرمپ کے بدخواہ ڈرامہ کہہ ر ہے تھے وہیں حامی اسے ایک بہت بڑی سازش بتا تے ہوئے صدر بائیڈن کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ آگے چل کر ان میں سے ایک فریق اپنی شکست کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہرا دے۔ اس لیے کہ امریکہ کے جمہوری تماشے میں سب کچھ ممکن ہے۔
Like this:
Like Loading...