وقف (ترمیمی) بل امتیازی اور مسلم مخالفت پر مبنی ہے: اویسی.
نئی دہلی، 8اگست ( آئی این ایس انڈیا )
مرکزی حکومت نے آج لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل پیش کر دیا، جس کی انڈیا اتحاد کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے مخالفت کی۔اس بل میں 1995 کے قانون میں اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جیسے وقف بورڈ میں مسلم خواتین کو شامل کرنا اور بورڈ کی جانب سے اسے وقف جائیداد قرار دینے سے پہلے زمین کی تصدیق کو یقینی بنانا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس اقدام کوناقابل قبول قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی بل کی مخالفت کی ہے۔
انہوں نے اسے امتیازی اور مسلم مخالف بل قرار دیا۔بل پیش کیے جانے کے بعد بحث میں حصہ لیتے ہوئے اویسی نے کہا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 25 کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ بل امتیازی اور من مانا دونوں ہے، اس بل کو لا کر، آپ (مرکزی حکومت) ملک کو جوڑنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں، بلکہ تقسیم کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ، یہ بل اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔اویسی نے کہا کہ وقف املاک عوامی ملکیت نہیں ہے۔
وقف بورڈ کو ہٹا کر یہ حکومت درگاہ، مسجد اور وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم خواتین کو وقف بورڈ میں شامل کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بلقیس بانو اور ذکیہ جعفری کو بورڈ میں شامل کریں گے۔اس سے قبل بل کے تعلق سے آر ایس پی کے رکن پارلیمنٹ این کے پریما چندرن نے لوک سبھا میں کہا کہ، ”آپ وقف بورڈ اور وقف کونسل کو مکمل طور پر بے اختیار کر رہے ہیں۔ آپ اس نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔
میں حکومت کو خبردار کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس قانون کو عدالتی جانچ پڑتال کے ذریعے پیش کیا جائے تو یہ یقینی طور پر منسوخ ہو جائے گا۔ اسی وقت این سی پی کی رکن پارلیمنٹ سپریہ سولے نے اس بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہاکہ میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ یا تو اس بل کو مکمل طور پر واپس لیا جائے یا اسے کسی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔ انھوں نے حکومت سے درخواست کی کہ، براہ کرم ایجنڈے کو مشاورت کے بغیر آگے نہ بڑھائیں۔