Skip to content
جمعہ نامہ: پہلے بھی اک تخت نشیں کو، اپنے خدا ہونے کا یقیں تھا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے: ’’واقعہ یہ ہےکہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی‘‘۔بنگلادیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے یہ ثابت کردیا کہ فرعون کی پیروی صرف بادشاہوں اور فوجی آمر وں کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ جمہوری طریقہ پر منتخب ہونے والے بے دین(سیکولر) رہنما بھی ظلم و استبداد میں پیچھے نہیں ہیں۔ اقتدار کا حریص حاکم کسی بھی ذریعہ سے زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے اس کارویہ یکساں ہوتا ہے۔ قرآن کریم کےمطابق فرعون نے سرکشی کے بعد :’’(زمین) کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا‘‘۔ شیخ حسینہ نے اپنےحامیوں کو مجاہدین آزادی کہہ کران کے لیے 30فیصد ریزرویشن دیا اور مخالفین کے لیے رضاکار کی اصطلاح وضع کرکے انہیں پاکستانی فوج حامی یعنی غدارِ وطن بناکر پھوٹ ڈالی اور فرعونیت کا مظاہرہ یوں کیاکہ : ’’ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا (وہ) اس کے لڑکوں کو قتل کر تا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔
شیخ حسینہ کے مظالم کا سب سے زیادہ شکار جماعتِ اسلامی بنگلا دیش ہوئی ۔ اسے علامہ دلاور حسین سعیدی کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان پر بنگلادیش کی جدوجہدِ آزادی میں پاکستانی فوج کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام لگا کر پھانسی کی سزا سنائی گئی جبکہ 1971 میں وہ جامعہ بنوریہ کراچی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی بنگلادیش سے تعلق کے بناء پر انہیں معتوب کیا گیا حالانکہ وہ اس سے 1979میں وابستہ ہوئےاورمزید دس سال بعد مرکزی مجلس شوریٰ تک پہنچے۔ علامہ سعیدی 1996۔2008 کے درمیان3 مرتبہ الیکشن جیت کر 12 تک رکن پارلیمان رہے ۔شیخ حسینہ نے پہلی بار 1995 اقتدار سنبھالتے ہی انہیں گرفتارکیا اور دوسری بار سرکار بنانے کے بعد 2010 میں گرفتار کرکے موت کی سزا سنوادی۔ بدنام زمانہ ٹریبونل کے خلاف ڈھاکہ میں احتجاج کرنے والے 200 سے زائد مظاہرین کو شہید کردیا گیا۔ ان کی عوامی مقبولیت سے خائف ہو کر حکومت نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا اور 83 سال کی عمر میں جیل کے اندر موصوف انتقال ہوا۔ ڈھاکہ میں نماز جنازہ کی اجازت سے انکار کرکے میت کوآبائی گاوں فیروزپور بھیج دیا گیا جہاں ایک لاکھ سے زیادہ عقیدتمندوں نے اپنے رہنما کو آخری خراج عقیدت پیش کیا ۔
علامہ سعیدی کے علاوہ کئی رہنماوں کو پھانسی اور سزائیں ہوئیں لیکن اب وقت پہیہ دوسری سمت گھوم گیا ہے۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ ان لوگوں پر مہربانی کریں جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنا ئیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں‘‘۔ بنگلا دیش کے اقتدار کی زمام اب ڈاکٹر محمد یونس کو سونپی گئی ہے۔ اس سال ( 2024 )کے پہلے ہی دن 84 سالہ نوبل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے۶؍ ماہ قید کی سزا سنائی اور اس کے ۶؍ دن بعد جب 76 سالہ شیخ حسینہ واجد چوتھی بار انتخابات جیت کر ملک کی وزیراعظم بنیں تو انھیں جنوبی ایشیا کی سب سے طاقتور خاتون کہا گیالیکن ۷؍ ماہ بعد بنگلہ دیش کی سیاسی بساط یوں پلٹ گئی۔ آج محمد یونس عبوری حکومت کے نگران سربراہ ہیں جبکہ انھیں ’عوامی دشمن‘ قرار دینے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے۔
گرامین بینک کے ذریعہ کروڈوں غریبوں کو قرض دے کر خود کفیل بنانے والے محمد یونس کو 2006 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیامگر شیخ حسینہ واجد نےانہیں غریبوں کا خون چوسنے والا بتایا۔ان پر بدعنوانی کا الزام لگایا اور گنگا میں ڈوبا کر نکالنے کی دھمکی دی۔ یہاں تک کہ انہیں پہلے امریکی سفارتخانے میں روپوش ہونا پڑا اور پھر علاج کے بہانے ملک بدر کردیا گیا۔ ۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے پر پروفیسر یونس کہتے ہیں ’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا ہے۔ملک بھر میں لوگ جشن منا رہے ہیں۔‘ پروفیسر یونس کے مطابق شیخ حسینہ کے دور میں ’ ہم مقبوضہ ملک تھے۔ وہ کسی آمر، فوجی جنرل کی طرح حکومت کر رہی تھی، ہر چیز پر کنٹرول رکھ رہی تھی۔ آج بنگلہ دیش کے سب لوگ خود کو آزاد محسوس کررہے ہیں۔‘ بنگلادیش کی پہلی آزادی میں ہندوستان کی احسانمندی غالب تھی اور دوسری ہند مخالف جذبات سے لبریز ہے۔
شیخ حسینہ کی انتقامی سیاست کا شکار سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو ساڑھے 6 سال بعد جیل سے رہائی نصیب ہوئی ۔ وہ بدعنوانی کے الزام میں 17؍سال کی سزا بھگت رہی تھیں ۔ رہائی کے بعد کمال کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیگم خالدہ ضیا نے شیخ حسینہ کے زمانے کو ظلم اور جبر کا دور قرار دیتے ہوئے کہا کہ’ میں سب کو معاف کرتی ہوں اور کسی سے انتقام نہیں لوں گی۔ ملک کو آگے چلنا چاہیے‘۔بیگم خالدہ ضیاء نے شیخ حسینہ کی ’’جابرانہ‘‘ حکومت کو گرانے والے بنگلہ دیشی طلبا اور عوام کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اب قابلیت اور علم کی بنیاد پر ملک کی تعمیر کا عزم کیا۔ بنگلادیش کی موجودہ صورتحال پر مذکورہ بالا آیات کےسلسلے آخری حصہ:’’ ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا‘‘ ہو بہو صادق آتا ہے۔
شیخ حسینہ کو اقتدار سے محرومی کا خوف تھا ۔ آج وہ درد بدر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں ، نہ تو ہندوستان ان کو رکھنا چاہتا ہے اور نہ انگلستان انہیں لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے برطانوی حکومت نے پہلے تشدد کی تحقیقات کی شرط لگائی اور اب کہہ رہی ہے کہ قانونی چارہ جوئی سے تحفظ نہیں ملے گا۔ یہ بات کسی کے تصورِ خیال میں نہیں تھی کہ کل تک جس حکمراں کے لیے سرخ قالین بچھایا جاتا ہے آج اس کی راہوں کانٹے ہی کانٹے ہوں گے۔ ظلم و استبداد کے سہارے اقتدار حاصل کرکے اس سے چمٹ جانے والوں کو اللہ کی کتاب خبردار کرتی ہے کہ ’’ اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو اِنہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں‘‘۔ ویسے تو یہ قیامت کا منظر ہے لیکن نشانِ عبرت کے طور پر اس کی جھلک دنیا میں بھی دِ کھادی جاتی ہے تاکہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے حکمراں اس سے سبق لیں اور مایوسی کا شکار ہونے والے مظلوم عوام کو حوصلہ ملے۔ حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے؎
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
Like this:
Like Loading...
The most appropriate and historical piece written on the downfall of a dictator and oppressive regime comparable to Mohammad Muslim’s "Bada Aadmi Buda Anjaam” in Sehroza Dawat after the hanging of Z A Bhutto. Mubarakbaad
بنگلہ دیش کے تازہ حالات پر ایک بهترین تجزیہ
جزاک اللہ خیر