Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
توہمات ماہِ صفر اور اسلامی تعلیمات

توہمات ماہِ صفر اور اسلامی تعلیمات

Posted on 09-08-2024 by Maqsood

توہمات ماہِ صفر اور اسلامی تعلیمات

ازقلم: مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160

یہ کائنات اور اس کائنات کی ہر ایک شئے اللہ تعالیٰ کے قدرت کی عظیم شاہکار ہے ، ان میں سے ہر ایک شئے کو اس قدر خوبصورت انداز سے تخلیق کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا جب اس کی طرف دیکھتا ہے تو پھر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، ان میں سے ہر ایک چیز اپنی جگہ ایک قیمت رکھتی ہے اور ان میں سے کس چیز کو کس لئے بنایا گیا ہے اسے بنانے والا ہی جانتا ہے مگر اتنی بات ضرور ہے کہ بنانے والے نے انہیں ضرورت ہی کے لئے بنایا ہے ،کوئی چیز بے ضرورت نہیں بنائی گئی ہے،خالق کے سوا کسی مخلوق میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک چیز کی تخلق کر سکے ، عظیم تخلیقی شاہکار تو در کنار انسان ان میں سے ریت کاذرہ ، پانی قطرہ اور ہوا کا جھونکا بنانے کی طاقت نہیں رکھتا ، ہر چیز کی تخلیقی قدرت وطاقت صرف اور صرف خلالق کائنات کے دست قدرت اور قبضہ قدرت میں ہے ،قرآن مجید میں خدا کی قدرت وطاقت کو ان لفاظ میں ذکر کیا گیا ہے : تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ(الملک:۱) ’’بڑی شان ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں کی سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان ،دن ورات ،صبح وشام اور چاند وسورج اور ستاروں کی تخلیق اور ان کے نظام کا ذکر کر کے انسانوں کو بتایا ہے کہ ان سب پر مکمل قدرت اور کامل تصرف صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور ان کے نظام میں وصفات میں تبدیلی کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، إِنَّ رَبَّکُمُ اللّہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِیْ اللَّیْْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیْثاً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ(اعراف:۵۴) ’’یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے ،پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا،وہ دن کو رات کی چادر اُڑھادیتا ہے ،جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے ،اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کئے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے جھکیں ہیں ،یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے ،بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پرور دگار ہے‘‘۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں کو بعض پر ،دنوں میں بعض کو بعض پر ،راتوں میں بعض کو بعض پر اور دن ورات کے ساعات میں سے بعض کو بعض پر فضیلت وفوقیت عطا فرمائی ہے لیکن کہیں بھی اس بات کا اشارہ نہیں ملتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ماہ وعشرہ یا دن ورات اور کسی بھی لمحہ ولحظہ میں کوئی نحوست ونقص رکھا ہو کہ جس کی نحوست کا اثر انسان پر پڑکر وہ متاثر ہو جائے ،دراصل زماں ومکاں کی نحوست کی باتیں زمانہ ٔ جاہلیت کی دین اور ان کا شاخسانہ ہیں ،اسلام کی آمد سے قبل عربوں میں جہاں بہت سی خرابیاں جنم لے چکی تھیں ان میں سے ایک بد شگونی اور توہم پرستی بھی تھی ،وہ دیگر چیزوں کے علاوہ صفر کے مہینہ کو بھی منحوس سمجھتے تھے ، شائد اسی وجہ سے اسلام کی آمد سے قبل بھی اس مہینہ کو ’’صفر ‘‘ کہاجاتا تھا اور اسلام کی آمد کے بعد بھی اس مہینہ کو اسی نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا ،لغت میں اس نام کے کئی معنی اور مختلف وجوہات بیان کی گئیں ہیں (۱) صفر یرقان کی بیماری کو کہتے ہیں (۲) صفر کسی چیز کے خالی ہونے کو کہتے ہیں ،اور(۳) صفر متعدی (ایک دوسرے کو لگنے والے ) مرض کو بھی کہتے ہیں،اسلام کی آمد سے قبل لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ اس مہینہ میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں ،اسی وجہ سے وہ لوگ اس مہینے میں سفر کرنے سے گریز کرتے تھے ،اسلام کی آمد ہوئی اور رسول اللہ ؐ کو قیامت تک پوری انسانیت کے لئے ہادی ،رہبر اور رہنما بناکر مبعوث کیا گیا ،آپؐنے انسانیت کو توحید کی تعلیم دی اور شرک وبد عت اور زمانہ جاہلیت کے خرافات وبے ہودہ توہمات سے بچنے کی تلقین فرمائی ،آپ ؐ نے لوگوں کو بتایا کے حقیقی نافع وضار تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور نفع ونقصان کی طاقت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ،بذات خود کسی کو نفع ونقصان پہنچانے کی قوت وطاقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جن وملَک اور بشر وانسان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ کسی جانور وچوپائے اور چرند وپرند کے پاس کسی کو نفع ونقصان سے دوچار کرنے کی قوت ہے اور نہ ہی کسی ماہ ون میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی کو نفع وضرر سے دوچار کر سکیں، کیونکہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے،اسی کی بادشاہت ہے ،اسی کا حکم چلتا ہے اور وہی ہے جو ہر چیز پر مکمل قدرت وطاقت رکھتا ہے ، قرآن مجید میں ارشاد ہے :وَلِلّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّہُ عَلَیَ کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر(آل عمران:۱۸۹)’’اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ کی ہے اور اللہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے‘‘۔
رسول اللہ ؐ نے اہل ایمان کو جہاں توحید ورسالت اور اعمال وعبادت کی مکمل تعلیم دی وہیں انہیں ان باتوں سے بھی آگاہ کیا جن کا تعلق ایمان وعقائد سے ہے جس کی درستگی اور خرابی کا تعلق براہ راست اسلام وایمان اور آخرت میں کامیابی وناکامی سے ہے،بات یہ ہے کہ اعمال کی خرابی سے مومن کے نامہ اعمال میں کمی واقع ہوتی ہے مگر عقائد کی خرابی سے براہ راست اس کا ایمان متاثر ہوتا ہے اور بعض عقائد تو آدمی کو دائرہ اسلام سے باہر کر دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے نہایت تاکیدی طور پر اس کی طرف توجہ دلائی ہے اور ان تمام چیزوں سے خاص طور پر بچنے کی تلقین فرمائی جن کا اثر ایمان پر پڑتا ہے،آپؐ نے کیدی طور پر یہ بتایا ہے کہ اللہ ہی کی ذات قادر مطلق ہے ،اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے اور وہی ذات حقیقی نافع وضار بھی ہے اور اہل ایمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ حقیقتاً نافع وضار خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے ، اس کی مرضی کے بغیر نہ تو انسان و جنات ، جانور وپرند ، شجر وحجر ، سال وماہ اور دن ورات کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نفع دے سکتے ہیں ، کسی چیز کو بھی نفع وضرر کا مالک سمجھنا ناجائز اور حرام ہے اور کسی بھی شے کے منحوس ہونے کا اعتقاد رکھنا مشرکانہ تصور اور زمانہ ٔ جاہلیت کا جاہلانہ عمل ہے، اسلام میں نحوست اور بد شگونی کا کوئی تصور نہیں،یہ محض توہم پرستی اور جاہلانہ تصور ہے ۔
اسلام کی آمد سے پہلے باشندگانِ عرب میں جہاں اور بہت سی برائیاں اور خرابیاں پائی جاتی تھیں وہیں ان میں یہ برائی زور پکڑ چکی تھی کہ وہ انسانوں سے لے کر جانوروں،پرندوں ، دنوں اورمہینوں کے ذریعہ بد شگونی لیا کرتے تھے ، یہ لوگ ’’الو‘‘ کو منحوس سمجھتے تھے ،ان کا فاسد خیال تھا کہ جس گھر پر الو بیٹھ جائے یا تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے یا پھر اس میں ضرور کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے ،اسی طرح ماہِ صفر کو بھی منحوس سمجھتے تھے اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو انتہائی منحوس جانتے تھے اور ان کا گمان فاسد تھا کہ ابتدائی تیرہ دن آسمان سے نحوست نازل ہوتی ہے ،اس لئے اسکو تیرہ تیزی اور صَفر کو ’’صِفر ‘‘ کہا کرتے تھے ، اسی طرح دوران سفر راستے میں بلی کے آجانے اور راستہ کاٹنے کو انتہائی منحوس قرار دیتے تھے ،اور اسی فاسد گمان کی وجہ سے بڑے بڑے اور اہم ترین سفر کو ملتوی کر دیا کرتے تھے ، مگر جب اسلام اپنی مبارک اور پاکیزہ تعلیمات لے کر دنیا افق پر نمودار ہوا تو اس نے زمانہ جاہلیت کے ان تمام باتوں کی تردید کر تے ہوئے نہ کہ اسے فضول اور بکواس قرار دیا بلکہ اس طرح کے توہمات کو توحید کے منافی قرار دیتے ہوئے گناہ سے تعبیر کیا ، رسول اللہ ؐ نے اپنی امت کو توحید پرستی کی تعلیم دیتے ہوئے مشرکانہ افعال واعمال اور زمانہ جاہلیت کے بے ہودہ رسومات سے بچنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐنے ارشاد فرمایا:لا عدویٰ ولا طیرۃ،ولاھامۃ ولا صفر (بخاری :۵۷۵۷ ،باب لاھامۃ ولاصفر،کتاب الطب)’’کوئی مرض متعدی نہیں ،اور نہ پرندوں کے اُڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی اصل ہے‘‘ ،ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: لا عدویٰ ولاھامۃ ولا صفر فقال اعرابی یا رسول اللہ فما بال الا بل تکون فی الرمل لکا نھا الظبآء فیخا لطھا البعیر الاجرب فیجر بھا؟ فقال رسول اللہ ؐ فمن أعدی الاول؟( مشکوۃ ص ۳۹۱ باب الفال والطیرۃ) ’’ایک شخص کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفر (میں نحوست) ہے،اس پر ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ! پس اونٹوں کا کیا معاملہ ہے کہ وہ تو ریگستان میں ہر نوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں ،پھر ان میں ایک خارش زدہ اونٹ ملتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارشی بنا دیتا ہے ،آپ ؐنے فرمایا (بھلا یہ تو بتاؤ کہ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟ یعنی جس طرح وہ تقدیر الٰہی سے خارش زدہ ہوا اسی طرح یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہی خارش کے مرض میں مبتلا ہوئے ہیں‘‘ ،بہرے حال حرج ومرض فی الحقیقت متعدی نہیں ہیں اور نہ ہی بالذات کسی چیز میں نفع ونقصان کی صلاحیت و اہلیت ہے بلکہ اصلاً نافع وضار اور صحت وتندرستی اور مرض وبیماری سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ،بیمار ہونے پر دوا اور وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر احتیاط در حقیقت یہ سب اسباب کے درجہ میں ہیں کیونکہ بندوں کو اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے باقی سب کچھ مسبب الاسباب کے ہاتھ میں ہے۔
قرآن مجید میں نے نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بتلایا گیا ہے کہ جو بھی مصیبت پہنچنے والی ہوتی ہے درحقیقت وہ اس وقت سے لوح محفوظ میں درج ہے جس وقت انسان کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی : مَا ٓ اَ صَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْ ضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْاِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْنَّبْرَاَھَا( الحدید :۲۲)’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو مگر ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا ‘‘ ،اس آیت مبارکہ سے یہ بات وضح ہو گئی کہ مصیبت وتکلیف کسی مہینہ ودن کے ساتھ نہیں آتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے،اس وضاحت کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت جیسا عقیدہ رکھتے ہوئے کسی دن ومہینہ کو منحوس قرار دے اور اس میں کسی کام کے انجام دینے سے محض اس وجہ سے رکے رہے کہ کہیں نحوست کا شکار نہ ہو جائے ،رسول اللہ ؐ نے اس طرح کا عقیدہ رکھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے بلکہ ایک حدیث شریف میں اسے شرک بھی کہا ہے ،آپ ؐ کاارشاد ہے:الطیرۃ شرک ،الطیرۃ شرک (مسند احمد: ۴۱۰۴) ’’کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے ،کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے‘‘ ،محض بد شگونی کی وجہ سے اپنے کو کسی کام سے روک دینا غیر اسلامی عمل ، جاہلی طرز عمل اور ایک طرح کا شرک ہے ،آپؐ نے ایک حدیث میں اس کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے ،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: من ردتہ الطیرۃ عن حاجتہ فقد اشرک( مسند احمد : ۲۲۰۲)،’’جو شخص بد شگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقینا اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا‘‘ ،اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ کسی مہینہ یا دن یا پھر جانور وپرندہ سے بد شگونی لیتے ہیں وہ درحقیقت قرآن وسنت کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر یقین نہیں رکھتے ،ایسے لوگ قیامت کے دن مجرم بن کر کھڑے ہوں گے اور انہیں دنیا میں بد شگونی پر سزا دی جائے گی اور جو لوگ اسلامی تعلیمات پر چلتے ہوئے بد شگونی جیسے بُرے عمل سے بچے رہیں گے قیامت کے دن انہیں ان لوگوں میں شامل کیا جائے گا جنہیں اول درجہ میں جنت میں داخل کیا جائے گا ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ مجھے میری امت کے بارے میں بتایا گیا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار ایسے لوگ ہوں گے جو پہلے جنت میں جائیں گے : یکتوون ولا یسترقون ولا یتطیرون ولی ربھم یتوکلون ( بخاری : ۶۱۷۵) ’’ ان کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کو داغتے نہیں ،نہ ہی (شرکیہ کلمات سے ) دم کرواتے ہیں ،نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ‘‘۔
حقیقت یہی ہے کہ نحوست کو کسی مہینہ ،دن اور کسی وقت میں نہیں بلکہ آدمی کے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے نحوست اور قہر خدا وندی کا نزول ہوتا ہے ، فقیہ العصرمفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ نے صفر کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ دن ،مہینہ،یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے ،نحوست بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے ، جس وقت کو بندوں نے عبادات میں مشغول رکھا وہ وقت ان کے حق میں مبارک ہوتا ہے اور جس وقت کو گناہوں کے کاموں میں صرف کیا ہے وہ ان کیلئے منحوس ہے ،حقیقت میں مبارک عبادات ہیں اور منحوس معصیات ہیں‘‘(فتاویٰ رحیمیہ ۱؍۱۱۸)، یقینا جب انسان کی بد اعمالیاں بڑھ جاتی ہیں اور اس کے گناہ و جرائم پھیلنے لگتے ہیں تو پھر اسکی نحوست کا اثر زمین پر مختلف انداز سے پڑنے لگتا ہے ،کھبی آسمان سے بارشیں روک دی جاتی ہیں تو کبھی پانی سطحِ زمین سے نیچے کر دیا جاتا ہے تو کبھی لوگوں کو وبائی امراض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ،غرض دنیا میں جو کچھ اُونچ نیچ ہوتی ہے وہ انسانوں کی بد اعمالیوں کے سب ہی ہوتی ہے ،قرآن حکیم کی اس آیت میں اُسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ارشاد ہے :وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ (الشوریٰ:۳۰)اور جو کچھ تمہیں تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی کرتوت کا نتیجہ ہے اور وہ( خدائے مہربان) تو بہت سی باتوں کو درگزر کر دیتا ہے (ان پر پکڑ نہیں فرماتا)۔
اسلام نے جہاں ایک طرف بد شگونی ،بد فالی اور توہم پر ستی کے خلاف ہے اور اسے عقیدۂ توحید منافی بتایا ہے اور اہل ایمان کو بڑی قوت کے ساتھ اس کے زہریلے اثرات سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے دوسری طرف نیک شگون ا ورنیک فالی لینے کی اجازت بھی دیتا ہے ، کسی کام یا نام یا پھر کسی اچھی بات کے ذریعہ کا میابی اور مقصد کے پورا ہونے کی امید رکھنا اور اس کے ذریعہ حوصلہ افزا اور اچھے نتائج کی امید رکھنا نیک فالی اور نیک شگون کہلا تا ہے اور عمل شریعت میں مستحسن ہے ،نیک فالی کے متعلق آپؐ کا ارشاد ہے : الکلمۃ الصالحۃ یسمعھا أحدکم( بخاری :۵۷۵۵،باب الفأل ،کتاب الطب)’’نیک فالی عمدہ کلمہ ہے جو آدمی کے سننے میں آئے‘‘، چنانچہ سفر ہجرت مدینہ ٔ طیبہ کے دوران ایک واقعہ پیش آیا وہ یہ کہ بریدۂ اسلمی نامی ایک شخص اپنے ستر سواروں کے ساتھ قریش کے سو سرخ اونٹ کے انعام کی لالچ میں آپ ؐ کی تلا ش میں نکلے ،جب یہ آپ ؐ کے قریب پہنچے تو آپ نے سوال کیا : من انت ؟ تم کون ہو ،انہوں نے جواب میں کہا انا بریدۃ یعنی میں بریدہ ہوں،اس پر آپ ؐ نے ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر بطور تفاؤل فرمایا: یا ابا بکر بردامرنا وصلح ،’’اے ابوبکر ہمارا کام ٹھنڈا اور درست ہوا‘‘،پھر پوچھا تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو، بریدہ نے جواب دیا من اسلم یعنی میں قبیلۂ اسلم سے ہوں ،آپ ؐ نے پھر ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر بطور تفاؤل فرمایا :سلمنا ،ہم تو سلامت رہے ،پھر بریدہ سے پوچھا کہ قبیلۂ اسلم کی کس شاخ سے ہو ،من بنی سہم ،انہوں نے کہا میں بنو سہم سے ہوں ،اس پر آپ ؐ نے پھر بطور تفاؤل فرمایا: خرج سہمک یعنی تیرا حصہ نکل آیا ،مطلب یہ تھا کہ بریدہ تمہیں اسلام سے حصہ ملے گا ،یہ سن کر بریدہ آپ ؐ سے آ پکے متعلق پوچھ بیٹھے ،آپ کون ہیں ،آپ ؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: انا محمد بن عبداللہ رسول اللہ ،میں محمد ہوں بیٹا عبداللہ کا اور رسول اللہ کا،یہ سننا تھا کہ بریدہ کلمۂ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے اور ان کے ہمراہ ستر آدمی بھی شرف اسلام سے مشرف ہوگئے ،( سیرۃ المصطفی ج ۱ ،ص ۳۹۶ بحوالہ بیہقی)،اس واقعہ میں آپ ؐ سے نیک فالی اور اچھا شگون لینا ثابت ہوتا ہے ،اس واقعہ کے علاوہ اور احادیث بھی ہیں جن میں نیک شگون اور نیک فالی لینے کی اجازت دی گئی ہے، لہذا نیک فالی تو لی جا سکتی ہے مگر کسی بھی قیمت پر بد فالی اور بد شگونی لینے کی قطعاً اجازت نہیں ،نیک فالی سے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اچھا گمان اور رحمت ِ الٰہی سے امید باندھی جاتی ہے وہیں بد فالی سے ذات الٰہی سے کامل قدرت کی نفی کا پہلو سامنے آتا ہے جو عقیدۂ توحید کے منافی ہے لہذا توہم پرستی اور بد شگونی کی لعنت سے بچنا ہر مسلمان اور خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والے اور رسول اللہ ؐ کی رسالت کو تسلیم کرنے والے کے لئے لازمی ہے ۔
شہر شہر ،قریہ قریہ، گاؤں گاؤں دینی مدارس ومکاتب قائم ہونے ،کثیر تعدا د میں علمائے کرام کے موجود ہونے اور ان حضرات کے ذریعہ عوام تک د ینی تعلیم عام کرنے اور اسلامی باتوں سے واقف کروانے کے باوجود افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دور جاہلیت کی روش پر اب بھی قائم ہے ،مشرکانہ افکار وخیالات کو اپنا ئے ہوئے ہے اور بد شگونی اور توہمات میں مبتلا ہے ،آج بھی کئی لوگ صفر المظفر کے ابتدائی تیرہ دنوں کو اچھوت سمجھتے ہیں ، تیرھویں دن کی رات میں سرہانے کچھ انڈے ،تیل اور دیگر اشیاء رکھ کر سوتے ہیں اور صبح ہونے پر اسے خیرات کر دیتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں سرہانے رکھنے سے نحوست دور ہوتی ہے اور آنے والی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں ، اس مہینہ میں شادی ،بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات منانے سے مکمل اجتناب کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس مہینہ میں کی جانے والی شادیاں بہت جلد ٹوٹ جاتی ہیں ،اس میں منائے گئے خوشیاں بہت جلد غم میں بدل جاتی ہیں ،یہ وہ توہمات ہیں جن کا سلام اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس طرح کی سوچ رکھنے والے یا تو اسلامی تعلیمات سے ناوقف ہیں یا پھر کمزور ایمان رکھتے ہیں ،ایک مسلمان کی شان نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے حقیقی نافع وضار ہونے کا اعتقاد رکھے، ہر مسلمان کو اس سے بچنا اور دوسروں کو بچانے کی کوشش کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ ان توہمات سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ،آمین۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb