جو شریعت اور پاکستانی آئین کو تسلیم نہیں کرتے ،ہم انہیں پاکستانی نہیں سمجھتے: آرمی چیف
اسلام آباد،۹؍اگست( آئی این ایس انڈیا )
پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے۔ علما اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔اسلام آباد میں نیشنل علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم ’’فساد فی الارض‘‘ ہے۔
پاکستان فوج اللہ کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 40 سال سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغانوں کی مہمان نوازی کی ہے۔ ہم انہیں سمجھا رہے ہیں کہ فتنہ خوارج کی خاطر اپنے ہمسایہ، برادر اسلامی ملک اور دیرینہ دوست سے مخالفت نہ کریں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے پختون بھائیوں اور خیبر پختونخوا کے عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور ہم ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ خوارج ایک بہت بڑا فتنہ ہیں۔ ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن پرامن رہیں۔اپنے خطاب میں شدت پسندی پر بات کرتے ہوئے عاصم منیر نے کہا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ جرائم اور اسمگلرز مافیا دہشت گردی کی پشت پنای کر رہے ہیں۔ ان کے بقول سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلایا جاتا ہے۔ کسی نے پاکستان میں انتشار کی کوشش کی تو ہم اس کے آگے کھڑے ہوں گے۔
عاصم منیر نے مزید کہا کہ کسی کی ہمت نہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر سکے۔تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں شریعت اور آئین پر عمل کرنے کا کہا ؛لیکن پاکستان میں موجود غیر مسلم شریعت پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں، تاہم اس بیان کا اطلاق اکثریتی افراد پر ہوتا ہے، نہ کہ اقلیت پر ، کہ جس کو ارز وئے شرع مکلف ہی نہیں بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا پاکستان کا آئین ہم ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم کے حقوق سے متعلق بات کی گئی ہے۔
اس میں اسلامی قوانین بھی موجود ہیں جن پر عمل درآمد کرنا بہت ضروری ہے۔علما کنونشن سے خطاب میں پاکستان فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ؛کیوں کہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ اس پاکستان پر لاکھوں عاصم منیر، لاکھوں سیاست دان اور لاکھوں علما قربان کیوں کہ پاکستان ہم سے زیادہ اہم ہے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اگر ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو عراق، شام اور لیبیا سے پوچھیں۔ علما و مشائخ سے التماس ہے کہ وہ شدت پسندی یا تفریق کے بجائے تحمل اور اتحاد کی ترغیب دیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔انہوں نے کہا کہ مغربی تہذیب اور رہن سہن ہمارا آئیڈیل نہیں ہے۔
ہمیں اپنی تہذیب پر فخر ہونا چاہیے۔آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ جو یہ کہتے تھے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، وہ آج کہاں ہیں؟ کشمیر ہندوستان کی تقسیم کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ فلسطینیوں اور غزہ میں ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فلسطینیوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے اور پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔