قصہ نیتی آیوگ کے اجلاس میں ممتا کے جانے کا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ہندوستانی سیاست کی یہ رنگا رنگی ہے کہ نتیش کمار کے نام میں نیتی ہے ۔ وہ مرکزی حکومت کےاین ڈی اے اتحاد میں شامل ہیں اس کے باوجود نیتی آیوگ کی نشست میں نہیں گئے ۔ اس کے برعکس ممتا بنرجی وہاں حاضر ہوگئیں جبکہ انڈیا محاذ (جس کا وہ حصہ) ہیںبائیکاٹ کا اعلان کرچکا تھا ۔ ایسا کیوں ہوا ؟ دراصل بات یہ ہے کہ نتیش کمار کو نیتی (منصوبہ) میں نہیں راج نیتی (سیاست) میں دلچسپی ہے ۔ اپنی عیارانہ سیاست سے انہوں نے بجٹ کے اندر سب سے بڑا حصہ حاصل کرلیا۔ چندرا بابو نائیڈو کو نیتی آیوگ کی میٹنگ میں جانے کے بعد بھی وہ مراعات نہیں مل سکیں اور ممتا تو مائک بند ہونے کا شور مچاتے ہوئے باہر نکل آئیں۔ ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بی جے پی ان کا الزام مسترد کرکے انہیں جھوٹاقرار دے دیا اور جس انڈیا محاذ کی مخالفت کرکے انہوں نے سرکاری نشست میں شرکت کی تھی آگے آکر مرہم رکھنا پڑا ۔ ان جھگڑوں سے دور اپنے نائب وزرائے اعلیٰ بھیج کر نتیش کمار نے خانہ پُری کردی ۔ وہ بیک وقت اپنے پاسباں یعنی رائے دہندگان اور دوست نما دشمن مودی سرکار کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نتیش کمار کی سیاست فی الحال ثاقب لکھنوی کے اس شعر کی مصداق ہے؎
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
نتیش کمار کا دہلی آنا جانا اور وزیر اعظم سے ملاقات کرنا عام سی بات ہے اس کے باوجود انہوں نے نریندر مودی کی صدارت میں منعقد ہونے والے نیتی آیوگ کے اہم اجلاس میں خود شریک ہونے کے بجائے نائب وزیر اعلیٰ وجے سنہا اور سمراٹ چودھری کو کیوں روانہ کیا ؟ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کےذریعہ پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگانے سے انکار میں چھپا ہوا ہے۔ یہ فیصلہ نتیش کمار کی سیاست کے لیے بے حد اہم ہے۔ مرکز کی مودی سرکار اگر چاہتی توعدالت میں یہ نہ ہوتا یا کم ازکم ٹھنڈے بستے چلا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے نتیش کمار سرکار کے ذریعہ اپنے سیاسی حریف تیجسوی یادو کو کمزور کرنے کی خاطر دئیے جانے والے بہار میں پسماندہ طبقات، انتہائی پسماندہ طبقات، درجہ فہرست ذاتوں و قبائل کا ریزرویشن 50 فیصد سے بڑھاکر 65فیصد کرنے والےقانون رد کردیا تھا۔ اس کے خلاف بہار سرکار نےسپریم کورٹ میں اپیل کرکے عبوری راحت طلب کی مگر وہ نہیں مل سکی ۔ چیف جسٹس چندرچوڑ کی بنچ نے ریاستی حکومت کی درخواست کا جائزہ لینے پر آمادگی ظاہر کرکے
سماعت ستمبر 2024ء تک ملتوی کردی ۔ ایس سی ؍ایس ٹی کوٹہ در کوٹہ معاملے میں سپریم کورٹ کے رخ سے واضھ ہوگیا ہے کہ بہا ر سرکار کے حق میں اس تنازع کا حل نہایت مشکل ہےکیونکہ بظاہر کورٹ اور مرکزی حکومت نےریزرویشن کو بلا واسطہ ختم کرنے پراتفاق کرلیا ہے۔
انڈیا اور این ڈی اے کے درمیان فی الحال ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ ایوانِ پارلیمان کے اندر راہل گاندھی اس پر اصرا رکرتے ہیں تو بی جے پی انوراگ ٹھاکر کے ذریعہ ان کی مخالفت کرواتی ہے۔ بہار کے اندر یہ معاملہ اس قدر نازک ہے کہ وہاں بی جے پی نے خود نتیش کمار کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد تیجسوی کے ساتھ مل کر نتیش کمار نے ریاست میں کاسٹ سروے کرانے کے بعد کوٹہ بڑھا نے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس کو پٹنہ ہائی کورٹ نے 20جون کو رد کردیا ۔اس کی دو وجوہات ہیں اول تو عدالتوں میں سارے نام نہاد اونچی ذات کے جج بھرے پڑے ہیں جن کے نزدیک اپنے طبقہ کا مفاد آئین، قانون یا سماجی فلاح و بہبود سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے نیز انہیں انتخاب بھی نہیں لڑنا ہے لیکن سیاسی جماعتیں بشمول بی جے پی جانتی ہے کہ ریزرویشن سے چھیڑ چھاڑ سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔
جے ڈی یو فی الحال مرکزی حکومت سے بیش از بیش مالی فائدہ حاصل کرنے کے موڈ میں ہے کیونکہ مرکز کی سرکاری امداد سے جو ٹھیکے دئیے جائیں گے انہیں سے الیکشن لڑنے کی خاطر پارٹی کے خزانے میں چندہ آئے گا اس لیے وہ ٹکراو نہیں چاہتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جے ڈی یو کے ترجمان نیرج کمار نے نتیش کمار کی نیتی آیوگ کی میٹنگ میں غیر حاضری کوایسا پہلی بار نہیں ہوا کہہ کر ٹال دیا ۔ جے ڈی یو کے جنرل سکریٹری کے سی تیاگی نے وزیر اعلیٰ کی ذاتی وجوہات کا بہانہ بناکر سیاسی اسباب کا انکار کیااور بجٹ ونیتی آیوگ کی میٹنگ کےحوالے پرجوش ہونے کا دعویٰ کیا جو درست نکلا ۔ بہار کو اس بار بجٹ میں دوسروں کی بہ نسبت بہت زیادہ نوازہ گیا۔اس کے بہانے کانگریس نے نیتی آیوگ کا بائیکاٹ کردیا ۔ اس کے ترجمان پون کھیڑا نے اپنے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت اکثریت کے لیے دو ریاستوں پر منحصر ہے۔ حکومت نےبجٹ میں ان دونوں ریاستوں کے لیے خزانہ کھول کر یہ ثابت کردیا کہ وزیر اعظم انصاف نہیں کر سکتے، یہی بائیکاٹ کی وجہ ہے۔
پون کھیڑا نے کہا کہ انتخابی نتائج کے بعد بھی وزیر اعظم مودی نےعوام کا مزاج سمجھے بغیر ڈبل انجن والی حکومتوں کو بھی نظر اندازکرکے نتیش کمار اور این چندرابابو نائیڈو کو ہی نوازہ ۔اس ضمن میں کانگریس ترجمان نے راجستھان اور مہاراشٹر کی سزا کا ذکر کیا کیونکہ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو کم سیٹیں ملیں۔ انہوں نے حزب اختلاف کے منتخب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ جس انصافی کا ذکر کیا اس کا ثبوت ممتا بنرجی کے ساتھ بد سلوکی میں چھپا ہے۔ نیتی آیوگ کاادھورا اجلاس چھوڑ کر باہر آنے کے بعدممتا نے الزام لگایا کہ انہیں بولنے سے روکا گیا ۔ اس لیے ناراض ہو کروہ درمیان میں اجلاس چھوڑ کر باہر آ گئیں۔ انہوں نے کہا چندربابو نائیڈ کو بولنے کے لئے 20 منٹ دئیے گئے۔ آسام، گوا، چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ 10-12 منٹ تک بولے۔ لیکن انہیں صرف پانچ منٹ بولنے کے بعد روک دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں بجٹ میں بھی یہی کیا گیا، یہ سیاسی طور پر متعصبانہ بجٹ ہے۔ انہوں نےریاستوں کے ساتھ تعصب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیتی آیوگ کے پاس کوئی اقتصادی طاقت نہیں ہے، تو یہ کام کس طرح کرے گا؟ ان کا مطالبہ ہے کہ یا تو اسے مضبوط بنائیں یا پھر پلاننگ کمیشن کو پھر سے بحال کیا جائے۔
ممتا بنرجی نے بی جے پی کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد عہد کیا کہ وہ دوبارہ اس اجلاس میں کبھی شرکت نہیں کریں گی لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اپنے محاذ کے فیصلے کی روگردانی کرکے وہ اپنی بے عزتی کرانے کے لیے وہاں گئی ہی کیوں تھیں؟ وہ بھی اگر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی مانند نیتی آیوگ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھ دیتیں کہ مرکزی وزیر خزانہ کا پیش کردہ بجٹ ریاستوں اور بی جے پی کا بائیکاٹ کرنے والے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ اسے انڈیا اتحاد کو ووٹ دینے والوں سے انتقام لینے کے لئے تیار کیا گیاہے تو یہ بے عزتی نہ ہوتی ۔ اسٹالن کا یہ موقف نہایت معقول نظر آتا ہےکہ مرکز کی بی جے پی حکومت تمل ناڈو کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے اس لیے وہ بائیکاٹ کررہے ہیں ۔ شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے اسٹالن کی تائید میں کہا کہ نیتی آیوگ بجٹ کے مطابق کام کرتا ہے۔ بجٹ سے صاف ہے کہ پیسہ اور اسکیمیں صرف بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کو دی جارہی ہیں۔ اس لیے اسٹالن، تلنگانہ اور ہماچل پردیش کے سی ایم نے میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ کی توہین پر وہ بولے ان کا مائیکرو فون بندکیا جانا جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔