Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
waqf-amendment-bill-what-does-the-government-and-singh-want

وقف ترمیمی بل:سرکار اورسنگھ چاہتا کیاہے؟

Posted on 11-08-2024 by Maqsood

وقف ترمیمی بل : سرکار اور سنگھ چاہتا کیا ہے؟

 

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

 

مودی سرکار نےوقف بل میں ترمیم کے حوالے سے دودلائل پیش کیے۔ اول تو یہ کہ لاکھوں لوگوں سے صلاح و مشورہ کیا گیا ۔ اس جھوٹ کو سچ مان لیا جائے تب بھی ان لاکھوں لوگوں میں اگر صرف سنگھ پریوارکے اندھے بھگت شامل ہوں تو مشورہ کرنا یا نہیں کرنا یکساں ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگ تو مودی کو انسان نہیں بھگوان مانتے ہیں۔ ان کی آنکھ ، کان اور زبان سب پر عقیدت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ وہ صرف نندی بیل کی طرح سر ہلانا جانتے ہیں اورپالتو ٹامی کی مانند دُم ہلانے کے عادی ہیں۔ سرکار اگر لاکھوں لوگوں کے بجائے کم از کم اپنی حامی ٹی ڈی پی، جن سینا اور ایل جے پی کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتی اور ناکامی کی صورت میں اپنا ارادہ بدل دیتی تو اس ذلت و رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حکومت کے مطابق یہ خالص زمین جائیداد کا معاملہ اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ زمین پر ملکیت کا تنازع تو بابری مسجد کی خطۂ اراضی میں تھا ۔ اس کو تو ان ان لوگوں نے عقیدے کا معاملہ بنا دیا اور اب وقف کو صرف زمین جائیداد تک محدود کررہے ہیں ۔ یہ صورتحال تو مولانا حسرت موہانی کے اس شعر سے مماثل ہے ؎
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

 

لیکن اب مودی سرکار کی من مانی کرنے کے دن لد گئے ۔ اس ترمیم میں ڈی ایم کو بے شمار اختیارات دئیے گئے ہیں اس پر اعتراض کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے سیدھے سیدھے بابری مسجد کا حوالہ دے دیا گیا اور کہا کہ مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے کے بعد ڈی ایم نے کس طرح اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا یہ جگ ظاہر ہے ۔ ویسے تو اکھلیش نے جو بات کہی وہ تو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں درج ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلے اس طرح کے معاملے میں کھل کر بابری مسجد کا حوالہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ایس پی ایم پی اکھلیش یادو نے وقف (ترمیمی) بل 2024 کی مخالفت کے حوالے سے اسپیکر کی بابت بھی یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ انہوں نے لابی میں سنا ہے کہ اوم برلا کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں نیز ان کے لیے بھی لڑنے کا یقین دلایا۔ اس پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ غصے میں آکر بولے کہ اسپیکر کے اختیارات صرف اپوزیشن کے نہیں ہیں، وہ پورے لوک سبھا سے تعلق رکھتے ہیں نیز ان کے حقوق کا تحفظ کسی کے مرہونِ منت نہیں ہے۔ ایس پی ایم پی نے ضلع کلکٹروں کو بہت زیادہ طاقت دینے کے منفی اثرات کے تاریخی ثبوت موجود ہونے کا حوالہ دیا جو ایودھیا کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

 

ڈی ایم کے اختیارات کی بابت اس سرکار نے کمال ڈھٹائی سے کہا کہ اگر وہ کسی زمین کو غیر وقف کہہ دے تو اس کے حکمنامہ سرکار کی توثیق کے بعد نافذ ہوگا مگر ترمیم کےمطابق سرکاری توثیق تک وہ زمین وقف نہیں رہے گی۔ یہ بالکل الٹا حساب ہے کیونکہ جب تک مالکانہ حق کی بابت صورتحال تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک زمین کو اس کے پرانے مالک کی ملکیت ہونا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے فی الحال سرکار کے ایماء پرغیر قانونی طریقہ پر وقف زمینوں کو نگلا جاتا ہے مگر آگے یہ قانونی ہوگا۔ سرکاری افسران کا تو یہ حال ہے کہ اترپردیش میں ایک ڈی ایم نے بجلی کا بل نہیں بھرا ۔ محکمہ سے نوٹس آیا تو اس اہلکار کے گھر بلڈوزر بھیج دیا۔ سرکاری افسران کی رشوت خوری زبان زدِ عام ہے ۔ کوئی ڈی ایم نے اگر رشوت لے کر وقف کی زمین بکوا دے جیسا کہ ایودھیا میں ہوچکا ہے جہاں دیکھتے دیکھتے زمین کے بھاو میں کروڈوں کی بدعنوانی ہوگئی تو اس کے بعد سرکار کا فیصلہ از خود بے معنیٰ ہوجائے گا کیونکہ وہاں تعمیر شدہ عمارت کو خالی کرانے میں برسوں لگ جائیں اور بعید نہیں کے عدالتی فیصلہ سرمایہ دار کے حق میں آجائے۔

 

یہ کوئی خیالی مفروضہ نہیں ہے ۔ اس کی زندہ مثال مکیش امبانی کا گھر انیٹیلیا ہے۔ موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا یہ سب سے مہنگا مکان دراصل وقف زمین پر ہے۔ اسے ایک ہندو راجہ نے مسلم ٹرسٹ کو یتیم خانے کی تعمیر کے لیے دیا تھا ۔ انگریزوں کے زمانے میں جبکہ لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل ہورہا تھا ایک ہندو راجہ مسلمانوں زمین وقف کرنے سے نہیں ہچکچاتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ سیکولر جمہوری سرکار وقف کی زمین ہڑپنے کے لیے سرمایہ داروں کی مددگار بن گئی ہے۔ امبانی کے تنازع میں سرکار کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے کہ وقف کے معاملے عدالت کو مداخلت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ امبانی کے گھر کا معاملہ پچھلے 13؍ سال سے عدالت کے اندر زیر سماعت ہے مگر فیصلہ ٹل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے مودی جی کے ہوتے امبانی کے خلاف فیصلہ نہیں ہوسکتا اور عدل کا تقاضہ اس کےحق میں نہیں ہے اس لیے ایسا لگتا ہے کہ عدالت اقتدار کی تبدیلی کا انتظار کررہی ہے۔امبانی کے معاملے میں چونکہ کوئی مذہبی عقیدت کا زاویہ نہیں ہے اس لیے ٹال مٹول ہی واحد چارۂ کار ہے۔ حقیقت تو ہے کہ سیاست سے قطع نظر مودی سرکار کا یہ فیصلہ اپنے چہیتے سرمایہ داروں کو مالا مال کرکے ان سے انتخابی چندہ وصول کرنے کی خاطر کیا گیا ہے۔

 

وقف بورڈ میں ہندووں کی شمولیت اور اس کے سربراہ تک کا ہندو ہونا بھی ترمیم کا حصہ ہے مگر اس پر تو سرکار کی ایسی پیٹھ ادھیڑی گئی کہ اس کے زخم اگلے پانچ سال تک نہیں بھریں گے اور ویسے بھی یہ مخلوط سرکار ذیا بطیس کے مرض کا شکار ہے جس میں زخموں کو بھرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ کانگریس جو ہندووں کی ناراضی سے بہت زیادہ ڈرتی تھی اور مسلمانوں کے معاملے بہت احتیاط کرتی تھی کھل کر سامنے آگئی نیز پھر سے ایودھیا کا معاملہ بھی سامنے آگیا۔ کانگریسی رہنما کے سی وینو گوپال نے پوچھا کہ کیا بی جے پی کسی مندر کے ٹرسٹ میں بلکہ ایودھیا ٹرسٹ میں کسی مسلمان کو سربراہ تو دور رکن کے طور پر بھی قبول کرے گی؟ مگر بی جے پی سے ایوان کے اندر ایسا دوٹوک سوال بڑے طویل عرصے کے بعد پوچھا گیا اور وہ لاجواب ہوگئی۔ اور کیوں نہ ہوتی ؟ پہلے طمانچے کا درد کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔

 

آر ایس ایس کا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کے لوگ تو انتخاب جیت کر اکثریت میں آنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ موجودہ سرکار اس مسئلہ کو حل کرنے خاطر دیگر جماعتوں سے سیاستدانوں ڈرا دھمکا کر اور لالچ دے کر اپنی پارٹی میں لاتی ہے۔ ان کو انتخاب لڑاتی ہے اور وزارت سے بھی نوازتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی سرکار میں برآمد شدہ ارکان پارلیمان کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ سنگھ کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لوگ مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہوکر سرکاری افسر بھی نہیں بن پاتے اس لیے سرکار نے متوازی داخلہ (lateral entry) کا دروازہ کھولا اور بغیر امتحان کے نااہل لوگوں کو بھرتی کرلیا ۔ بی جے پی یہی کام مسلمانوں کے وقف بورڈ میں کرنا چاہتی ہے یعنی اپنے نیکر دھاری کاارکان کو وہاں گھساکر زمین کی خرید و فروخت کرنے کا اور کمانے دھمانے کا موقع دینا چاہتی ہے ۔ اس حرکت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود یا نمائندگی دینے کا نام دیا جارہا ہے۔ نمائندگی کی بات کریں تو اس پارٹی کومرکز اور ریاستوں کے اندر دکھانے کے لیے بھی ایک مسلمان وزیر نہیں ملتا اس لیے بی جے پی کو ایسا مطالبہ کرتے ہوئے عار محسوس ہونی چاہیے تھی لیکن دولت و اقتدار کی ہوس میں یہ لوگ شرم و حیا سے بے بہرہ ہوچکے ہیں۔

 

مسلمانوں کو اس بات کا رنج نہیں ہے کہ اس فتنہ پرور سیاسی جماعت میں ان کی کوئی کالی بھیڑ کیوں نہیں ہے؟کیونکہ ایسی بدنام پارٹی کے ساتھ تعلق فخر کی نہیں رسوائی کی بات ہے۔اس لیے صرف منطق کی حد تک یہ بات درست ہے کہ کیا بی جے پی مندر کے ٹرسٹ میں مسلمانوں کو شامل کرنے کے لیے رضامند ہوگی؟ لیکن اگر وہ بفرضِ محال راضی بھی ہوجائے تب بھی مسلمان ا اس سے معذرت کرلیں گے کیونکہ اسلام کا تو سیدھا اصول ہے ’تمہارے لیے تمہارا اور ہمارے لیے ہمارا دین ہے‘۔مسلمان نہ تو دوسروں کے مذہبی معاملات میں نہ اپنی ناک ڈالتے ہیں اور نہ کسی اور کواپنے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی اجازت دیتے ہیں یعنی نہ تو مسلمان دین کے معاملے زبردستی کرنے کے قائل ہیں اور نہ کسی مداخلت سہنا انہیں گوارہ ہے ۔ اس لیے امت ایسی ہر ناانصافی کے خلاف لڑے گی اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو سبق سکھائے گی ۔ بی جے پی اپنے حالیہ شکست سے عبرت پکڑنی چاہیے ۔ مسلمان نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنی دینی ذمہ داریوں کو ادا کرتی ہے ۔ اس کو من حیث القوم نہ تو ڈرایا جاسکتا ہے اور نہ خریدا یا جھکایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں بارہا اس کامظاہرہ ہوچکا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے شواہد سامنے آتے ر ہیں گے ان شاء اللہ کیونکہ ؎

 

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb