اوقاف کا تحفظ مسلمانوں کی دینی اور حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے.
ازقلم:ڈاکٹر سراج الدین ندوی
چیرمین ملت اکیڈمی ۔بجنور
9897334419
وقف ایک دینی اور شرعی اصطلاح ہے ۔وقف کا مطلب ہے اپنی منقولہ یا غیر منقولہ جائدادواموام میں سے کسی حصہ سے اللہ کی رضا کے لیے،کسی دینی و رفاہی کام کے لیے اپنی ملکیت سے دست بردار ہوجاناتاکہ وہ اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔یعنی مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔عربی زبان میں وَقَفَ یَقِفُ وَقْفاً کے معنی ہیں ’’ رُکنا‘‘۔چونکہ وقف میں انسان اپنی ملکیت سے ہاتھ روک لیتا ہے اس لیے اسے وقف کہتے ہیں ۔اس کی جمع اوقاف ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:۔’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے۔ ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا ایسا علم ، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور نیک و صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے‘‘(ترمذی)۔واقف کو اپنے وقف سے دو بڑے فائدے ہوتے ہیں ۔ایک یہ کہ اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔دوسرے یہ کہ لوگ اس وقف سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کوئی ہینڈپمپ لگواتے ہیں،اس سے لوگ سیراب ہوتے ہیں ۔کوئی باغ لگواتے ہیں اس کے پھلوں سے لوگ مستفید ہوتے ہیں یا اس کی آمدنی رفاہی و فلاحی کاموں پر خرچ کی جاتی ہے ،کوئی مسجد تعمیر کراتے ہیں لوگ اس میں نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں یا کوئی تعلیمی ادارہ قائم کرتے ہیں جس میں بچے علم حاصل کرتے ہیں۔کوئی ہاسپٹل بنواتا ہے تو اس سے غریب مریض فائدہ اٹھاتے ہیںچونکہ ان سب چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کو مرنے کے بعد بھی اجر سے نوازتا رہتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا دفتر عمل بند ہوجاتا ہے مگر حدیث بالا میں مذکورہ تینوں عمل ایسے ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے اور انسان کے نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے ۔
وقف تحریر ی بھی ہوتا ہے اور زبانی بھی ۔اگر کوئی شخص کسی کو گواہ بنا کر زبانی طور پر بھی اپنی کوئی ملک کسی ادارے ،مسجد ،یا دینی و فلاحی تنظیم کے لیے وقف کرتا ہے تو یہ وقف ہوجائے گا ۔البتہ اگر واقف اپنی وقف شدہ شئی کی تحریر لکھ دے تو زیادہ اچھا ہے اور آج کل کے حالات کے مد نظر اگر باقاعدہ وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کرادے تو بدرجہ اولیٰ ہے ۔
یہ بات بہت واضح ہے کہ اسلام وہ دین ہے جس نے دونوں جہانوں میں انسانوں کی کامیابی اور ان کی فلاح و خیر کے لیے تعلیم دی ہے۔ انہیں تعلیمات میں سے وقف ایک اہم تعلیم ہے۔ وقف کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اوربرکتوں سے دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں تو اللہ تعالیٰ اس کو بے شمار نیکیاں عطا فرمائے گا۔ وقف کا بڑا فائدہ ان تمام لوگوں کو ملتا ہے جومالی حیثیت میں کمزور ہو تے ہیں۔وقف شدہ چیز اللہ کی ملک ہوتی ہے اس لیے نہ بیچا جاسکتا ہے نہ وراثت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ وقف کی ایک شرعی حیثیت ہے ۔
اسلام میں وقف کوشروع ہی سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت ساری چیزیں وقف کیں۔ آپ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مسجد قبا تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کی زمین بھی وقف تھی ۔اسی طریقے سے یہودیوں کی بعض زمینیں اور باغات آپ ؐ نے خرید کر وقف کئے۔مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا ۔وہ یہودی کی ملکیت تھا۔وہ پانی کی قیمت بھی وصول کرتا اور جسے چاہتا پانی دیتا اور جسے چاہتا پانی بھرنے سے روک دیتا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے خریدا اور اسے وقف کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے دور میں بہت ساری چیزیں وقف کیں۔حضرت عمر ؓ نے اوقاف کا اندراج بھی کیا۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باقاعدہ ایک وقف بورڈ قائم کیا۔ یہ آج کل مختلف ممالک میں وقف بورڈ ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں قائم بورڈ کی نقل ہیں یا اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ خلفائے راشدین کے بعد عباسی اور اموی دور میں بھی وقف کا سلسلہ جاری رہا اور لوگوں نے مساجد اور قبرستان اور ہاسپٹل کے لیے اپنی زمینیں وقف کیں۔بعض اشخاص نے تعمیرات کر کے پوری عمارت کو وقف کیا ۔
ہندستان میں یوں تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی اوقاف کا سلسلہ شروع ہوا مگر فیروز شاہ تغلق نے اسے خوب رواج دیا۔اس نے خود ایک ہاسپٹل قائم کیا ۔جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا ۔دوائیں بھی مفت ملتیں اور کھانا بھی ۔دہلی میںمدرسہ فیروزشاہی بھی اسی نے قائم کیا جو اپنے وقت کا ایک عظیم علمی ادارہ تھا۔ فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت (1351 سے 1388) میں وقف املاک کو منظم کیا گیا۔شیر شاہ سوری (1529 ء تا 1540 ء) کے دور میں اوقاف کا شعبہ نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ اس سے استفادہ کندگان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔شیر شاہ سوری کا دور فلاحی اور رفاہی کاموں کے لیے یاد کیا جاتا ہے ۔اس نے مساجد کے لیے زمینیں فراہم کیں ۔شفاخانے قائم کیے اور تقریباً 1700 مسافر خانے قائم کیے ۔ان مسافر خانوں میں مسافروں کو قیام کے ساتھ کھانے پینے کی سہولیات بھی حاصل تھیں ۔ان کی سواریوں کے لیے چارہ کا انتظام بھی تھا۔یہ مسافر خانے ملک میں موجود اوقاف کی آمدنی سے چلائے جاتے تھے ۔ جلال الدین اکبر کے زمانے میں بھی اوقاف میں خوب اضافہ ہوا۔ ان تاریخی شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں اوقاف کا نظام نہ صرف قدیم ہے بلکہ بہت منظم بھی ہے ۔
انگریزی دور حکومت میں اوقاف کی زمینوں پر تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ۔اس ضمن میں نمایاں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنگ آزادی میں تعاون اور مجاہدین کی فلاح و بہبود کے لیے بھی مسلمانوں نے اپنی جائدادیں وقف کیں ۔ مہاتما گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک کے دوران میں مسلمانوں کی جانب سے وقف آراضی پر متعدد اسکول، کالج اور فلاحی ا دارے قائم کیے گئے۔ آج بھی کئی ریاستوں میں کانگریس پارٹی کے دفاتر مسلمانوں کی جانب سے عطیہ کی گئی زمینوں پر قائم ہیں۔ مثال کے طور پر پٹنہ میں صداقت آشرم مولانا مظہر الحق کی زمین پر قائم ہے۔
مسلم سلطنت کے زوال کے بعدہندستان میں وقف قانون کی تاریخ 1810 سے شروع ہوتی ہے۔ 1810 میں، کلکتہ کے فورٹ ولیم کے تحت علاقوں کے لئے ایک قانون منظور کیا گیا تھا، اس کے بعد 1817 میں فورٹ سینٹ جارج، مدراس کے علاقوں کے لئے اسی طرح کا قانون منظور کیا گیا تھا۔1818 میں وقف املاک کی نگرانی بورڈ آف ریونیو اور بورڈ آف کمشنرز کو سونپی گئی۔ اس کے بعد 1863 میں تمام سابقہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور مذہبی اوقاف کو متولیوں کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا ۔ 1890 کے چیریٹیبل انڈومنٹ ایکٹ نے خیراتی وقف جائیدادوں کے تحفظ اور ان کے رکھ کھائو سے بے توجہی برتی اور اوقاف ویران ہونے لگے۔انگریزوں نے سازش کے تحت وقف املاک کو خورد برد کیا ۔ان کو فروخت کردیا اور ناجائز قبضے کرائے ۔ 1873 میں بمبئی ہائی کورٹ نے ’وقف الاولاد‘ کے خلاف فیصلہ جاری کیا۔انگریزوں کی سازشی ذہنیت کے ظاہر ہونے کے بعد وقف جائدادوں کی حفاظت کی جانب مسلم رہنمائوں کی توجہ ہوئی اور احتجاج و جد جہد کی ایک طویل داستان رقم ہوئی ۔جس کی تفصیلات تاریخی کتابوں میں درج ہیں۔بالآخر 7
مارچ 1913 کو ’مسلم وقف ویلیڈنگ ایکٹ 1913‘ نافذ کیا گیا۔
آزادی کے بعد1954ء میں نیا وقف ایکٹ منظور ہوا۔ کافی ترمیمات کے بعد سنہ1995 میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ1995منظور کیا جس میں موجودہ مرکزی حکومت بعض ایسی ترامیم کرنا چاہتی ہے جس سے نہ صرف اوقاف میں حکومت کی مداخلت بڑھ جائے گی ،بلکہ مسلمان ان جائدادوں کی ملکیت اور استفادے سے بھی محروم ہوجائیں گے ۔
آزادی کے بعد مسلم جماعتوں اور ملی تنظیموں نے اوقاف کے تحفظ کے لیے بہت سی کوششیں کیں ۔بڑی بڑی کانفرنسیں ہوئں۔سمینار و سمپوزیم ہوئے ۔سروے کمیٹیاں بنائی گئیں ۔مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی وقف کے مسئلہ کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔اس کی بڑی وجہ حکومت کی بدنیتی رہی ،مگر ایک وجہ یہ بھی رہی کہ خود مسلمانوں نے اوقاف کی جن جائدادوں پر ناجائز قبضہ کررکھے ہیں وہ انھیں چھوڑ نے پر آمادہ نہیں ہیں ۔تقسیم وطن کے وقت بہت سی املاک پر غیر مسلموں نے قبضہ کرلیا تھا ۔بہت سی دوکانوں پر ان کے کرائے داروں نے قبضہ جمالیا اور جن کرائے داروں نے کرایہ دیا بھی تو بہت معمولی تھا۔ دوکاندار کرائے میں سکہ رائج الوقت کے مطابق اضافہ کو تیار نہیں ۔وقف املاک سے متعلق ہزاروں مقدمات وقف ٹریبیونل میں زیر التوا و زیر سماعت ہیں ۔وقف بورڈوں میں جولوگ رہے ان میں بھی ایک بڑی تعداد کرپٹ تھی جنھوں نے خود بھی قبضہ کیے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی اس کا موقع دیا ۔
حکومت ہند نے وقف ترمیم کا جو مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے وہ الحمد للہ پاس نہیں ہوسکا ۔لوک سبھا میں بی جے پی کی عددی قوت کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ وہ پاس بھی نہیں ہوگا۔فی الحال اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیاہے ۔31 رکنی کمیٹی کا اعلان ہوچکا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شامل ہیں ۔ہماری ملی و دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کریں اور اوقاف کے مقاصد و انتظام پر تبادلہ خیال کریں اور اپنے مشورے تحریری شکل میں دیں ۔ہم میں سے ہر فرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے اوقاف پر نظر رکھے ۔اگر اس پر کسی کا قبضہ ہے تو اس کی آزادی کے لیے منظم کوششیں کرے ۔
اگر وہ ویران ہے تو اس کو مفید بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرے ۔ہمارے بزرگوں نے امت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے خون پسینہ کی کمائی وقف کی تھی ۔اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ اپنا اجر پاچکے مگرکہیں ایسا نہ ہوکہ ہم ان اوقاف کے ضیاع کی پاداش میں اللہ کی بارگاہ میںمجرم کی حیثیت سے پیش کیے جائیں۔اس لیے اوقاف کا تحفظ ہماری دینی اور شرعی ذمہ داری ہے۔اگر ہندوستانی مسلمان اپنی زکاۃ اور اوقاف کو منظم کرلیں تو انھیں کسی حکومت کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ موجودہ مرکزی حکومت نے سیاسی اغراض و مقاصد کے تحت اس ایشو کو اٹھایا ہے ۔یہ اس کا وطیرہ ہے ۔وہ اپنے دس سالہ دور حکومت میںایسے بہت سے ایشوز اٹھاتی رہی ہے کہ ملت ان ایشوز میں الجھی رہے اور بنیادی مسائل و ضروریات کی جانب اسے توجہ کرنے کی فرصت نہ ملے۔اس بار اس نے وقف کا ایشو اٹھایا ہے تاکہ مسلمان اس میں الجھیں رہیں اور اس کے اندھ بھکت یہ سمجھتے رہیں کہ ہماری حکومت مسلمانوں کو سبق سکھارہی ہے ۔