Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
make-your-situation-favorable-then-talk

اپنے حال کو سازگار بناؤ تو بات بنے !

Posted on 15-08-2024 by Maqsood

اپنے حال کو سازگار بناؤ تو بات بنے !

 

ازقلم:مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160

 

عموماً ہر انسان کو اپنی زندگی میں تین حالتوں سے گزرنا پڑتا ہے ،بچپن ،جوانی اور بڑھاپا، بچپن کھیل کود میں گزرجاتاہے، جوانی زینت وتفاخر میں چلی جاتی ہے اور بڑھاپا مال بڑھانے اوراولاد کی زندگی بنانے میں نکل جاتا ہے ،انسان جب دنیا سے جاتا ہے تو خالی ہاتھ ہی جاتا ہے ،بچپن ،جوانی اور بڑھاپا تینوں اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہوتے ہیں ،بلکہ جن چیزوں پر وہ فخر کیا کرتا تھا وہ بھی اسے ایک لمحے کے لئے اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ جتنا جلدی ہوسکے اسے مٹی میں دفن کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی کہانی ختم کر دیتے ہیں ،اب وہ صرف اور صرف بھولی بسری یادیں بن کر رہ جا تا ہے ، انسانی زندگی تین حالتوں سے گزرتی ہوئی اپنے اختتام کو پہنچ تی ہے ،اس میں اسے تین زمانوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے ،ماضی ،حال اور مستقبل ،جو لمحات اسے چھو کر جا چکے ہیں وہ اس کا ماضی کہلاتے ہیں ،جن لمحات سے وہ گزررہا ہوتا ہے وہ اس کا حال کہلاتا ہے اور جو لمحات اس پر گزرنے والے ہوتے ہیں وہ اس کا مستقبل کہاجاتا ہے ،انسانی کامیابی کے لئے حال کا استعمال بڑی اہمیت رکھتا ہے ، جو اپنے حال کی حفاظت کرتا ہے وہ ماضی سے مایوس اور مستقبل سے خوف زندہ نہیں ہوتا ،زندگی کی ترقی دراصل حال کے تحفظ میں پوشیدہ ہے، حال ماضی کی تلافی کا بہترین ذریعہ ہے ،ہوش مند ماضی سے سبق لے کر حال میں ہر حال کھوئے رہتے ہیں ، لمحہ لمحہ کی قدر کرتے ہیں اور اسے حفاظت کے ساتھ اس طرح استعمال کرتے ہیں جس طرح صحرائی مسافر پانی کے ایک ایک بوند کی حفاظت کرتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ یہی قطرے اسے منزل پر پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،اسی طرح حال کا درست استعمال مستقبل میں کامیابی کی علامت ہے ،زندہ قومیں ماضی سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتی ہیں ،اگر ان کے آباء واجداد نے ماضی میں سنہری تاریخ رقم کی تھی تو اس پر وہ صرف فخر نہیں کرتے بلکہ ان کے سچے جانشین بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے عظیم کارناموں کو زندہ اور قائم رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں ،اگر ان کے آبا ء واجداد کا ماضی قابل فخر نہیں بلکہ قابل عبرت تھا تو اسے دیکھ کر وہ ان سے عبرت اور سبق لیتے ہیں۔
قرآن حکیم میں کامیاب اور ناکام دونوں طرح کی قوموں کا ذکر ملتا ہے ،قرآن حکیم کامیاب لوگوں کی کامیاب زندگی کے کامیاب کارناموں کو بتا کر اس کے اپنانے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے ذریعہ موجودہ قوموں میں تحریک پیدا کرتا ہے اور ناکام قوموں کی ناکامیاں اور اس کے اسباب وعلل بتاتا ہے اور اس کے ذریعہ موجودقوموں کو عبرت لیتے ہوئے اس سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے ،چانچہ سمجھدار قومیں ناکام قوموں سے عبرت لیتی ہیں اور کامیاب قوموں سے تحریک حاصل کرتی ہیں ، سابق میں اقوام عالم میں قوم مسلم اپنی ایک خاص پہچان رکھتی تھی،روز اول ہی سے اس نے ایک تاریخ رقم کی تھی ،ہر حالت میں ثابت قدم رہنا ،ہمت سے کام لینا ،قوت سے قدم بڑھانا، خود اعتمادی قائم رکھنا اور کامیابی کی امید کے ساتھ آگے بڑھنا نہ صرف ان کا امتیازی وصف تھا بلکہ ان کی پہنچان اور علامت بن چکی تھی ،کیونکہ مسلمان بے ہمت، پست حوصلہ ،بزدل اور صرف اسباب پر یقین کرنے والے نہیں ہوتے ہیں بلکہ حوصلہ مند ،باہمت ،بلند حوصلہ اور مسبب الاسباب پر نظر رکھنے والے ہوتے ہیں ،اس کا ایمان وایقان اس بات پر ہوتا ہے کہ کامیابی وناکامی کا دار مدار اسباب پر نہیں بلکہ خدا کے حکم اور اس کی مشیت کے ساتھ رہتا ہے ،یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت حوصلہ مند ،جفاکش اور فولادی عزم وحوصلہ رکھنے والوں کے ساتھ ہواکرتی ہے ،وہ انہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جو اس پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اپنے دست بازو کو اس کے حکم کے مطابق استعمال میں لاتے ہیں ۔
یقینا ہمارے آباء واجداد کی ایک سنہری تاریخ ہے جس پر ہمیں ہی نہیں بلکہ تاریخ کو بھی ناز ہے ،ان کے کارناموں سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں ،ان کے عزم وحوصلوں کی دنیا مثال دیتی ہے،ان کے عدل وانصاف کے دشمن بھی قائل ہیں ، بلند وبالا تاریخی عمارتیں ان کے ذوق کی منہ بولتی تصویر ہیں ،انسانیت نوازی ان کی فطرت تھی ، ان کی کٹی ہوئی گردنیں وطن سے محبت کی نشانی ہیں ،ان کے دور حکمرانی میں سب کے ساتھ برابری ان کے عمدہ اخلاق کی نشانی ہے اور رعایا کا چین وسکون ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے ، یہی کامیاب قوموں کی علامت اور نشانی ہے ، وطن عزیز ہندوستان پر مسلم حکمرانوں نے کم وبیش نوسو سال حکومت کی ہے ،تاریخ ہند گواہ ہے اور یہاں کے شجر وحجر ، دریا وسمند ر ،پہاڑ و جھرنے ، بلند وبالا عمارتیں اور اس کے درودیور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ حکمران ہوں تو ایسے ، انصاف پرور ہوں تو ایسے اور انسانیت نواز ہوں تو ایسے ،یہ وہ حکمران تھے جن کی حکمرانی پر تخت وتاج بھی ناز کرتے تھے ،بعض متعصب اور عصبیت کا چشمہ لگا نے والے ، جھوٹا مزاج رکھنے والے اور اپنے حقیر مفادات کو پیش رنظر رکھنے والے ان اعلیٰ ظرف،بلند صفت ،انسانیت نواز اور رحم دل حکمرانوں پر کیچڑ اُچھالنے میں لگے ہوئے ہیں ،سستی شہرت کی خاطر بلند ترین ہستیوں کی ہستی مٹانے چلے ہیں ،مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح سورج کو چراغ دکھانا، آسمان پر تھوکنا ،سمند ر کو پا ٹنے کی کوشش کرنا اور چاند کے حسن کا مذاق اُرانا ایک حماقت ہے اسی طرح عادل ، منصف ،مہربان اور ہمدرد حکمرانوں پر طنز کرنا اور ان کے عظیم کارناموں کو مٹانے کی کوشش کرنا حماقت اور بزدلی ،تعصبیت اور دھوکہ اور فریب ہے ۔
ہمارے آباء واجداد نے ملک کی ترقی اور اس میں بسنے والے باشندگان کی سہولت کے لئے وہ گراں قدر کام کئے ہیں جس کی صرف گنتی کے لئے کئی صفحات درکار ہیں ،انہوں نے ہر میدان میں نہایت خوش اسلوبی سے کام کیا تھا ، جس کا نتیجہ میں یہاں کے باشندگان جو الگ الگ مذہب ومشرب کے ماننے والے تھے اس طرح خوش رہتے تھے جس طرح باپ کے سایہ شفقت میں ان کی اولاد رہتی ہے ، اس زمانہ میں پورا شہر ایک کنبہ کی طرح رہتا تھا، ہر شخص دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھتا تھا ،دوسروں کی خوشی پر پھولے نہیں سماتا تھا ،جس کا ثبوت جنگ آزادی اور اس کی قربانیاں ہیں ،سبھوں نے مل کر اور اجتماعی قوت بن کر ایسا حملہ آور ہوئے تھے کہ غاصبوں کو سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا تھا ، افسوس تو ہم پر ہے اور ان کی اولاد کہلائے جانے والوں پر ہے کہ وہ خود اپنے آباء واجداد کی سنہری تاریخ سے نابلد اور ناواقف ہیں ، بلاشبہ قوموں کی کامیابی و ترقی کے لئے ان کے آباواجداد کے تاریخی کارنامے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ،ان کے واقعات اور حالات سے حوصلے پروان چڑھتے ہیں ، قوت ارادی میں تقویت پیدا ہوتی ہے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ انگڑایاں لینے لگتا ہے ، کسی کہنے والے نے یہاں تک کہا ہے کہ آباء واجداد کی سنہری تاریخ کے مطالعہ اور ان کے عظیم کارناموں کے مذاکرہ سے مردہ قوم میں پھر سے جان پیدا ہوتی ہے ۔
اس وقت پوری دنیا میں اور خصوصاً ہند میں مسلمان جن صبر آزما حالات سے گزر رہے ہیں ایسے میں ان کے لئے صحابہ ؓ ،تابعین ،مسلم حکمران اوردرد ملت رکھنے والے اپنے اسلاف واکابر ؒ کی تاریخ پڑھنا ضروری ہے ، تاریخ اسلامی پر نظر ان کے لئے حوصلوں کی بلند پروازی کا بہترین ذریعہ ہے ،یقینا اللہ کی مدد غافلوں پر نہیں بلکہ ہوش مندوں اور حرکت کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ، ملت اسلامیہ کی انفرادی واجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں ، ناامیدی اُجالے مٹاتی ہے اور اندھیروں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتی ہے ،ڈر بزدلی کا بیج بوتی ہے اور مایوسی پیدا کرتی ہے جو کہ کفر ہے ، اہل ایمان پر ہر دور میں ناگفتہ بہ حالات آئے تھے ،اس وقت بھی ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے ، حالات کا ڈر رکھنے والے کبھی بھی حالات کے مقابلہ نہیں کر سکتے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے والے ہی حالات سے لڑسکتے ہیں اور اس قوم کو ڈر کس بات کا جس کا جینا اور مرنا دونوں زندگی ہے ،اگر وہ حق اور سچ کے لئے مرتا ہے تو اس کا مرنا بھی ایک زندگی ہے اور ایسی زندگی ہے جس پر زندگیاں قربان ہیں ،زندہ قومیں کبھی بھی مرنے سے نہیں ڈرتی ہیں مگر ڈرتی ہیں تو مرمر کر زندہ رہنے سے ڈرتی ہیں اور انہیں ڈر کس بات کا جن کا ایمان اس ذات پر جس کے قبضہ قدرت میں سارا جہان ہے ،ان کی ڈور اس رب کائنات کے دست قدرت میں ہے جس کے حکم کا ہر پتہ ،ہر قطرہ اور ذرہ پابند ہے ،اس کی قدرت بے مثال ہے ،اس کی طاقت لازوال ہے اور اس کی حکمت سب پر غالب ہے ، وہ طوفانوں کو موڑتا ہے ، آندھیوں کا رخ بدلتا ہے اور آن وحد میں نظام عالم بدل سکتا ہے ، زمین و آسمان ،پہاڑ وسمندر،شجر وحجر ،چاند وسورج جس کی طاقت میں جکڑے ہوئے ہیں تو انسان اور اس کی معمولی طاقت کی کیا حیثیت ہے ،ہر دور میں بڑے بڑے سرکش آئے اور گئے اور آگے بھی آتے رہیں گے ،مومن کی نظر زمین والوں پر نہیں بلکہ آسمان والے پر ہوتی ہے اور ہونی چاہئے اور مومن ان کاموں کو اپنی زندگی میں شامل کرے جس سے اوپر والے کی نظر رحمت ہم پر پڑجائے جس کے بعد پھر کسی کی نظر کی ضرورت نہ رہے۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر دور اور ہر علاقے میں اسلام اور دین متین کے ماننے والوں پر ناگفتہ بہ اور صبر آزماں حالات آتے رہے ہیں اور ان حالات کے ذریعہ ان کی جانچ اور ان کا امتحان ہوتا رہا ہے ،جو حق پر جمے اور ڈٹے رہے نصرت الٰہی نے انہیں کامیابی تک پہنچایا اور جن کے قدم ڈگمگائے وہ نصرت الٰہی سے محروم ہوگئے ،جب کبھی ایسے حالات سے مسلمانوں کا سامنا ہوا ہے تو ان حالات سے مقابلہ کے لئے اہل علم اور اہل دل حضرات نے ان کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ امت کے ہر فرد کی افرادی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ چار چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرلیں (۱) رجوع الی اللہ ،یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں ، اسی سے فریاد طلب کریں ،اسی سے مدد مانگیں ، اپنے گناہوں سے معافی مانگیں ، ناراضگی والے اعمال سے خود کو بچائیں ،فرائض وواجبات اہتمام سے اداکریں ،تلاوت قرآن کو اپنے اوپر لازم کرلیں ،نوافل اور دعا کا کثرت سے اہتمام کریں ،(۲) دعوت الی اللہ ، اپنے متعلقین ،آس پاس اور اپنی طاقت کے مطابق جہاں تک ہوسکے دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کریں،بساوقات فریضہ نہی عن المنکر میں کوتاہی برتنے کی وجہ سے قہر الٰہی کا کوڑا برستا ہے اور پھر اس کی لپیٹ میں پوری قوم آجاتی ہے،(۳) صبر وتحمل ، بندوں کا صبر اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ،جب کوئی قوم یا اس کے افراد حالات میں گھر جاتے ہیں اور وہ ان پر صبر وضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنی غیبی مدد نازل کرتا ہے جس کے بعد حالات اس طرح بدل جاتے ہیں جس طرح خوب بارش برسنے کے بعد زمین کی خشکی تری میں تبدیل ہوجاتی ہے ،(۴) اتحاد واتفاق،اگر ناموافق حالات شامت اعمال کی وجہ سے ہیں تو پھر مذکورہ تین چیزوں کو اپنے اوپر لازم کریں اور اگر دشمن کی طرف سے ظلم وستم کیا جارہا ہے اور مسلمان ان کے ظلم وستم کا شکار ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے جان ،مال اور املاک تباہ کئے جارہے ہیں تو ایسی صورت میں مسلمان مذکورہ تینوں چیزوں کے علاوہ چوتھی چیز اتحاد واتفاق مضبوط کریں اور اپنی اجتماعی قوت کو طاقتور بنائیں ،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اجتماعیت میں بڑی طاقت رکھی ،حدیث مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ(مدد کی شکل میں ظاہر ) ہوتا ہے‘‘ ،مذکورہ چارچیزوں کے التزام سے یقینا حالات سازگار ہوں گے ،اللہ کی مددشامل حال ہوگی ، نامساعت حالات کا خاتمہ ہوگا اور جس دور کے ہم متمنی ہیں وہ دور پھر سے لوٹ کر آئے گا جس کی تمنا ہم میں سے ہر ایک کو ہے اور اسی کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے شاعر مشرق اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎؎
ہا ں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb