Skip to content
حضرت مولانامحمدیعقوب شمسی سہارنپوریؒ
حزین:ناصرالدین مظاہری
موت اور زیست کی جنگ میں جیت ہمیشہ موت کی ہوئی ہے ،موت سے کس کورستگاری ہے ،ہر ذی روح کوموت کاذائقہ چکھناہے،یہاں جوبھی آیاہے وہ گویامرنے کے لئے ہی آیاہے ،بہت سی اموات ایسی ہوتی ہیں جوقلب وروح کوبے کل وبے چین کرجاتی ہیں ،ایسی ہی ایک موت ہمارے استاذ مکرم حضرت مولانامحمدیعقوب شمسی سہارنپوریؒ کی بھی ہے۔ حضرت مولانامحمدیعقوب شمسی سہارنپوری کے والدماجدکانام الحاج محمداسحاق تھا،مولاناکی ولادت ۱۹۴۸ء میں سہارنپور کے محلہ ٹوپیہ سرائے میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم اپنے ہی محلہ کے مکتب میں حاصل کی پھر۱۳۸۲ھ میں مظاہرعلوم سہارنپورمیں داخل ہوکرچارپانچ سال درجہ بدرجہ تعلیم حاصل کرکے ۱۳۸۶ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کرفارغ ہوئے۔دورۂ حدیث شریف کی پوری جماعت میں آپ سب سے اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوئے اورنقدانعام کے علاوہ کتب انعامیہ بھی حاصل کیں۔
آپ کے رفقائے دورہ میں حضرت مولانامحمدسلمان صاحب ابن جناب مولانامفتی محمدیحییٰ سہارنپوریؒاورحضرت مولاناقاری محمدرضوان نسیم صاحب ابن جناب حضرت مولاناقاری سیدمحمدسلیمان دیوبندیؒ بالخصوص لائق ذکر ہیں۔
حضرت مولانامحمدیعقوب شمسی سہارنپوریؒنے بخاری شریف مکمل شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا مہاجرمدنیؒ سے،مسلم شریف،ترمذی شریف،نسائی ابن ماجہ ،مؤطاامام مالک اورمؤطا امام محمدحضرت مولانا منورحسینؒ پورنوی سے پڑھیں۔ابوداؤدشریف حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ سے اورطحاوی شریف مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ رام پوریؒ سے پڑھیں۔
فراغت کے بعد ہی ۱۳۸۷ھ میں آپ کے مادرعلمی مظاہرعلوم میں ہی آپ کاتدریس کے لئے تقررہوگیا،تقررکے پہلے سال آپ نے مرقات ،نورالایضاح وغیرہ کتابیں پڑھائیں،اگلے سال کنزالد قائق وغیرہ بھی پڑھائیں اوریوں سال بہ سال ترقی کی اوج طے کرتے ہوئے شرح وقایہ،جلالین ، بیضاوی ، مشکوۃ ، نسائی، ابن ماجہ ،مؤطاامام مالک اورشیخ الحدیث حضرت مولانا علامہ محمدعثمان غنیؒ کے انتقال کے بعدمسلم شریف کاسبق آپ سے متعلق ہوا۔
۱۴۲۳ھ میں مدرسہ مظاہرعلوم وقف سہارنپورکے آپ صدر مدرس تجویزہوئے ۔آپ سے پہلے اس عہدہ پرآپ کے استاذ حضرت مولانامحمدعاقل سہارنپوری فائزتھے لیکن مولانادار جدید چلے گئے تویہ عہدہ ایک عرصہ تک خالی رہا۔
میں مبالغہ آرائی کابالکل قائل نہیں ہوں نہ ہی استاذ ہونے کی وجہ سے ذرے کوآفتاب ثابت کرنے کوشش کروں گاتاہم اتناضرورہے کہ آپ کااصل موضوع بکثرت اورطویل زمانہ تک جلالین شریف پڑھانے کی وجہ سے تفسیرہوگیاتھا،میں نے ایک دفعہ پوچھاکہ آپ نے جلالین شریف کتنے سال تک پڑھائی توفرمایاکہ اٹھارہ سال۔اسی لئے اس کتاب کی تدریس میں جوملکہ اورقدرت آپ کوحاصل ہوئی وہ مثالی تھی،بڑی مشہورصاحب علم شخصیات آپ کے درس جلالین کی تعریف میں رطب اللسان دیکھی گئیں۔میں یہ توبالکل نہیں کہوں گاکہ دارالعلوم دیوبندکے طلبہ اپنے اسباق چھوڑکرآپ کے سبق میں شرکت کرتے تھے کیونکہ یہ بالکل مبالغہ ہوگاکہ کوئی طالب علم مدرسہ کے ضابطہ اورقاعدہ کی خلاف ورزی کرکے مظاہرعلوم پہنچ کرآپ کے درس میں شرکت کرے ۔ہاں البتہ اتناضرورکہوں گاکہ بہت باردارالعلوم کے طلبہ آپ کے درس جلالین میں شرکت کرتے پائے گئے ، بظاہراس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ طلبہ کسی کام سے یادیوبندمیں کوئی سبق اتفاقانہ ہواتو سہارنپورآگئے اورشریک درس ہوگئے۔
جلالین شریف کے لئے کون سی کتابیں آپ کے زیردرس رہی ہیں یاآپ کوتفسیرکی کون کون سی کتابیں پسندتھیں یہ پوچھنے کی کبھی توفیق نہ ہوسکی۔البتہ آپ جلالین شریف کے سبق میں اس قدرمنہمک ہوجاتے تھے کہ لگتاتھاکہ آپ کولذت اورحلاوت مل رہی ہے،طلبہ آپ کے سبق میں ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے ،حاضری کااوسط بڑھ جاتاتھا،سبق کے بعدطلبہ اس سبق کے تعلق سے سیری محسوس کرتے تھے ، طمانینت قلبی کااحساس ہوتاتھا۔میں نے آپ سے مشکوۃ کے سال بیضاوی شریف اوردورہ حدیث کے سال نسائی اورمؤطاامام محمدؒ پڑھی ہیں۔
نسائی کے درس میں آپ زیادہ کلام نہیں کرتے تھے ،ضروری مباحث اوربنیادی چیزیں بتاکرآگے بڑھ جاتے تھے ،مؤطامام محمدسال کے بالکل اخیرمیں ہوتی ہے اورصرف عبارت خوانی پرہی اکتفاہوا۔
مختلف سنین میں مختلف طلبہ نے آپ کے دروس قلم بندکئے لیکن کسی سبق کے مطبوع ہونے کااحقرکوعلم نہیں ہوسکا۔اسی طرح حضرت الاستاذ صرف کتابی اوردرسی مزاج ومذاق کے حامل عالم تھے اسی لئے کوئی کتاب یاکتابچہ طبع نہیں ہوا۔
ذہانت وفطانت،حاضرجوابی،استعدادکی پختگی اورجزئیات بالخصوص تفسیری علوم ومعارف سے آگہی اوربصیرت میں آپ اپنے معاصرین میں ممتازتھے۔
آج ۱۱؍صفرالمظفر۱۴۴۶ھ مطابق ۱۷؍اگست ۲۰۲۴ء شنبہ کوبعدنمازمغرب مظاہرعلوم وقف کی مسجدکلثومیہ میں اعلان ہواکہ حضرت مولانامحمدیعقوب صاحب صدرمدرس مدرسہ ہذاکاانتقال ہوگیاہے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
انتقال کی خبرکلفت اثرسن کرنہایت رنج ہوااورنہاں خانۂ دل میں برجستہ مشہورمصرع’’اک شمع رہ گئی تھی سووہ بھی خموش ہے‘‘آیااورہاتف نے سرگوشی کی کہ اس مصرع کاحقیقی مصداق مولانا محمدیعقوب صاحب کی ذات گرامی ہے ،آپ سلسلہ کہن سال کی آخری کڑی تھے،آپ قدیم اکابرکی یادگارتھے،استاذالاساتذہ تھے ،آپ کی ذات سے مدرسہ بھرابھرامحسوس ہوتاتھا۔آہ!کل کسی وقت اس گنج گرانمایہ کوکئی من مٹی کے نیچے رکھ کرلوگ بصدحسرت وافسوس پڑھیں گے: منہا خلقناکم وفہیانعیدکم ومنہا نخرجکم تارۃ اخریٰ۔
بلامبالغہ مولاناکے کئی ہزارشاگردان رشیدایسے ہوں گے جوحدیث اورتفسیرکی تدریس سے منسلک ہیں اوران سے کہیں بڑی تعدادایسے شاگردوں کی ہوگی جومختلف دینی کاموں میں مصروف ہیں ان شاء اللہ یہ بڑی تعدادآپ کے لئے صدقۂ جاریہ ثابت ہوگی۔
تمام قارئین سے پرخلوص درخواست ہے کہ ایصال ثواب اوردعائے مغفرت کریں ۔اللہ تعالیٰ مولاناکے درجات کوبلند فرمائے۔جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اورپس ماندگان کوصبرجمیل کی توفیق ارزانی فرمائے۔
Like this:
Like Loading...