Skip to content
مسلمانوں کی سیاسی بصیرت جاگی تو حالات بہتر ہو جائیں گے: پرشانت کشور
گیا،19اگست ( آئی این ایس انڈیا)
گیا شہر میں واقع ایک نجی ہوٹل میں سیاسی اجلاس کااہتمام کیا گیا،جس میں مہمان خصوصی اور مقرر خاص کی حیثیت سے جن سوراج کے بانی اور مشہور انتخابی پالیسی ساز پرشانت کشور شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں سبھی شعبہ کی معزز شخصیات موجود تھیں۔ البتہ میٹنگ میں بیلا گنج اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھنے والے ایک رہنماء کے حامیوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
سیاسی اجلاس کی نظامت سماجی وسیاسی رہنماء مسیح الدین نے کی جب کہ اس موقع پر معروف اسکالر ارشد محسن، نظامیہ یونانی کالج کے سکریٹری حاجی ابو اریبہ اور معروف شاعرہ صدف اقبال، جن سوراج کے رہنماء محمد امجد وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
وہیں اس دوران پرشانت کشور نے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ وہ سچر کمیٹی کی رپورٹ پر باتیں نہیں کریں گے کیونکہ اُنہوں نے خود پد یاترا’ کے دوران 100 سے زیادہ مسلم گاؤں کے دورے کیے ہیں۔ وہاں جو حالت دیکھی ہے وہ چند منٹوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ،لیکن موٹی موٹی باتیں یہ ہیں کہ مسلمانوں کو صرف سبز باغ دکھایا گیا ہے۔
سفر کے دوران ایک اہم چیز سبھی جگہ پر یہ دیکھنے کو ملی کہ جہاں 3000 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی والا گاؤں ہے، وہاں پر بنیادی سہولیات سے لوگ محروم ہیں اور حالت ناگفتہ بہ ہیں، جہاں پانچ سو سے کم آبادی ہے یعنی کہ مکس آبادی ہے وہاں بھی حالات بہتر نہیں ہیں لیکن اس سے کم ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جب اس کی وجہ پر ہم نے گہرائی سے تفتیش کی تو بڑی وجہ یہ سامنے آئی کہ وہاں اگر این ڈی اے کے ایم ایل اے، ایم پی جیتے ہیں تو وہ کام نہیں کرتے ہیں کہ یہاں سے اُنہیں ووٹ نہیں ملا، اکثریتی ووٹ دوسرے امیدوار کو ملا۔ لیکن سیکولر جماعتوں کے یعنی کہ آر جے ڈی، کانگریس کے ایم ایل اے، ایم پی نے جیت درج کی ہے تو انہوں نے بھی کام نہیں کیا۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائیں گے کہاں؟
کیونکہ جب انتخاب آئے گا تو انہیں بی جے پی سے خطرہ دکھاکر اور سیکولر ازم کی حفاظت کے نام پر ووٹ لے لیا جائے گا۔ ان سے مسلمان اپنے لیے کچھ مانگیں گے نہیں بلکہ کسی پارٹی کو روکنے کے لیے ووٹ کریں گے۔ اب اس صورتحال میں یہ سمجھیں کہ آپ کی سیاسی ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔
اُنہوں نے اپنی پارٹی کے نظریہ کے سوال پر کہا کہ پہلے یہ سمجھنا ہوگا ہماری لڑائی بی جے پی سے نہیں بلکہ سنگھ (آر ایس ایس) سے ہے۔ آر ایس ایس جب چاہے گا تب جن سنگھ کھڑا کردے گا، جب چاہے گا بی جے پی کھڑی ہوجائے گی، ہر دن ایک لاکھ سے زائد شاکھا آر ایس ایس کی لگتی ہے۔
پچاس فیصد ہندو ان کے نظریہ پر چلتے ہیں، اس کا حساب اس طرح سمجھیں کہ ملک میں 80 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے۔ 2024 کے انتخاب میں بی جے پی کو 40 فیصد قریب ووٹ پڑے، بی جے پی کو ہندؤں کے علاوہ ووٹ کسی دوسرے نے نہیں دیا،
اس سے یہ واضح ہے کہ 50 فیصد ہندؤں کو آر ایس ایس کا نظریہ پسند ہے، بہار کی مثال لیں تو جہاں یادو برادری کا امیدوار ہوتا ہے وہاں مسلمان ووٹ دیتا ہے اور جہاں مسلم امیدوار ہوتا ہے وہاں یادو برادری کا نصف فیصد ووٹ بی جے پی کو پڑجاتا ہے، یہ حال سبھی برادریوں کا ہے اور اس وجہ سے مسلم امیدواروں کی شکست ہوجاتی ہے، کوئی کسی کے خلاف نہیں ہے؛ بلکہ نظریہ کی بات ہے۔
Like this:
Like Loading...