Skip to content
ملیشین وزیر اعظم نے ذاکر نائیک کی حوالگی پر پیش کی شرط.
حکومت ِ ہند ٹھوس ثبوت پیش کرے تو حوالگی پر غور کیاجاسکتا ہے: انور ابراہیم
نئی دہلی،21اگست (آئی این ایس انڈیا)
ہندوستان اور ملائیشیا کے تعلقات میں ایک اہم پیشرفت میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے اشارہ دیا ہے کہ اگر حکومت ہندمعروف اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کیخلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے تو ان کی حکومت انہیں بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست پر غور کر سکتی ہے۔منگل کو یہاں انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے ایک انٹریکٹو سیشن میں ابراہیم نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ ایک مخصوص سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ منگل کو حکومتی سطح کی بات چیت کے دوران ہندوستان کی طرف سے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ نائیک بھارتی حکام کو مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اور مبینہ نفرت انگیز تقاریر کے الزام میں مطلوب ہیں۔
انہوں نے 2016 میں ہندوستان چھوڑ دیا تھا۔ اسلامی مبلغ کو معمر سیاستداں مآثر محمد کی سابقہ حکومت نے ملائیشیا میں مستقل رہائش دی تھی۔ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کہا کہ پہلی بات کہ یہ مسئلہ (حکومت ہند طرف سے) نہیں اٹھایا گیا۔ وزیر اعظم (نریندر مودی) نے اسے بہت پہلے اٹھایا تھا، کچھ سال پہلے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک شخص کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں انتہا پسندی کے جذبات کی بات کر رہا ہوں، ایک ٹھوس کیس اور ثبوت جو کسی فرد یا گروہ یا گروہ یا جماعتوں کے مظالم کی نشاندہی کرتے ہوں، اس کی بات کر رہا ہوں۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت کسی بھی خیال اور ثبوت پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے، ہم اس سلسلے میں سخت رہے ہیں اور ہم دہشت گردی سمیت بہت سے معاملات پر ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس ایک معاملے کو ہمارے مزید تعاون اور دو طرفہ تعلقات میں رکاوٹ بننا چاہیے۔2022 میں ملائیشیا کا وزیر اعظم بننے کے بعد انور ابراہیم نے کل سے اپنے پہلے بھارت دورے کا آغاز کیا۔
ابراہیم نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر بھی تنقید کی اور مجموعی صورت حال کو مغربی ملکوں کی سراسر منافقت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی افواج کے مظالم یہ حقیقت ہے کہ 40,000 شہری شہید ہو چکے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں ایک بہت واضح پیغام دینا چاہیے کہ یہ منافقت ختم ہونی چاہیے۔ آپ یوکرین میں نسل کشی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے۔ یوکرین کے کچھ دیہاتوں پر بمباری اور غزہ میں 40,000 لوگوں کی ہلاکت کا موازنہ نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ سراسر منافقت ہے، یہ طویل مدت سے چل رہی ہے، لیکن اب اسے ختم ہوجانا چاہیے ۔
Like this:
Like Loading...