Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
waqf amendment bill 2024

وقف بل۔میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں!

Posted on 22-08-2024 by Maqsood

وقف بل۔میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں!

 

ازقلم:ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد۔
فون: 9395381226

مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے وقف بل کی ہر گوشے سے مذمت اور مخالفت کی جارہی ہے۔ اسے مسلم دشمن اور مخالف دستور بل بھی کہا جارہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح بعض ضمیر فروش نام نہاد مسلمانوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے اس متنازعہ بل کی حمایت بھی کی‘مگر بحیثیت مجموعی ہر گوشے سے ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ CAA کے خلاف کئے گئے احتجاج کی طرز پر وقف بل کے خلاف بھی احتجاج منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تمام اوقافی جائیدادیں مسلمانوں ہی کے قبضے میں رہیں‘ اور منشائے وقف کے مطابق اس کی آمدنی کا استعمال کیا تو کوئی بھی ہندوستانی مسلمان غریب یا محتاج نہیں رہے گا۔ خود بی جے پی قائد پریم شکلا نے کہا ہے کہ وقف بورڈ کے پاس اتنی زیادہ اراضی ہے‘ جس کا رقبہ 50ممالک کے رقبے سے زیادہ ہے۔ اس بی جے پی قائد نے اسے بھی جہاد سے جوڑتے ہوئے ”لینڈجہاد“ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وقف بل 2024ء کا مقصد اس لینڈجہاد کو روکنا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وقف کا معاشرے کی ترقی اور معاشی استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ لغات میں وقف کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ:
”کسی بھی چیز کی اصل کو روک کر رکھنے اور اس میں ہبہ یا وراثت کا تصرف نہ کرنے بلکہ کسی بھی قسم کا تصرف نہ کرنے کو وقف کہا جاتا ہے تاکہ اس چیز کے نفع کو منشائے وقف کے مطابق فلاح اور خیر کے کاموں میں استعمال کیا جاسکے“۔

وقف کا رواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں شروع ہوا جب آپ نے ایک نومسلم شخص مخریق کے باغات کو وقف فرمایا تھا۔ لہٰذا کوئی جائیداد یا کوئی بھی شئی فلاح کے مقصد کے لئے وقف کرنا بھی سنت نبوی میں شامل ہے۔ کئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اپنے باغات، زمینات اور مکانات کو بندگانِ خدا کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا تھا۔ کسی شئی کے وقف کرنے کے بعد وہ اپنی ملکیت سے خارج ہوجاتی ہے اور اللہ رب العزت کی رضا کے مقصد سے وقف کی جاتی ہے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب وقف کرنے والے کو ہمیشہ ملتا رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اہل ثروت حضرات نے مساجد، خانقاہوں، آستانوں، مدارس، شفاخانوں، یتیم خانوں کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں۔ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے‘ آزادی سے پہلے بھی 19ویں صدی میں جب انگریز حاکم تھے‘ انہوں نے وقف قانون میں کچھ اس طرح ترمیم کرنی چاہی کہ واقف کے اولاد کو اس سے بے دخل کیا جاسکے۔ اور وقف بل 2024 اُسی طرز پر ہے جس سے اس اندیشوں کو تقویت پہنچتی ہے کہ این ڈی اے حکومت وہی اقدامات کررہی ہے جو آزادی سے پہلے مسلمانوں کے خلاف انگریز کرنا چاہتے تھے۔

آزادی کے بعد 1954ء میں وقف قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا جسے 1995ء میں منسوخ کرکے نیا وقف ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس سے وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ ہوا تھا۔ اس ایکٹ نے بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے شدت سے مخالفت کی گئی تھی۔ ہری شنکر جین ایڈوکیٹ اور جیتندر سنگھ نے سپریم کورٹ میں وقف ایکٹ 1995ء کے خلاف عرضی داخل کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کو وقف اور وقف جائیدادوں کے لئے قانون وضع کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ٹرسٹس اور ٹرسٹ کی جائیدادوں اور مذہبی اداروں سے متعلق قوانین وضع نہیں کرسکتیں۔ ان عرضی گزاروں نے وقف بورڈ پر یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے دوسری ا راضیات پر بھی وقف ہونے کا دعویٰ کرکے ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ انہوں نے مسلم وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں جیسے جین، بودھسٹ سکھ، یہودی، بہائی، پارسیوں کو بھی اس ایکٹ کے تحت خصوصی موقف دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان عرضی گزاروں نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ وقف ایکٹ 1995ء سے اوقافی جائیدادوں کو خصوصی موقف ملتا ہے۔ جبکہ ہندو ٹرسٹس، آشرموں اور اکھاڑوں کی جائیدادوں کو اس قسم کا خصوصی موقف حاصل نہیں ہے۔ وقف بل 2024ء لگتا ہے کہ انہی مطالبات کی تکمیل ہے۔ بہرحال وقف ایکٹ 1995ء میں اس قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت وقف بورڈ کو لوگوں کی طرف سے وقف جائیداد کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ 7/فروری 2022ء کو اس وقت کے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے ہندوستان میں وقف جائیدادوں سے متعلق ایک سوال کے تحریری جواب میں انکشاف کیا تھا کہ ہندوستان کی 32 ریاستوں میں لگ بھگ 8لاکھ ایکر وقف اراضی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ریلویز اور ڈیفنس کے بعد سب سے زیادہ اراضی وقف بورڈس کے پاس ہے۔ جس میں سب سے زیادہ اترپردیش میں ہے جہاں سنی وقف بورڈ کے تحت ایک لاکھ 99ہزار 700 ایکر اور شیعہ وقف بورڈ کے تحت 15006 ایکر اراضی ہے۔ مغربی بنگال میں 80480ایکر تاملناڈو میں 60223 ایکر اراضی ہے۔ تامل ناڈو کے تروچراپلی ضلع کا ایک گاؤں تھیروچندورائی وقف اراضی پر آباد ہے جو 389ایکر پر پھیلا ہوا ہے جس میں 1500سالہ قدیم چندرشیکھرسوامی مندر بھی موجود ہے‘ جو 369ایکر رقبے پر تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد اور اس مندر کی تاریخ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ وقف بورڈ نے تاملناڈو کے پورے گاؤں کی وقف ملکیت کا قانونی طور پر دعویٰ کیا ہے۔ گجرات وقف بورڈ نے سورت میونسپل کارپوریشن کی عمارت پر بھی وقف کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ عمارت مغل دورِ حکومت سے عازمین حج کے سرائے کے طور پر وقف ہے۔ چنانچہ گجرات وقف بورڈ نے اس پر دعویٰ کیا ہے۔

بہرحال ایسی کوئی ریاست نہیں ہے جہاں اوقافی جائیداد نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر اوقافی اراضیات یا تو مقامی حکومتوں کے قبضے میں ہے یا لینڈ مافیا نے ان پر قبضہ کررکھا ہے اور بعض ان اوقافی جائیدادوں کے نگران، متولیان یا سجادگان نے فروخت کردیا ہے۔
این ڈی اے حکومت کا وقف بل یقینا نقصاندہ ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ اوقافی جائیدادوں کو خود ہمارے اپنے لوگوں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ آج دارالحکومت دہلی کا ہر بڑا مرکزی ادارہ اوقافی جائیدادوں پر ہے جسے حاصل کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ وقف بورڈس مقامی حکومت کے تحت قائم ہوتے ہیں۔ اور اس پر فائز کئے جانے والے عہدیدار حکومت کے وفادار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان عہدیداروں کو اوقافی جائیدادوں سے زیادہ اپنی کرسی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر وقف بورڈس کے عہدے خریدے جاتے ہیں اور یہ عہدیدار دیکھتے ہی دیکھتے کم از کم کروڑپتی بن جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا آخری وقت عبرتناک ہوتا ہے۔ اللہ کے لئے وقف کی گئی جائیدادوں کے استحصال کی انہیں دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت کا حال تو صرف خدا ہی جانتا ہے۔ ہم نے وقف بورڈ کے ایسے کئی عہدیداروں کو دیکھا جو دولت مند تو بن گئے مگر ان کے گھر بکھر گئے۔ اولاد نکمی، نالائق نکلی، بے راہ روی کا شکار ہوئی۔ اور وہ عناصر جنہوں نے ناجائزقبضے کئے یا جنہوں نے اوقافی جائیدادوں کو ناجائز طریقے سے فروخت کیا انہیں دولت تو مل گئی مگر ذہنی سکون سے ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئے۔
خود ہمارے اپنے شہر کی اوقافی جائیدادوں کا جائزہ لیجئے۔ درگاہ حضرت حسین شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کی جائیدادوں کو جس طرح سے ملٹی نیشنل کمپنی کو فروخت کیا گیا اور جان بوجھ کر سپریم کورٹ میں مقدمہ ہارا گیا۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟

اوقافی امور پر غیر معمولی اتھاریٹی کے حامل صحافی اطہر معین کے الفاظ میں درگاہ حضرت بابا شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ، عاشور خانہ حضرت علی سعد مامڑپلی، مسجد وعیدگاہ عالمگیر، ہوٹل مریاٹھ (وائسرائے)، مسجد الماس پہاڑی شریف، مہیشورم میں جماعت اسلامی کی اراضی سے متعلق مقدمات کیسے ہار گئے۔ یہ سب جانتے ہیں۔ اس کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کیوں نہیں کروائی جاتیں۔ درگاہ حضرت حسین شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کی اراضی پر لینکوہلز کا مقدمہ آندھراپردیش ہائی کورٹ میں شفیق مہاجر ایڈوکیٹ نے اپنی زبردست مدلل بحث سے جیتا تھا مگر سپریم کورٹ میں انہیں کیوں ہٹادیا گیا کیا کبھی کسی نے اس پر غور کیا۔

آج وقف بل کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ اجلاس منعقد ہورہے ہیں۔ اس میں شرکت کرنے والے کتنے ہی ایسے ہیں جو خود وقف اراضی پر قابض ہیں۔ کسی کے پاس وقف کے کئی کئی مکانات، ملگیاں ہیں۔ وہ معمولی کرایہ دے رہے ہیں۔ اور اپنے کرایہ داروں سے بھاری بھرکم رقم وصول کررہے ہیں۔ کیا یہ لوگ ناانصافی کیخلاف آواز اٹھاسکتے ہیں؟ جنکے اپنے ضمیر نیم مردہ ہوچکے ہیں جنہیں خوفِ خداور جوابدہی کا احساس نہیں‘ وہ کیا آواز اٹھائینگے‘ کیا احتجاج کرینگے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ این ڈی اے نے وقف بل2024ء اپنے حواریوں کو بچانے کے لئے لایا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ متنازعہ بِل کا مقصد امبانی کے عالیشان محل نما ”انتیلیہ“ کو بچانا ہے، جو وقف کی زمین پر ہے، جس کا مقدمہ عدالت میں زیر دوران ہے۔ اس مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی غرض سے یہ بِل لایا جارہا ہے۔ انتیلیہ4532اسکور میٹر (1.120ایکر) رقبہ پر تعمیر کیا گیا۔ یہاں پہلے ایک یتیم خانہ تھا، جس کا نام کریم بھائی ابراہیم خواجہ یتیم خانہ تھا۔ جو وقف بورڈ کے تحت قائم تھا۔ یہ یتیم خانہ ایک دولت مند کریم بھائی ابراہیم نے قائم کیا تھا جو سمندری جہازوں کے مالک تھے۔ 2002میں مکیش امبانی نے یہ زمین 21.5کروڑ روپیے میں خریدی تھی۔ اس پر وقف بورڈ نے سوال اٹھایا۔ ایوانِ پالیمان میں بھی ایک مسلم رکن انیس احمد نے امبانی کے گھر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے زمین وقف بورڈ کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حکومت نے کارروائی کا اعلان کیا تھا، اور ریٹائرڈ جج جسٹس شیخ نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ بات مان لی تھی کہ زمین کی خریدی کا معاملہ غیر قانونی تھا۔ معاملہ اب بھی ہائیکورٹ میں زیر دوران ہے۔ وقف بِل کا مقصد مکیش امبانی کی غیر قانونی خریداری کو قانونی طور پر جائز قرار دینا ہے۔ اس معاملت کی تحقیقات کے لئے مسلم ارکان کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی، ان میں تے زیادہ تر نیاپنے ضمیر بیچ دیئے تھے۔ آج کی تاریخ میں اس اوقافی اراضی کی قیمت کم از کم 85ہزار کروڑ روپیے ہے، مسلمانوں کی اس امانت پر امبانی نے 27منزلہ محل تعمیر کرلیا، جس کی لاگت آج ڈھائی بلین ڈالرس ہے۔

ہندوستان میں آٹھ لاکھ ایکر کے لگ بھگ وقف اراضی جو32اوقاف بورڈس کے تحت ہیں۔ تاج محل بھی 2008میں وقف پراپرٹی قرار دی گئی ہے جسکے ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
وقف ایکٹ 2024ء کے تحت وقف ٹریبونل میں غیر مسلم رکن کو بھی شامل کیا گیا ہے حالانکہ اوقاف کے معاملات شرعی قانون کے تحت طے ہوتے ہیں۔
بہرحال! وقف قانون 2024ء ناقابل قبول ہے۔اس کے خلاف یقینی طور پر احتجاج کیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتیں بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بل واپس لیا جاسکے گا؟ یا جس طرح گزشتہ دس برس کے دوران ہندوستانی مسلمانوں نے بہت کچھ کھودیا‘ اسی طرح اپنی اوقافی جائیدادوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی؟ اس کا انحصار قوم کے شعور کی بیداری اور ضمیر کے زندہ ہونے پر ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb