بی جے پی انصاف نہیں اقتدار چاہتی ہے.
اس کے لئے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہے .
ازقلم: عبدالعزیز
پاکستان میں اس وقت سب سے مقبول سیاسی لیڈر سابق وزیر اعظم عمران خان ہیں اور سب سے زیادہ قابل قبول پارٹی ’پاکستان تحریک انصاف‘ ہے۔ اس کے باوجود وہاں کے ممتاز و معروف صحافی اور اینکر منصور علی خان نے کہا اور لکھا ہے کہ ’’اگر ہم سے کوئی عمران خان اور ان کی سیاست کے بارے میں پوچھے تو ہم کہیں گے کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی ایسی تربیت کی ہے جس سے پاکستان کا سیاسی ماحول سب سے زیادہ پراگندہ ہوا ہے۔ ان کا ہر قصور معاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ قصور ایک ایسا قصور ہے جو قابل معافی نہیں ہے‘‘۔ یہ بات تو پاکستان کے پس منظر میں کہی گئی ہے لیکن ہندستان میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے بارے میں بھی کم و بیش یہی بات کہی جاسکتی ہے جو ایک صحافی اور اینکر نے اپنے ملک کے بارے میں کہی ہے۔
کلکتہ کی ایک جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل جس درندگی اور فحاشی کے ساتھ ہوا ہے اس کی مذمت جس قدر کی جائے کم ہے۔ اس کے خاندان کو انصاف دلانے کے لئے احتجاج اور مظاہرے جو ہندستان بھر میں ہوئے ہیں اور کلکتے میں بھی ڈاکٹروں کے ذریعے آج تک ہورہے ہیں انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے اور ہر طرح سے اس کی حمایت کی جاسکتی ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی طرف سے سیاسی اپنے مفاد اور فائدے کے لئے جو احتجاج و مظاہرے ہورہے ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہیں۔ ان کے مظاہروں یا احتجاجوں میں نعرہ تو یہ لگایا جارہا ہے کہ ’’ہم انصاف چاہتے ہیں‘‘جبکہ یہ سیاست اور اقتدار چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز (27/8)کلکتہ اور آس پاس کے علاقے میں جس طرح کا ننگا ناچ ، ہنگامہ خیزی اور تشدد برپا کیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایک ایسی پارٹی ہے جو سیاست کے لئے سب کچھ کر سکتی ہے ۔ ہر طرح کی زبان، ہر طرح کا نعرہ ، ہر طرح کا مظاہرہ اور ہر طرح سے فتنہ و فساد کرنے پر آمادہ ہوسکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی ایم پی کی گیارہ سال کی ایک بچی ہے اس کے بارے میں بی جے پی کے ایک ورکر نے اعلان کیا تھا کہ ’’ابھیشیک کی بچی کے ساتھ جو ریپ (عصمت دری) کرے گا اس کو 50ہزار روپئے کا انعام دیا جائے گا‘‘۔ بی جے پی کے لیڈران سب سے زیادہ ریپ کے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں اور صرف ملوث ہی نہیں پائے جاتے بلکہ اگر کسی مسلم یا دلت کی لڑکی کے ساتھ ریپ ہوتا ہے تو ظالم کی ہمدردی میں اور اس کو بچانے میں پیش پیش ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک بد زبانی، گالی گلوچ اور مغلظات بکنے کی بات ہے اس میں بھی بی جے پی کے کارکنان اور لیڈران بدنام زمانہ ہیں۔ 2014ء کے بعد بی جے پی کی کمان پورے طور پر نریندر مودی کے ہاتھ میں آگئی اور نریندر مودی خود اس معاملے میں اپنے پریوار کی تربیت خود وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ ان کے کردار کی دو رخی اور منافقانہ پن بھی وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ چند سال پہلے دہشت گردی کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کی تعریف میں کہا تھا کہ ’’ناتھو رام گوڈسے دیش بھکت تھے‘‘۔ نریندر مودی نے اس پر اپنے رد عمل کو ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انھیں پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی باتوں سے دلی صدمہ پہنچا ہے اور یہ اتنا بڑا صدمہ ہے کہ وہ بھلا نہیں سکتے‘‘ مگر انھوں نے پرگیہ ٹھاکر کو اپنی پارٹی سے نکالا اور نہ ہی کوئی جواب طلب کیا۔ دو تین روز پہلے بی جے پی کی ایم پی اور فلم اداکارہ کنگنا رناوت نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ’’کسان آندولن کے موقع پر اگر بی جے پی کے سربراہ دانش مندی سے کام نہیں لئے ہوتے تو بنگلہ دیش جیسی صورت حال ہندستان میں پیدا ہوسکتی تھی۔ اس آندولن کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا بھی ہاتھ تھا۔ کسانوں کے آندولن میں ریپ بھی ہوتا تھا اور لاشیں بھی دکھائی دیتی تھیں‘‘۔
ایک ایسی عورت جو اپنے کردار و اطوار کی وجہ سے بدنام زمانہ ہو اور اپنے جسم کی نمائش سے پیسے کماتی ہو ۔ کسانوں کے آندولن کو جس میں سات آٹھ سو کسان ہلاک ہوئے ہیں ان کے لئے اپنی غلیظ اور گندی زبان استعمال کر رہی ہے۔ اس بدنام زمانہ ایکٹریس کے مغلظات اور بدگوئی پر بھی نریندر مودی اور امیت شاہ چپی سادھے ہوئے ہیں۔ لوک سبھا کے اندر دانش علی سابق ایم پی کو مخاطب کرکے جس طرح کی بدزبانی بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری نے لوک سبھا کے بھرے اجلاس میں کی تھی وہ ایک ایسی بدزبانی اور بدگوئی تھی جو حقیقت میں دنیا کے سارے مسلمانوں کے خلاف تھی۔ رمیش بدھوری کے خلاف بھی نہ لوک سبھا کے اسپیکر نے کوئی کارروائی کی اور نہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے بروقت روکنے ٹوکنے کی زحمت گوارا کی اور نہ بعد میں پارٹی کی طرف سے اس کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔
بی جے پی کی ایک خاتون ایم پی سادھوی نرنجن جیوتی نے 2014ء میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’جو لوگ حکومت کے پیروکار نہیں ہیں وہ حرام زادے ہوتے ہیں‘‘۔ بی جے پی کے ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ، گری راج سنگھ جیسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو مسلمانوں کی دشمنی میں زہر اگلتے رہتے ہیں اور مغلظات بکنے کے لئے فرقہ پرستوں سے پذیرائی کے طالب ہوتے ہیں۔ نریندر مودی ان سب کی پذیرائی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس وقت آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما اسی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بی جے پی کے دیگر لوگ بھی ایم ایل اے، ایم پی اور وزیر بننے کے لئے ایک دوسرے زیادہ زہر افشانی اور گالی گلوچ کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔
مغربی بنگال میں آرجی کر میڈیکل کالج اور اسپتال کے سانحے کو بی جے پی جس طرح ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے اس کی بدنامی بڑھتی جارہی ہے اور لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ ’کسی کی جان جائے، ’بی جے پی‘ کی ادا ٹھہرے‘ والی بات ہے۔ بی جے پی کی ایک منافقانہ ادا کو ہر کوئی سمجھنے لگا ہے۔ مغربی بنگال کے لوگ بھی اسے سمجھنے سے قاصر نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی نے بنگال میں جو سی پی ایم اور کانگریس کی جگہ پُر کی ہے اس سے ریاست کا ماحول پہلے کے مقابلے میں زیادہ پراگندہ بنانے میں کامیاب ہے۔ اس کی پراگندگی اور طاقت کو ہر طرح سے روکنے کی ضرورت ہے۔ ایسا اگر نہیں کیا گیا تو بی جے پی اور آر ایس ایس مغربی بنگال اتر پردیش اور گجرات بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068