Skip to content
بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کی خبریں افواہ تھیں:حقائق تفتیش کار
ڈھاکہ، 30اگست ( آئی این ایس انڈیا )
بنگلہ دیش میں حقائق کی جانچ کرنے والے محققین شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد ہجوموں کے تشدد کی رپورٹنگ کرنے والے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی متعدد ایسی رپورٹس کو غلط قرار دے رہے ہیں جن میں کہا گیاہیکہ ملک کی ہندو اقلیت کو ان کے عقیدے کی وجہ سے ہدف بنایا گیا تھا۔وہ خبریں جرمنی اور برطانیہ کے دور دراز ؤٹ لیٹس میں شائع ہوئی تھیں،جہاں سات اگست کو گارڈین نے خبر دی تھی کہ بھارت کے سوشل میڈیا پر ہجوموں کے ہاتھوں ہندؤں کے مارے جانے، مندروں کو جلائے جانے اور کاروباروں کی لوٹ مار کی تصاویر کی بھر مار ہو گئی ہے، اگرچہ حملوں کے مکمل پیمانے کا ابھی پتہ نہیں چلا ہے۔
امریکہ میں بنگلہ دیشی امریکی ہندؤں نے ڈیٹرائٹ میں ایسے بینرز کے ساتھ مارچ کی جن پرلکھا تھا کہ ہندؤں کو مارنا بند کرو اور بھارتی نژاد امریکی قانون ساز رو کھنہ نے اس ماہ فیس بک اور یوٹیوب پر مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت بنگلہ دیش میں ہندؤں کے تحفظ کے اقدام کرے۔یہ الارم ہندو اکثریت کے حامل بھارت میں سب سے زیادہ شدت سے سنائی دیا، جہاں دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اتر پردیش، مہاراشٹر اور دوسری ریاستوں میں ان حملوں پر احتجاج کے لیے ریلیاں نکالیں،جو بقول ان کے ”ہندوو?ں پر اسلام پسندوں کیفرقہ وارانہ حملے” تھے۔
خود بنگلہ دیش میں، ہندو، بودھوں اور مسیحیوں کے اتحاد کی انٹر نیشنل بین العقائد کونسل،،’انٹر فیتھ ہندو بودھسٹ کرسچن یونٹی کونسل‘ نے بھی خطرے کے احساس کو تسلیم کیا۔ کونسل نے 9 اگست کو ایک کھلے خط میں کہا، ”ملک بھر کی اقلیتیں سخت تشویش، پریشانی اور غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔نوبل انعام یافتہ، محمد یونس کی زیر قیادت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے فوراً بعد ایک باضابطہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کچھ مقامات پر مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو گہری تشویش کے ساتھ نوٹ کیا گیا ہے۔رائٹرز کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ نئی کابینہ فوری طور پر نمائندہ اداروں اور دوسرے متعلقہ گروپس کے ساتھ بیٹھ کر ایسے قابل نفر ت حملوں کے سدباب کے طریقے تلاش کرے گی۔‘
یہ بات تو واضح ہے کہ ہجوموں کے تشدد میں لوگ ہلاک ہوئے اور عمارتیں جلائی گئیں، لیکن حقائق کی جانچ کرنے والے بنگلہ دیشی تفتیش کاروں کے تفصیلی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر متاثرین کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نہیں بلکہ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیاتھا جس سے بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی تھی۔بنگلہ دیش میں ہندؤں نے بھاری اکثریت سے حسینہ اور ان کی جماعت کی حمایت کی تھی جس کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ڈھاکہ میں قائم حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیم، ’ڈسمس لیب‘ کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ منہاج امان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ شیخ حسینہ کے زوال کے بعد، لوگوں نے اپنا غصہ پولیس اور اس کی پارٹی کے مسلمان اور ہندو دونوں ارکان پر نکالا۔
لہٰذا ہجوموں نے جماعت سے وابستہ افراد پر حملہ کرتے ہوئے کچھ ہندو گھرانوں پر بھی حملہ کیا۔بنگلہ دیش میں مقیم فرانسیسی خبر رساں ادارے سے وابستہ حقائق کی جانچ کرنے والے تفتیش کار قادرالدین نے کہاکہ ممکن ہے کہ ہجوم میں چھپے کچھ لوگوں نے بعض گھرانوں کو صرف گھرکا سامان لوٹنے یا چوری کرنے کے لیے نشانہ بنایا ہو، جیسا کہ چھوٹے جرائم پیشہ افراد کرتے ہیں۔لگ بھگ دو درجن ہندو مذہبی تنظیموں پر مشتمل، بنگلہ دیش نیشنل ہندو گرینڈ الائنس نے بھی مذہبی محرک نہ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔
الائنس نے کہا کہ اس کے اکٹھے کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق ہجوموں نے ہند ؤں کی 278 املاک کی توڑ پھوڑ کی ؛لیکن اس کے سیکرٹری جنرل گوبندا پرمانک نے وی او اے کو بتایا کہ 5 اگست کے بعد ہجوموں نے عوامی لیگ کے حامی مسلمان گھرانوں پر اس سے پانچ سے سات گنا زیادہ حملے کئے۔خیال رہے کہ ہندوستان کے کئی میڈیا ہاؤسز نے بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر حملے کوبڑے پیمانے پر کوریج دے کر ملک بھر میں مسلم مخالف ماحول سازی کی کوشش کی تھی۔
Like this:
Like Loading...