ماب لنچنگ، جو کسی بھی فرد یا گروہ کو بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کرنے کا عمل ہے۔ ماب لنچنگ کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ یہ عمل صدیوں سے مختلف معاشرتی گروہوں اور اقوام میں ظلم و ستم کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ہندوستان میں مذہبی تعصبات کی بنیاد پر ہونے والے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعات اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں جب مقتولین کا تعلق اقلیتی طبقے، خاص طور پر مسلمانوں سے ہو، اور حملہ آور کسی مذہبی جنونیت کا شکار ہوں۔
گائے اسمگلنگ کے شبہ میں گئو رکھشکوں نے ایک 19؍ سالہ 12؍ ویں جماعت کے طالب علم آرین مشرا کو تقریباً 20؍ کلومیٹر تک تعاقب کرکے گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ آرین مشرا کی غمزدہ ماں نے غمزدہ انداز میں کہا کہ میرے بیٹے کو مسلمان سمجھ کر گولی مار دی، کیا مسلمان انسان نہیں ہے، کیا ہمارے بھائی نہیں؟ تم مسلمان کو کیوں مارو گے؟ مسلمان ہماری حفاظت کرتے ہیں، ہمارے دکھ اور مصیبت میں ہماری مدد کرتے ہیں، ہمارے پڑوس میں رہتے ہیں۔ آرین مشرا کی ماں کا بیان اس درد کی گہرائی کو بیان کرتا ہے جو کسی بھی انسان کو اپنے پیاروں کی جدائی سے ہوتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو۔ ان کا سوال کہ "مسلمان انسان نہیں ہیں؟” ہمارے سماج میں رائج مذہبی تعصبات پر ایک اہم تنقید ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارہ اور ان کی مدد کی روایات کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب کے نام پر انسانوں کی تقسیم غیر منطقی اور غیر انسانی ہے۔
نفرتوں کے اندھیروں میں کیا رہنا ہے؟
کیا بس خون بہا کر سکون ملنا ہے؟
کسی ماں کے دل کا درد سمجھو،
یہی انسانیت کا سب سے بڑا خزانہ ہے
آرین مشرا کے قتل کا یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستانی سماج میں مذہبی منافرت کس حد تک گہری ہو چکی ہے اور کس طرح بے گناہ لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ آرین مشرا کا قاتل انل کوشک جب یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے آرین کو مسلمان سمجھ کر قتل کیا اور بعد میں برہمن ہونے کا علم ہونے پر افسوس کیا، تو یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مذہبی بنیاد پر تفریق اور نفرت کس طرح انسانی اقدار کو ختم کر رہی ہے۔ کوشک کو بجرنگ دل کے دیگر چار غنڈوں کے ہمراہ گرفتار کیا گیا ہے۔ انل کوشک کا سیانند مشرا کے سامنے پاؤں چھونا اور معافی مانگنا نہ صرف ان کی ذاتی ندامت کا اظہار ہے بلکہ ایک ایسا مسئلہ بھی اجاگر کرتا ہے جس میں مذہبی جنونیت کے زیر اثر لوگ انسانیت سے دور ہو جاتے ہیں۔ "فرید آباد کا مونو مانیسر” کہلائے جانے والے انل کوشک کی شہرت اور اس کے مسلم دشمنی کے واقعات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اس نفرت انگیز نظریے کو فروغ دینے والے عناصر کو روکنا ضروری ہے۔
انل کوشک کا اپنے فعل پر افسوس کرنا اور آرین کے برہمن ہونے کی وجہ سے معافی مانگنا اس بات کا عکاس ہے کہ کس طرح مذہب کو بنیاد بنا کر انسانوں کی قدرو قیمت طے کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مذہبی بنیاد پر تقسیم اور نفرت کس حد تک انسانی اقدار کو نقصان پہنچا چکی ہے، اور یہ مسئلہ نہ صرف مسلمانوں تک محدود ہے بلکہ اب ہندو برہمن بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
یہ افسوسناک ہے کہ گائے کے اسمگلر ہونے کے محض شک کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنانا، اور صرف اس وجہ سے معافی مانگنا کہ وہ برہمن تھا، سماج میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تعصبات کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ملک میں رواداری اور بھائی چارے کی اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور ہمیں بطور سماج ان تعصبات کو ختم کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ گئو رکھشکوں کی بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور ان کے غیر انسانی عمل کے نتائج اب مذہب کی بنیاد سے آگے بڑھ کر پوری انسانیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس طرح کے حملے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ نفرت کسی خاص طبقے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ پوری سوسائٹی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اس بار گئو رکھشکوں کے حملہ میں کسی مسلمان کی جان نہیں گئی تھی بلکہ ایک ہندو برہمن نوجوان کو قتل کیا گیا تھا، گودی میڈیا میں بحث کا موضوع رہا، اگر ملک میں کوئی مسلم شخص کی ماب لنچنگ ہوتی یا اسے گولی مار کر گئو رکھشک قتل کر دیتے تو یہ عام بات ہوتی، اس معاملہ پر گودی میڈیا میں خاموشی چھائی رہتی کوئی بحث نہیں ہوتی۔ آرین مشرا کے قتل نے ایک بار پھر ہمارے سماج کے دوہرے معیارات کو عیاں کر دیا ہے۔ اس واقعے نے یہ ظاہر کیا کہ مذہبی منافرت پر مبنی حملے اور ماب لنچنگ کے واقعات کو کس طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر ایک مسلمان مارا جاتا تو یہ بات زیادہ اہمیت نہ پاتی، کیونکہ اس قسم کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن جب ایک ہندو برہمن کو مسلمان سمجھ کر قتل کر دیا گیا تو میڈیا اور سماجی حلقوں میں یہ مسئلہ فوری طور پر بحث کا مرکز بن گیا۔
"اب تو پانی سر سے اوپر ہوتا جارہا ہے”۔ اس بیان پر کمار وشواس جو کہ ایک معروف شاعر اور سیاسی شخصیت ہیں، انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ تنقید اس بات کی غماز ہے کہ عوام اور میڈیا کس طرح مختلف طبقوں اور مذاہب کے افراد کے ساتھ پیش آنے والے سانحات پر ردّعمل ظاہر کرتے ہیں۔ میں سوال کرتا ہوں، کیا ان کا ضمیر صرف برہمن کا خون بہنے کے بعد جاگتا ہے، جب کہ ہزاروں مسلمانوں کے قتل پر انہوں نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مذہبی اور طبقاتی تعصبات ہمارے معاشرے میں کتنے گہرے ہیں، اور کس طرح اہم مسائل پر لوگوں کا ردّعمل طبقاتی وابستگیوں کے تحت بدلتا ہے۔
کمار وشواس، کو اس معاملے پر واضح موقف نہ اپنانے پر تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ ان کی خاموشی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم پر سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کمار وشواس کے حالیہ بیان اور اس کے بعد ہونے والی تنقید نے ایک اہم مسئلے کو اجاگر کیا ہے، جو کہ معاشرے میں موجود فرقہ وارانہ تعصبات اور ترجیحات سے متعلق ہے۔ یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا ہمارے سماج میں انسانی جان کی قدر و قیمت مذہب یا ذات کی بنیاد پر مختلف سمجھی جاتی ہے؟ کمار وشواس جیسے معروف شخصیات کو سماج کے تمام طبقات کے لیے یکساں آواز اٹھانی چاہیے تاکہ انصاف اور انسانیت کا تحفّظ یقینی بنایا جا سکے۔
"اب تو پانی سر سے اوپر ہوتا جا رہا ہے” جیسے بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تشدّد اور اس کے اثرات کسی ایک طبقے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ پوری سوسائٹی کو متاثر کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی تعصب سے بالاتر ہو کر انسانیت اور انصاف کی بات کرنا ضروری ہے۔
آرین مشرا کی ماں کے دردناک الفاظ اور اس واقعے کا ذکر ہمارے معاشرے میں مذہبی تعصب، فرقہ واریت، اور انسانیت کی کمی کو بے نقاب کرتا ہے۔ "کیا مسلمان انسان نہیں ہیں؟” یہ سوال نہ صرف آرین مشرا کی ماں کے ذاتی دکھ کا عکاس ہے بلکہ ایک وسیع سماجی مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ اس واقعے میں آرین کو مسلمان سمجھ کر قتل کیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر کسی انسان کی جان لینا ہمارے معاشرے میں معمول بنتا جا رہا ہے۔
آرین مشرا کے قتل کا یہ واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر قتل جیسے سنگین جرائم محض ایک مخصوص طبقے کے خلاف نہیں ہوتے، بلکہ اس تعصب کا شکار کوئی بھی انسان ہو سکتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو۔ آرین کی ماں کا بیان اس انسانی پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ مسلمان اور ہندو صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی میں شریک ہیں۔ اس کے باوجود، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش میں ہے۔
انل کوشک جیسے لوگوں کی ذہنیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح بعض گروہ مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلا کر سماج میں تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر اس انسان کے لیے خطرہ ہیں جو اس طرح کی تفریق کا شکار ہو سکتا ہے۔ آرین مشرا کے قتل نے ایک بار پھر سماج کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں مذہب کی بنیاد پر انسانیت کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔
کمار وشواس کی تنقید اور اس معاملے پر ان کے بیان نے یہ بات واضح کی کہ فرقہ وارانہ تشدد کی سنگینی کو سمجھنے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کا بیان "اب تو پانی سر سے اوپر ہوتا جا رہا ہے” یہ بتاتا ہے کہ سماج میں موجود منافرت کسی بھی طبقے کو نشانہ بنا سکتی ہے، اور جب تک ہم فرقہ وارانہ تقسیم اور نفرت کے خلاف متحد ہو کر آواز نہیں اٹھائیں گے، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
آرین مشرا کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر قتل عام یا ماب لنچنگ کسی مخصوص طبقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلم اُمّہ اس نفرت کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا اور انصاف کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہر انسان کی جان اور عزت کو یکساں اہمیت دی جائے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com
2 thoughts on “ماب لنچنگ: مذہبی تعصبات کے خطرناک نتائج”
ماشاء اللہ مضمون بہت اچھا اور قابل قدر اور بہت اہم ہے لیکن اس کو شیر کرتے ہوئے یہ بات مانع ہو رہی ہے کہ اس ویب سائٹ پر فحش ایڈز کی بھرمار ہے
ماشاء اللہ مضمون بہت اچھا اور قابل قدر اور بہت اہم ہے لیکن اس کو شیر کرتے ہوئے یہ بات مانع ہو رہی ہے کہ اس ویب سائٹ پر فحش ایڈز کی بھرمار ہے
فحش اڈورٹائزمنٹ آپ کے گوگل سرچ اور کوکیز کا کمال ہے۔۔۔فحش ایڈورٹائزمنٹ ہماری ویب سائٹ اور ہمارے کمپیوٹر پر نظر نہیں آرہی ہیں۔۔