Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
How did Sanghs Kamandals chariot get stuck in mandals chakravyuh

سنگھ کے کمنڈل کا رتھ منڈل کے چکرویوہ میں کیسے پھنس گیا ؟

Posted on 09-09-2024 by Maqsood

سنگھ کے کمنڈل کا رتھ منڈل کے چکرویوہ میں کیسے پھنس گیا ؟

 

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

 

منڈل کمیشن کو نافذ کرنے والے ملک کے آٹھویں وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ کہا کرتے تھےکہ سماجی تبدیلی کی جو مشعل انہوں نے جلائی ہے اور اس کے اجالے میں جو آندھی اٹھی ہے، اس کا منطقی انجام تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ پینتالیس سال بعد اس بیان کا ایک ایک حرف درست ہوگیا۔ وی پی سنگھ کی حکومت کی جانب سے پس ماندہ ذاتوں کے لیے ملازمت کے کوٹے پر عمل درآمد کے اعلان کو آر ایس ایس اور بی جے پی ہندوؤں کو تقسیم کرنے کوشش تصور کیا ۔ سنگھ کے خیال میں یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہندوؤں کے ووٹ بینک کی تقسیم کا بھی باعث بن تھی۔

 

اس لیے آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہندوؤں کی سماجی وحدت قائم رکھنے کے اپنے مشترکہ ہدف کی خاطر اس کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا تھا مگر اب جبکہ منڈل کمیشن کے حقیقی نفاذ کےلیے ذات پات کی مردم شماری کا مطالبہ ہورہا ہے تو سنگھ پریوار میں اقتدار کے باوجود ہمت نہیں ہے کہ اس کی مخالفت کرسکے ۔ یہ بظاہر بہت زیادہ مضبوط نظر آنے والے فسطائیوں کی زبردست کمزوری کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ آنجہانی وی پی سنگھ کی یہ پیشنگوئی صد فیصد سچ ثابت ہوچکی ہے کہ ’ابھی توبس سیمی فائنل ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ فائنل ان کے بعد ہو۔ لیکن اب کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک پائے‌گی‘۔ کمنڈل والوں میں آج منڈل کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں ہے اس لیے بادلِ ناخواستہ حمایت کررہے ہیں ۔

 

2014کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں جب پہلی بار بی جے پی خود اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آئی تو سنگھ پریوار کے اندر ریزرویشن کو اکھاڑ پھینکنے کے ارمان جاگ گئے۔ سال 2015 میں دی ہندو سے بات کرتے ہوئے آر ایس ایس مفکر ایم جی ویدیہ نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ریزرویشن کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ موصوف کا دعویٰ تھا کہ اب ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ کوئی بھی ذات پسماندہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ، ایس سی اور ایس ٹی کے لیے اسے (ریزرویشن) جاری رکھیں، وہ بھی صرف 10 سال کے لیے۔ اس کے بعد اسے (ذات پر مبنی ریزرویشن) مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

 

اس بیان کو دس سال ہوچکے ہیں اس لیے ویدیہ صاحب کو اپنا مطالبہ دوہراکر یاد دلانا چاہیے کہ ذات کی بنیاد پر ریزرویشن نے ذات پات کی تقسیم کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید فروغ دیا ہے۔ ایم جی ویدیہ نے اگر ایسی جرأت کردی تو بعید نہیں کہ آر ایس ایس ریزرویشن کے بجائے موصوف کی رکنیت ختم کردے۔

 

سال 2015 میں ہی خود سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے بھی الزام لگایا تھا کہ ریزرویشن پالیسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے اس پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔انہوں نے اپنی تنظیم کے ترجمانوں ‘پانچ جنیہ’ اور ‘آرگنائزر’ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ریزرویشن کی ضرورت پر غور کرنے کے لیے اور اس کی ڈیڈ لائن مقرر کرنے کی خاطر ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے۔

 

اس میں سماج کے نمائندوں کو شامل کرکے انہیں یہ طے کرنے کا اختیار دیا جائے کہ کتنے لوگوں کو کب تک ریزرویشن دینے کی ضرورت ہے ۔موہن بھاگوت نے چونکہ یہ ناعاقبت اندیش بیان بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے دیا تھا اس لیے سیاست میں بھونچال آگیا ۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے بجا طور پر بی جے پی اور سنگھ پر ریزرویشن ختم کرنے کی تیاری کا الزام لگادیا تھا۔ اس سے گھبرا کر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے موہن بھاگوت کے بیان پر وضاحت پیش کی تھی مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔ بی جے پی کو اس وقت انتخابات میں زبردست نقصان اٹھانا پڑا تھا اورجے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس کے اتحاد نے ایک بہت بڑی جیت درج کروا کر مودی کا طلسم توڑ دیا تھا۔

 

بہار کی شکست کے فوراًبعد کم از کم تین بی جے پی ارکان پارلیمان نے اس ہار کے لیے ریزرویشن پالیسی پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ‘بے وقت’ کی راگنی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ مدھوبنی کے ایم پی حکم دیو نارائن یادو اور بکسر کے ایم پی اشونی کمار چوبے نے کہا تھا کہ اس بیان کے بعد لوگ ’بی جے پی کو آر ایس ایس کا غلام‘ سمجھنے لگے تھے۔ان دونوں بہاریوں کے علاوہ ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شانتا کمار اور رکن پارلیمان نے اس ہار کو صوبہ دہلی میں شکست سے جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیر ایماندارانہ اورعدم سنجیدگی سے غوروخوض نہ کرنے کی غلطی کا نتیجہ ہے ۔

 

موہن بھاگوت کا تبصرہ بھی اس شکست کے لیے ذمہ دار ہے۔ 2019 میں ریزرویشن کے تعلق سے موہن بھاگوت نےمحتاط اندازمیں کہا تھا کہ اس بابت خوشگوار ماحول میں بات چیت ہونی چاہیے۔ اس پرکانگریس نے ریزرویشن کو لے کر بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا تو پلٹی بازسنگھ پریوار نے خوفزدہ ہوکر موہن بھاگوت کے مبینہ ویڈیو کو فرضی قرار دےدیا تھا مگر اب تو حمایت ہی کردی۔

 

وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف بغاوت کرکے الگ ہونے والے وی پی سنگھ نے وزیر اعظم بنتے ہی اپنے پہلے پیغام میں عوام سے کہا تھا’آج میں جنت لانے کا وعدہ تو نہیں کر سکتا، لیکن یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک بھی روٹی ہوگی تو اس میں پورے ملک والوں کا منصفانہ حق متعین کیا جائے‌گا اور ترقی کے فائدوں کی منصفانہ تقسیم ہوگی‘۔ وی پی سنگھ کا یہ عزم بتاتا ہے کہ منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنا ان کی کوئی سیاسی مجبوری نہیں بلکہ ایک مقدس مقصد کے حصول کی خاطر دیکھا جانے والا خواب تھا ۔

 

انہوں نے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر یعنی مساوات یا منصفانہ تقسیم کے لیے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کرنے کا اعلان کیا تو جیسے قہربرپا ہو گیا۔ پارٹی کے اندر دیوی لال اور باہر لال کرشن اڈوانی نے دوطرفہ حملہ کردیا۔ فرقہ پرستی اور سیکولرزم کے درمیان کھلی جنگ چھڑ گئی اور اس میں انہیں اپنا عہدہ گنوانا پڑا لیکن اس کی پروا کیے بغیر انہوں نے دوٹوک انداز میں کہاتھا کہ’’ بھلےہی گول کرنے میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی، لیکن گول تو ہوکر ہی رہا‘‘۔ وی پی سنگھ نے اقدار کی خاطر سرکار کو قربان کردیا۔ ابن الوقت سنگھ پریوار سے اس کردار کے مظاہرے کی توقع بھی محال ہے۔

 

ذات پات کی مردم شماری کو انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے اہم ترین سیاسی مسئلہ بنادیا اور اس کے بعد این ڈی اے کی اتحادی جماعتیں بھی اس کی حمایت پر مجبور ہوگئیں ۔ جے ڈی یو اور ایل جے پی (رام ولاس) کا حکومت میں شامل ہونے کے باوجود ذات پات کی مردم شماری پر سخت موقف ہے یہاں تک کہ ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے مختلف رہنماوں نے بھی وقتاً فوقتاً ذات پات کی مردم شماری کے حق میں بیانات دے رکھےہیں۔اب یہ حال ہے کہ آر ایس ایس نے بھی ذات پات کی مردم شماری کو فلاحی قدم قرار دے دیا۔ امبیکر نے زور دے کر کہا کہ سنگھ نے ہندو اتحاد کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور سالمیت کے لیے مسلسل کام کیا۔ ہم اپنے آئین کا 75 واں سال منا رہے ہیں۔ ہمارا آئین انصاف، مساوات اور بھائی چارے کی اچھی بات کرتا ہے۔ لیکن اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قوم کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے بھائی چارہ ہونا چاہیے۔یہ صفائی دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ ان اقدار کے خلاف سنگھ کے عقائد و نظریات سے ساری دنیا واقف ہے ۔

 

یہ حسن اتفاق ہے کہ جس راجیو گاندھی کے خلاف بغاوت کرکے وی پی سنگھ نے منڈل کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا آج انہیں کافرزند راہل گاندھی سماجی مساوات کا مشعل بردار بن چکا ہے۔منڈل کے حوالے سے سنگھ کی منافقت سے قطع نظر اس کی خاطر جدو جہد کرنے والوں کے تئیں آر ایس ایس کا رویہ بالکل نہیں بدلا ۔ وہ سنگھ پریوار جو کسی زمانے میں راجہ مانڈا وی پی سنگھ کو ’راجہ نہیں فقیر ہے یہ بھارت کی تقدیر ہے‘ کہہ کر ان کی تعریف و توصیف کرتا تھا انہیں کے خلاف ’راجہ نہیں یہ رنک ہے ۔بھارت پر کلنک ہے‘ کےنعرے لگا نے لگا۔ فی لاحال راہل گاندھی کے حوالے سے بھی طوفانِ بدتمیزی کو ہوا دیتے ہوئے سنگھ کا ترجمان ’پانچ جنیہ ’ لکھتا ہے:’’ہندوستان میں ذات کو دیکھنے سے زیادہ اور مطلب کے لیے لوگ تولنے ، دیش توڑنے کے بجائے اس کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 

اس کے لیے راہل ، ان کی والدہ اینٹونیومائنواور پوری کانگریس کو چرچ اور نوآبادیاتی کی عینک اتارنی ہوگی، کیونکہ یہ نظریہ نوآبادیاتی ایجنڈے ’بھارت توڑو، پیسے جوڑو‘کو چلانے والوں کی سمجھ میں نہیں آتااس لیے وہ ذات اور سماجی شناخت کو ہندو اتحاد توڑنے کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔پانچ جنیہ کے مدیر ہتیش شنکر نے کانگریس پارٹی کی ذات اور آباو اجداد کے طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور اے او ہیوم کا نام پیش کرکے اپنے سیاسی حریف پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم روایت کو آگے بڑھایا ۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی اور آر ایس نے کیوں ہتھیار ڈال دئیے؟ اس کے کمنڈل کا رتھ منڈل کے چکرویوہ میں کیسے پھنس گیا ؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb