Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
relationship-between-love-and-politics

ظریفانہ: محبت اور سیاست کےبیچ’ یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘؟

Posted on 11-09-2024 by Maqsood

ظریفانہ: محبت اور سیاست کےبیچ’ یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘؟

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

للن پٹیل نے کلن ریڈی سے پوچھا یار اس راہل کے بچے کے پاس کوئی کام وام نہیں ہے کیا؟
راہل کا بچہ؟کلن نے حیرت سے پوچھا۔ ارے بھیا اس بیچارے کی ابھی شادی تک نہیں ہوئی اور تم بچہ لے آئے ۔
یار تم لوگوں کواردو تو ٹھیک سے آتی نہیں ہے ۔ راہل کا بچہ مطلب خود راہل ہوتا ہے ۔ سمجھتے کیوں نہیں؟
کلن ریڈی چکرا گیا ۔ اس نے پوچھا یار راجیو کا بچہ تو راہل ہے مگر راہل کا بچہ بھی راہل! اوروہ بھی شادی کے بغیر، کچھ بات سمجھ میں آئی نہیں ۔
بھائی کلن راہل کی ایک شادی ہوچکی ہے اور وہ دوسری کرنے جارہا ہے۔
کلن نے سوال کیا تو کیا وہ بھی اپنی پہلی بیوی کو جسودھا بین کی طرح چھوڑنے جارہا ہے؟ مگر یہ سب تمہیں بتاتا کون ہے؟
تم نے ہماری زعفرانی واٹس ایپ یونیورسٹی میں ابھی داخلہ نہیں لیا اسی لیے نہیں جانتے وہاں تو بیوی اور بچے کی تصویر بھی چھپ چکی ہے۔
یار شادی کرنا تو اچھی بات ہے ۔ اس میں چھپانے کی کیا ضرورت ؟
ارے بھائی ہمارے پردھان جی نے بھی تو اس راز کو کئی برسوں تک چھپائے رکھا ۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے۔
کلن بولا ہاں بھیا اگر کوئی اپنی زوجہ کو معلق چھوڑ کر رنگ رلیاں منانا چاہتا ہو تب تو اسے چھپانا سمجھ میں آتا ہے مگر راہل نے تو ایسا کچھ نہیں کیا؟
راہل نے فرنگی لڑکی سے شادی کرلی مگر سونیا نے اسے سمجھایا کہ اگر وہ اس کا اعلان کردے گا تو کبھی بھی وزیر اعظم نہیں بن سکے گا۔
یار اگر یہ جھوٹ ہے تب بھی اس میں دم ہے مگر وہ دوسری شادی کا کیا چکر ہے؟
للن بولا ارے بھیا وہ تو سیاسی شادی ہے۔ دلت سماج کو قریب کرنے کے لیے وہ ایک دلت لڑکی سے شادی کرنے جارہا ہے ۔
یار لیکن ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی برہمن لڑکی سے شادی کی تھی مگر وہ سماج قریب آنے کے بجائے دور ہوگیا ۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے؟
بھیا کلن تم نہیں سمجھو گے برہمن سماج ڈاکٹر امبیڈکر کو حقیر سمجھتاہے اس لیےان کے نزدیک وہ شادی باعثِ عار تھی۔
برہمنوں کا ذات پات کی بنیاد پر کسی کو اپنے سے کم تر سمجھنا بہت بری بات ہے مگر ڈاکٹر بابا صاحب نے اس سماج میں شادی کیوں کی؟
یہ تو میں نہیں جانتا ، ممکن ہے انہیں عار دلانے کے لیے کی ہو؟ اصل وجہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر تم نے راہل کے سوال کو کہیں اور پہنچا دیا ۔
ارے بھیا للن تم نے خود ہی جواب دے دیا کہ راہل کے پاس کوئی کام وام نہیں ہے اس لیے ایک کے بعد شادیاں کرتا پھر رہا ہے۔
نہیں بھیا میں اس لیے پوچھ رہا تھا کہ وہ اپنے ڈیلاس آچکا ہے جبکہ ہندوستان کے اندر ہریانہ اور جموں کشمیر میں انتخابات ہورہے ہیں ۔
بھائی للن ان دونوں ریاستوں میں تو بی جے پی ہار چکی ہے اس لیے وہ اب امریکہ کے انتخابات کو متاثر کرنے کی خاطر یہاں آیا ہے۔
للن نے پوچھا یار کمال ہے۔ وہ خود تو ہندوستان میں الیکشن ہار گیا اب یہاں کیا خاک کرلے گا ؟
کلن نےکہا پچھلی بار اپنے پردھان جی خود ہندوستان میں الیکشن جیت گئے تھے لیکن کیا وہ ٹرمپ کو کامیابی دلا سکے ۔
للن بولا اچھا تو کیا الیکشن کو متاثر کرنے کا انتخابی جیت اور ہار سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے؟
کیا بک رہے ہو للن۔ سیاست الیکشن میں ہار جیت کا ہی تو کھیل ہے ۔
یہ تمہارا خیال ہے لیکن راہل کچھ اور ہی سوچتا ہے۔ اس کے خیال میں کامیاب سیاستداں کی ذمہ داری صرف الیکشن کی جوڑ توڑ نہیں ہے۔
اچھا لیکن میں تو پردھان جی کو اسی لیے اپنا چہیتا رہنما مانتا ہوں کیونکہ وہ پچھلے ۲۲ سالوں سے اپنی پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کررہے ہیں ۔
للن بولا اچھا اگریہی کسوٹی ہے تو اس بار وہ معمولی اکثریت بھی حاصل نہیں کرسکے اس لیے تمہیں ان کا احترام چھوڑ دینا چاہیے۔
ارے بھیا پھر بھی جیسے تیسے انہوں نے سرکار تو بناہی لی ۔ پریشانی کیا ہے؟ اور جس راہل کی تم تعریف کررہے ہو اس نے کیا کرلیا ؟
بھیا وہ تو کہتا ہے کہ اس نے ملک سے خوف کا ماحول ختم کردیا ۔ اس کے مطابق اب کوئی مودی سے نہیں ڈرتا۔
ہاں یار یہ بات تو ہے ۔ مودی کا خوف اگر چہ کہ پوری طرح ختم نہیں ہوا مگر کم ضرور ہوا ہے اور پردھان جی خود خاصے خوفزدہ لگتے ہیں۔
للن نے کہا ہاں بھیا راہل تو اب سیاست کے اغراض و مقاصد کی نئی تعریف پیش کررہا ہے ۔
کلن نے سوال کیا اچھا یہ بتاو کہ ر اہل کے خیال میں حزب اقتدار یا اختلاف کے رہنما کا مقصدِ حیات کیا ہونا چا ہیے؟
راہل کے مطابق محبت کی بنیاد پرلوگوں میں عجز و انکسار کا فروغ اور باہمی احترام میں اضافہ کرنا ہی سیاستداں کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
یار مجھے تو یہ سب خیالی باتیں لگتی ہیں ۔ سیاست کا تعلق تو غم و غصہ، نفرت و ناانصافی و بدعنوانی وغیر سے ہوتا ہے۔
للن نے کہا جی ہاں راہل بھی مانتا ہے کہ فی الحال ایسا ہی ہے مگر وہ سیاست کو محبت، عاجزی اور احترام سے جوڑنا چاہتاہے۔
بھیا اب سمجھ میں آیا کہ وہ نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کیوں کھول رہا ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہے؟
دیکھو بھائی کلن سماج کے اندر جب تک لوگ ایک دوسرے سے ڈرتے رہیں گے تب تک نفرت کرتےر ہیں گے ۔
اب سمجھا کہ پردھان جی ہندووں کو مسلمانوں سے کیوں ڈراتے ہیں؟
میں بھی سمجھ گیا جس دن لوگ ایک دوسرے سے ڈرنا بند کردیں گے اسی دن ان کا سیاستدانوں پرانحصار ختم ہوجائے گا ۔
یار یہ سب کہنے کے باتیں ہیں جو سننے میں تو اچھی لگتی ہیں مگر ان کا حقیقی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مگر راہل تو اسی کسوٹی پراپنی کارکردگی کو جانچنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ ان اقدار سےخالی سیاست محض حصولِ اقتدار کاذریعہ بن کررہ گئی ہے۔
جی ہاں کلن مگر یہ تو ہمارے سنگھ سے الگ ہٹ کر ایک راگ الاپ رہا ہے۔
کلن بولا یہی تو وہ ٹیکساس یونیورسٹی میں کہہ رہا تھا ۔ میں بھی یہ سن کر چونک پڑا؟
اچھا تو وہاں جانے والے بیوقوفوں میں تو بھی شامل تھا ۔ تجھے کتنی بار سمجھایا کہ ان سے دور رہا کر ۔ اب سمجھا کہ بہکی بہکی باتیں کیوں کررہا ہے؟
ارے بھیا میں پردھان جی کے ناچ گانے اور جھوٹ موٹ دعووں سے بور ہوچکا ہوں۔ پچھلی بار ہاو ڈی موڈی میں گیا تھا مگر مزہ نہیں آیا ۔
کیا بکتے ہوَ وہ تو بڑی زبردست تقریب تھی۔ اس میں اپنا لٹل ٹیکساس بینڈ بھی تفریح کے لیے موجود تھا اور سونے پہ سہاگہ پردھان جی کا خطاب۔
ارے وہی یکطرفہ پروچن ۔ اسی کو سنتے سنتے طبیعت اوب گئی ہے۔ پردھان جی نہ تو کسی کا سوال سنتے ہیں اور نہ اس کا جواب دیتے ہیں ۔
اچھا تو راہل کون سا تیس مار خاں ہے؟
ارے بھائی وہ کوئی طرم خاں نہیں ہے مگر عوام کے اور صحافیوں کے سوالات کا جواب تو دیتا ہے۔ ہمارے پردھان جی سے تو یہ ہوتا ہی نہیں۔
اچھا اگر تم کان کا ذائقہ بدلنے کے لیے چلے گئے تھے کوئی بات نہیں مگر یہ بتاو کہ اس نے ایسی کون سی خاص بات کہہ دی کہ دل بلیوں اچھلنے لگا ؟
کلن بولا وہ کہہ رہا تھا کہ سنگھ ایک نظریہ کا حامی ہے اور جبکہ وہ مانتا ہے کہ ملک میں کئی نظریات کے ماننے والے رہتے ہیں۔
للن فکرمند ہوکر بولا لیکن اس طرح تو ہمارا ملک منتشر ہوکر بکھر جائے گا ۔
جی نہیں اگر سب کو اپنے تشخص کے ساتھ کھلی فضا میں مساوی حقوق دیئے جائیں تو وہ ساتھ رہیں گے اس کے برعکس اگر زبردستی کی جائے تو ۰۰۰
ہاں یار کلن ہم لوگ اگر امریکہ کے اندر اس فضا میں مل جل کر زندگی گزار سکتے ہیں تو ہندوستان میں کیوں نہیں ؟
کلن نے کہا اسی لیے ملک کو ایک وفاق بنایا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ہم یہ بات کو بھول گئے اور تم نے دیکھا تمل ناڈو پر ہندی تھوپنے کا کیا نتیجہ نکلا ؟
جی ہاں ، آج تک کوئی سرکار دور درشن پر ہندی میں خبریں نشر نہیں کرواسکی ۔ دوسروں کی زبردستی برداشت کرنا فطرتِ انسانی کے خلاف ہے۔
للن نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر اس طرح پردیس میں آکر اپنے ملک کا نام بدنا م کرنا ٹھیک ہے کیا؟
کلن نے سوال کیا کس بیوقوف نے تمہیں یہ بتادیا کہ راہل نے ملک کو بدنام کیا ہے؟ وہ اپنے بھارت کا نام روشن کررہا ہے۔
ارے میں نے ابھی سابق مرکزی وزیر گری راج سنگھ کی ویڈیو دیکھی ہے۔ وہ راہل کو غدارِ وطن کہہ کر ملک کو بدنام کرنے کا الزما م لگارہے تھے۔
ارے بھیا الزام لگا نے سے کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے راہل کی کسی بات کا حوالہ بھی دیا یا نہیں؟
جی ہاں ان کے خیال میں چونکہ راہل ملک دشمن ہے اس لیے وہ آر ایس ایس کو کم ازکم اس جنم میں سمجھ ہی نہیں سکتا ۔
ارے بھیا سنگھ کی بات تو آج کل ہندوستانی عوام اور بی جے پی کےبھی سمجھ میں نہیں آتی ۔ میرے خیال میں نفرت کا کاروبار اب بند ہونے والا ہے
جی ہاں اسی لیے بیچارے گری راج سنگھ جیسے لوگ پریشان ہیں کیونکہ نفرت کی آگ کے بغیر وہ اپنی سیاسی روٹیاں کیسے سینکیں گے؟
ہاں یار نفرت تنور ٹھنڈا کرکے محبت کی نسیم سحر کے لیے یہ ضروری بھی تو ہے آخر کب تک ہم اپنے ساتھ دوسروں کو اس خود ساختہ عذاب میں مبتلا رکھیں گے ۔
کلن بولا جی ہاں للن جلد یا بدیر ہمیں سیاست اور محبت کے درمیان ایک مقدس رشتہ قائم کرنا ہی ہوگا ۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb