Skip to content
جنگ غزہ کی صوتحال میں تل ابیب اور انقرہ کے درمیان ٹماٹر ڈپلومیسی!
دبئی ، ۱۱؍ستمبر ( آئی این ایس انڈیا )
غزہ میں جاری جنگ کے آغاز میں اسرائیلی حکام ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان پر سخت ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کو نازی جرائم سے تشبیہ دی تھی اور اسرائیل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔الشرق الاوسط میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق بائیکاٹ کے اس اعلان پر اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کیٹس نے بھی ترکیہ کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا اور وزیر خزانہ بتسالل سموتریچ نے ترکیہ سے درآمد کیے جانے والے تجارتی سامان پر سو فیصد ٹیکس بڑھا دیا جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تمام براہ راست پروازیں منسوخ کردی گئیں جو اس سے قبل زوروں پر تھیں اور سیاحت کے عروج کے وقت ایک دن میں 40 پروازوں تک پہنچ گئیں۔
اس کشیدگی سے پہلے دونوں حکومتوں نے 2022 میں تجارتی تبادلے کا ہدف 9 بلین ڈالر رکھا تھا جسے 2023 میں بڑھا کر 10 بلین ڈالر کردیا جائے گا مگر تلخی کے بعد یہ شرح 7.5 بلین ڈالر ہوگئی جس میں 5.3 بلین ترکیہ کی اسرائیل کے لیے برآمدات ہیں جبکہ بقیہ رقم اسرائیل سے ترکیہ کے لیے برآمدات ہیں۔چونکہ ترکیہ سے اسرائیل آنے والے سامان میں سے 22 فیصد تعمیراتی جبکہ 9 فیصد زرعی سامان ہے اس لیے اسرائیل میں تعمیراتی شعبہ شدید متاثر ہوا جبکہ زرعی شعبے کو بعد ازاں مشکلات کا سامنا تھا اور وہ اس لیے کیونکہ اسرائیلی مارکیٹ کا کچھ انحصار غزہ سے آنے والی پیدوار سے بھی تھا۔
کشیدگی کے ساتھ ہی اسرائیل میں بحران شروع ہو گیا اور سبزی اور پھلوں کی قیمت میں دسیوں فیصد اضافہ ہو گیا جس کے باعث مہنگائی عام ہو گئی اور جنگ کی وجہ سے دیگر اسباب کو ملا کر اسرائیلی معیشت کو سخت نقصانات ہوئے۔رواں ہفتے کے شروع میں اسرائیلی وزیر خزانہ نے وہی بات کہی جو اس سے قبل اسرائیل کے مرکزی بینک کے سربراہ کی تھی کہ غزہ پر جنگ کی لاگت 2025 تک 67 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔اس کے ساتھ انہوں نے خبردار کیا کہ جنگ کے اخراجات اور سیکیورٹی کے لیے فوج کو کھلا چیک نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اسرائیلی ریاست کی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں جس میں براہ راست دو سو سے 250 بلین شیکل کے اخراجات ہوں گے‘۔
ڈالر آج کے حساب سے 3.7 شیکل ہے۔جنگ سے پہلے اسرائیل، ترکیہ سے 1.2 ٹن ٹماٹر ہر ہفتے درآمد کرتا تھا اور یہ شہریوں کی ضرورت کا 30 فیصد ہے جو جنگ کے بعد بالکل رک گئی جبکہ ٹماٹر کی بقیہ کھپت ان کھیتوں سے آتی تھی جو غزہ کی حدود میں النقب میں واقع ہیں جن کی پیدوار بھی جنگ کی وجہ سے رک گئی۔شروع میں اسرائیل نے اردن سے 500 ٹن ٹماٹر درآمد کرنا شروع کیے لیکن یہ مقدار مقامی کھپ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔اس کے ساتھ بحران شروع ہوا اور سبزی اور پھلوں کی قیمت بڑھنے لگی اور شہری پریشان ہونے لگے۔ ایسے میں بحران کا حل ترکیہ سے آگیا۔متعلقہ حکومتی اداروں کے مابین طویل مباحثوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کے خلاف تمام اسرائیلی الزامات دھواں ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی حکومت نے ترکیہ سے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیا۔
Like this:
Like Loading...