Skip to content
کل جماعتی پلیٹ فارم پر جینور فرقہ وارانہ فسادات کا جائزہ-
حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب کی زیر سرپرستی
حیدرآباد،13ستمبر( الہلال میڈیا)
•بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری نا قابل برداشت ۔
•پولیس اشرار کی گرفتاری پر توجہ دے، اور خود اپنی کوتاہی اور جانبداری کی اصلاح کرے۔
•چیف منسٹر ’’حیڈرا ‘‘جیسے معاملہ میں کہتے ہیں کہ آبی ذخائر پر قابضین کو برداشت نہیں کیا جائے گا ، انہیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ’’لا اینڈ آرڈ کو متأثر کرنے اور فرقہ وارانہ فسادات ‘‘کو بھی بخشا نہیں جائے گا ۔
•فسادات کے متأثرین اپنے نقصان کا اندراج ولیج ریوینیو آفیسر VRO(Village Revenue Officer)کے پاس کروا کر ، اس کی کاپی پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آفس ، اور منڈل ریوینیو آفسر سے اکنالجمنٹ حاصل کریں ، تاکہ آئندہ کی کارروائی میں قانونی ضابطے مکمل رہیں۔
آج بتاریخ ۱۳/ستمبر ۲۰۲۴ ، بعد نماز جمعہ،’’کل جماعتی نمائندہ کمیٹی ‘‘کی ایک نشست فیض گاہ میں منعقد ہوئی، اس میٹنگ میں جئے نور سے متعلق موجودہ حالات سے متعلق اب تک قانونی کارروائی کا جائزہ لیا گیا۔
جئے نور کے حالات اب بھی تشویشناک ہیں ، پولیس جو جئے نور کے فسادات کے موقع پر اشرار کو روکنے میں ناکام رہی، اور سینکڑوں کی تعداد میں آئے اشرار کے خلاف اب تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں کر سکی، حتی کہ اشرار کی تعداد کے مطابق ان کی گرفتاری پر بھی کوئی کارروائی نہیں کر سکی، لیکن اس کے برخلاف حسب عادت خود مظلوم مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کر چکی ہے۔
آج بھی بتاریخ ۱۳/ ستمبر ۲۰۲۴ کی ایک خبر کے مطابق پولیس نے جئے نور جامع مسجد کی کمیٹی کو ۲۴ نوجوانوں کی ایک لسٹ دی ہے، جن کے بارے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انہیں پولیس کے حوالہ کیا جائے۔ جئے نور میں سیدھے سادھے مسلمانوں کےلئے کوئی فوری قانونی رہنمائی کا نظم نہیں ہے۔
حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم کی ہدایت پر کل جماعت پلیٹ فارم سے حکومت اور محکمہ جاتی نمائندگی کے لئے ایک کمیٹی پہلے سے کام کررہی ہے، حال ہی میں حضرت شاہ کی جانب سے ڈی جی پی سے بھی ایک وفد نے ملاقات کی تھی، اور مطالبہ رکھا کہ شر پسندوں کے خلاف اور محکمہ پولیس میں ان عہدیداروں کے خلاف جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کی بلکہ جانبداری برتی ہے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے ،
انہیں نہ صرف معطل کیا جائے بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو۔ آج کی میٹنگ میں بھی مزید کچھ لوگوں کو اس لسلسہ میں مختص کیا گیا کہ جئے نورمیں بروقت متأثرین کی قانونی رہنمائی اور کارروائی کے لئے کام کریں۔
میٹنگ میں یہ بھی غور کیا گیا کہ ۲۰۰۶ میں یوپی اے گورنمنٹ میں اقلیتوں کی بہبود کے لئے ’’پرائم منسٹر ۱۵ نکاتی پروگرام ‘‘طے کیا گیا تھا، جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ :
’’وہ علاقے ، جن کی شناخت فرقہ وارانہ طور پر حساس اور فسادات کے طور پر کی گئی ہے،وہاں فرقہ وارانہ حادثات (Prevention of communal incidents) کی روک تھام کے لئے لازماً اعلی کاررکردگی کے حامل ، غیر جانبدار ، اور سیکولر پہچان کے لئےمعروف ضلعی اور پولیس اہلکاروں کو پوسٹ کیا جائے۔ اور ایسے حساس علاقوں میں اور دوسری جگہوں پر بھی ، فرقہ وارانہ کشیدگی کی روک تھام (Prevention of communal Tension)حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہونا چاہیے۔ ایسے مقامات پر فائز ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کی فسادات کی روک تھام میں پرفارمنس کو ان کے پروموشن کا تعین کرنے میں اہم عنصر بنانا چاہئے‘‘۔
یہ کانگریس یو پی اے / کانگریس گورنمنٹ میں بنے پروگرام کا حصہ ہے، اس وقت ریاست میں بھی کانگریس گورنمنٹ ہے۔
سوال یہ ہے کہ جئے نور میں اس سے پہلے بھی فرقہ وارانہ حادثات ہو چکے ہیں، اس پر حکومت اور پولیس نے مذکورہ بالا حکومتی رہنمایانہ خطوط پر کیا کام کیا ہے، اور ماضی میں اس علاقہ کی حساس شناخت کے بعد بھی حادثات کے انسداد کے لئے کیا کارروائی کی گئی ہے، پولیس اور حکومت دونوں کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے کل جماعتی پلیٹ فارم کی نمائندہ کمیٹی کو ذمہ داری دی کہ کہ اس سلسلہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (district magistrate)اور سپرٹنڈنٹ آف پولیس (superintendent of police) سے رابطہ کرکے اس حساس علاقہ میں پہلے سے کیا احتیاط برتی گئی اس کا ریکارڈ / اور اکنالجمنٹ حاصل کیا جائےتاکہ حکومت سے اس پر سوال ہو، اور قانونی کارروائی کی راہ ہموار ہو،
فرقہ وارانہ حادثات کے اس تسلسل کو معمولی نہیں لیا جائے گا بلکہ اس پر مستقل کام جاری رہے گا۔
یہ بھی جائزہ لیا جائے کہ اس حادثہ میں کتنی ایف آئی آر ہوئی ہیں، اور کیا کیا دفعات لگائی جا رہی ہیں، اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کس بنیاد پر ہورہی ہے جبکہ وہ خود مظلوم ہیں، اس کی بھی رپورٹ تیار کی جائے۔
فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر پولیس کی جانب سے ہجومی دباؤ کی ذہنیت (Mob mentality) کو بہانہ بنایا جارہا (اور Normalize کیا جا رہا)ہے، جس کی قانون میں اس اعتبار سے قطعی گنجائش نہیں ہے کہ اشرار کو کھلی چھوٹ دی جائے اور بعد میں بھی اشرار کی شناخت کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہو، لیکن یہ پولیس کا چلن بن گیا ہے۔ جینور میں ماب مینٹالیٹی کے بہانہ کے پہلو کی بھی تحقیق ہونی چاہئے، پولیس کی جانبداری بلکہ شر پسندوں کو کھلی چھوٹ اور انہیں بچ کر نکل جانے کا موقع دینے کی خصوصی تحقیق ضرور ہو، اور متعلقہ عہدیداروں پر ضابطہ کے مطابق ضرور کارروائی ہو۔ اس کےلئے فیاکٹس فائنڈنگ کمیٹی کام کرے اور اس کی رپورٹ تیار کرے۔
اس وقت دکانوں ، گاڑیوں وغیرہ کی فہرست آ چکی ہے، حکومت کو تمام متأثرین کے نقصان کا معاوضہ دینا ہوگا، ، کوشش ہو کہ فسادات میں ہر شخص کا جو نقصان ہوا ہے ، ولیج ریوینیو آفیسر VRO(Village Revenue Officer)کے پاس اس کا اندراج کروا کر ، اس کی کاپی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آفس ، اور منڈل ریوینیو آفسر کو مہیا کرکے اس کی ایکنالجمنٹ حاصل کرلی جائے تاکہ آئندہ کی کارروائی میں قانونی ضابطے مکمل رہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو حکومت / اور چیف منسٹر کا رویہ ہے، چیف منسٹر ’’حیڈرا ‘‘جیسے معاملہ میں نہایت سخت زبان استعمال کرتے ہیں کہ آبی ذخائر پر قابضین کو بخشا نہیں جائے گا ، لیکن ’’لا اینڈ آرڈ اور فرقہ وارانہ فسادات ‘‘جو اس سے کہیں زیادہ نازک مسئلہ ہے اس پر کوئی بیان نہیں دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ فرقہ ورارانہ فسادات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور مجرمین کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی، یہ خاموشی بہت تشویشناک ہے۔
موجودہ حکومت جس کو مسلمانوں نے ووٹ دے کر جتایا، اس کا فرقہ وارنہ فسادات پر اس درجہ جانبدارانہ رویہ بالکل ناقابل برداشت ہے، حکومت کو اس پر جواب دینا ہوگا، حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ عوام سخت غم و غصہ کا شکار ہے، اور آئندہ اس کا اثر حکومت کی ساکھ پر پڑ سکتا ہے۔
Like this:
Like Loading...