جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ازقلم:ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
بہت مشہور قصہ ہے کہ ایک سیاست داں باپ کے چھوٹے سے بیٹے نے باپ سے پوچھا کہ سیاست کیا ہے؟ باپ نے کہا میں اس کا جواب مناسب وقت پر دوں گا۔ بیٹے نے کئی بار یہ سوال دہرایا مگر باپ ہمیشہ ٹال جاتا تھا۔ یہاں تک کہ بیٹا یہ سوال بھول گیا اور اس نے باپ سے پوچھنا بند کردیا۔ ایک دن باپ نے دیکھا کہ اس کا چھوٹا سا بیٹا چھت کے مینڈھ پر بیٹھا ہے اس نے بیٹے سے کہا کہ تم چھت سے کود جاؤ۔ بیٹے نے کہا کہ کودوں گا تو چوٹ لگ جائے گی، ہاتھ پیر ٹوٹ سکتا ہے۔ باپ نے کہا تم کود جاؤ میں تمہیں تھام لوں گا۔ باپ کی بار بار کی یقین دہانی کے بعد بچے نے ہمت جٹائی اور چھت سے کو دگیا۔ جیسے ہی چھت سے کودا باپ ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ بیٹا دھڑام سے زمین پر گرا۔ اسے زبردست چوٹ آئی۔ اس نے غصے میں باپ سے کہا کہ آپ نے دھوکہ دیا، دیکھئے میں بری طرح زخمی ہوگیا۔ تب باپ نے بیٹے سے کہا تم نے پوچھا تھا کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور میں نے کہا تھا کہ وقت آنے پر میں اس کا جواب دوں گا۔ آج جب میں نے تمہیں چھت پر بیٹھا دیکھا تو جواب دینے کا موقع مل گیا۔ سیاست یہ ہوتی ہے کہ باپ پر بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے، وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر بیٹے کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے، اس کو مار بھی سکتا ہے اس کو مروا بھی سکتا ہے۔
اس کہانی سے آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ سیاست اور سیاست داں کا مزاج کیا ہوتا ہے۔ میکالے کا مشہور قول ہے کہ گائے کی طرح معصوم دکھو اور لومڑی کی طرح برتاؤ کرو۔ چانکیہ نے سیاست کو اخلاق سے عاری مانا ہے۔ لینن سیاست میں اخلاق کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتا جتنا پاجامہ یا پتلون کی ہے۔
بی جے پی نے اس بار کے الیکشن میں ۴۰۰ سیٹ مانگی تھیں تاکہ اس کا پہلے سے سو سالہ طے شدہ ایجنڈا ہے اس کی تکمیل کرسکے۔ اس بار لوگوں نے اس کو واضح اکثریت نہیں دی تھی۔ لہٰذا جن بیساکھیوں کو اس نے کنارے رکھ دیا تھا مجبوراً پھر سے انہیں اس کا سہارا لینا پڑا۔ ہر لیڈر، پارٹی کا اپنا اپنا مفاد ہے، اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ ہندوستان میں ہندو مسلم سیاست ایک زبردست جذباتی اپیل رکھتی رہی ہے۔ بی جے پی نے اسی کے بل پر تمام پارٹیوں کو دھول چٹادیا۔ وہ اسی سیاست کو دھار دار بنانے کے دھن میں لگی ہوئی ہے۔ کچھ ایجنڈوں کی تکمیل ہوچکی ہے کچھ باقی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس اس کی کاٹ نہیں ہے۔ اس لیے متبادل سیاست کے لیے مذہب بنام ذات کی سیاست پر زور دیا جارہا ہے۔ مگر اس جنگ میں ہندو اکثریت کو گول بند کرنے کے لیے اس نے وقف ترمیمی بل 2024 پارلیامنٹ میں پیش کیا جس کی ایک ایک شق مسلمانوں کے وجود پر کاری ضرب لگاتی ہے اور اس کے ذریعہ ہزاروں مسجدوں، قبرستانوں، مدارس اور وقف جائداد کو بیک قلم ختم کرکے سرکاری تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔
بی جے پی کے اس ایجنڈے میں جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور ایل جے پی تینوں پارٹیاں شامل ہیں۔ جب لوگ ان پارٹیوں کے لیڈران سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھئے ٹھیک ہے آپ کو چوٹ لگی ہے، آپ جاں بلب ہیں، مگر میںنے آپ کو آی سی یو میں بھرتی کرادیا ہے۔ وہاں ڈاکٹر دوا علاج کررہے ہیں۔ آکسیجن کا پورا انتظام ہے۔ وینٹی لیٹر کی سہولت موجود ہے۔ ہمیں آپ سے پوری ہمدردی ہے۔ ہم اپنا راج دھرم ضرور نبھائیں گے۔ ہمارے درمیان کچھ لوگ ہیں جو حضور کی اس فراخدلی کا شکریہ ادا کرتے نظر آرہے ہیں اور ان کی درازیٔ عمر اور درازیٔ اقتدار کی دعا کرتے ہیں۔
ہمیں اپنا حق لینا نہیں آتا۔ ہمیں ان سے صاف صاف پوچھنا چاہیے کہ آپ اس بل پر اپنی حمایت واپس لیتے ہیں یا نہیں لیتے ہیں۔ خوشامد کس بات کی۔ ہم تو آنے والے بیس پچیس سال میں بدترین دن کو رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ کسی کونے کھدرے میں چھپنے سے جان نہیں بچے گی۔ جب لوگ ہمارے ساتھ سیاست کررہے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ سیاست کریں گے۔ ان پر تکیہ کرنا حماقت، جہالت اور اپنی ہی کلہاڑی سے اپنا پاؤں زخمی کرنا ہے۔ اس لیے کسی جھانسے میں مت آئیے۔ یہ آپ کی لڑائی ہے اور آپ کو لڑنا ہے۔ کوئی ساتھ دیتا ہے اچھی بات ہے، نہیں ساتھ دیتا ہے تو ہمیں ہر طرح کی جمہوری اور آئینی جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جب آپ پتوں کا تکیہ بنائیں گا، وہی آپ کو ہوا دینے لگیں گے۔
Website: abuzarkamaluddin.com, Mobile: 9934700848