Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
trivinder-singh-nadans-friendship-jis-quarrel

ترویندر سنگھ: نادان کی دوستی ،جی کا جنجال ؟

Posted on 14-09-2024 by Maqsood

ترویندر سنگھ: نادان کی دوستی ،جی کا جنجال ؟

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

اندرا گاندھی کے بہیمانہ قتل کو اگلے ماہ اکتالیس سال پورے ہوجائیں گے۔ 31؍ اکتوبر 1984 کودو سکھ محافظوں نے ملک کی وزیر اعظم کو قتل کردیا تھا ۔ اس وقت بینت سنگھ نے ہاتھ اوپر کرکے کہا تھا ’مجھے جو کرنا تھا میں نے کر دیا۔ اب آپ کو جو کرنا ہے آپ کر لو۔‘ یعنی انہوں نے قتل کی ذمہ داری لیتے ہوئے بلا واسطہ گولڈن ٹمپل کےانتقام کا اعتراف کیا تھا۔ اب پھر ایک بار دہلی بی جے پی کے سکھ سیل کے ارکان لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کے خلاف احتجاج کرنے کی خاطر ان کی رہائش گاہ 10 جن پتھ کی جانب کوچ کرتے ہیں ۔

ان کو جب روکا جاتا ہے تو آپے سے باہر ہوکر بی جے پی رہنما اور سابق رکن اسمبلی ترویندر سنگھ مارواہ( جو کسی زمانے میں کانگریس کے اندر بھی تھا) نے راہل گاندھی کے زخموں پر نمک چھڑکتے بڑی ڈھٹائی سے یہ پیشنگوئی کی کہ، وہ اپنی دادی، سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اور والد، سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی جیسے حشر کا سامنا کریں گے۔کیا دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ حزب اختلاف کے رہنما کو وزیر اعظم کا سایہ کہا جاتا ہے۔تصور کیجیے کہ اگر اسی مفہوم کی بات وزیر اعظم کے متعلق کہی جاتی تو گودی میڈیا کس قدر ہنگامہ کرتا؟ لیکن اب اس کی زبان پر قفل لگا ہوا ہے۔ سرکار کے وفادار ذرائع ابلاغ کو اندیشہ ہے کہ؎
گر نہ ’اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ راہل گاندھی کی مقبولیت سے پریشان بی جے پی نے ان کے گھر پر احتجاج کروایا تھا۔ اس میں سکھ برادری سے متعلق امریکہ میں دئیے گئے ان کے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ وگیان بھون سے کانگریس لیڈر کی رہائش گاہ کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنے والے نعرے لگاتے اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے مظاہرین کو پولیس نے درمیان میں روک دیا۔اس کے سبب اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سابق رکن اسمبلی ترویندر سنگھ مارواہ نے دھمکی دے دی کہ راہل گاندھی رکو، ورنہ مستقبل میں تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو تمہاری دادی کا ہوا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر راہل نے ایسا کیا کہہ دیا جس سے حزب ا قتدار اس قدر پریشان ہے؟ انہوں نے ورجینیا میں ہندوستانی نژاد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، "سب سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ لڑائی کیا ہے، لڑائی سیاست کے بارے میں نہیں ہے، لڑائی اس بات پر ہے کہ آیا ایک سکھ کے طور پر اسے ہندوستان میں پگڑی پہننے کی اجازت ہوگی یا ایک سکھ کی حیثیت سے اسے ہندوستان میں کڑا پہننے کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ حقیقی معنوں میں یہ لڑائی صرف ان (سکھوں ) کے لیے نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لیے ہے‘‘۔

مندرجہ بالا بیان میں سکھوں کے حوالے سے کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے ۔ اس پر دہلی بی جے پی کے سکھ سیل یا سکھ برادری کا راہل گاندھی شدید ناراض ہونا قابلِ فہم نہیں ہے لیکن مخالفت برائے مخالفت کے تحت وہ مظاہرہ کیا گیا اور اس میں ایک متنازع بیان کےسبب خود سنگھ پریوار مشکل میں آگیا ۔ ترویندر سنگھ مارواہ کی ویڈیو کلپ کو خود کانگریس نے سوشل میڈیا میں شیئر کرکے بی جے پی و وزیر اعظم نریندر مودی سے اس پر وضاحت طلب کرکے انہیں منہ چھپا تے پھرنے پر مجبور کردیا ۔کانگریس نے اپنی پوسٹ میں سوال کیا کہ مودی جی، آپ اپنی پارٹی کے اس لیڈر کی دھمکی پر خاموش کیسے رہ سکتے ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایکس پر آگے لکھا گیا کہ یہ آپ کی پارٹی کے نفرت کی فیکٹری کا کارنامہ ہے۔ یہی بات ملک اولین وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس کو لکھے خط میں کہی تھی کہ آپ لوگوں نے جو نفرت کا زہر فضا میں گھولا ہے اس کے سبب گاندھی جی کا قتل ہوا ہے ۔ کانگریس اب قانونی و عملی چارہ جوئی پر غور کررہی ہے ۔

کانگریس پارٹی نے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو جان سے مارنے کی دھمکی دینے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے حکمراں پارٹی کی طرف سے جمہوری بات چیت کے انحطاط پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موضوع پراب ملک بھر میں احتجاج کرنے کی تیاری کررہی ہے۔اس کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پرتاپ سنگھ باجوہ نے کہا کہ، ” بی جے پی کے ایک رکن کی ملک کے اپوزیشن لیڈر کو براہ راست دھمکی پر مرکزی خاموش بہت سنگین مسئلہ ہے ۔” راہل گاندھی پر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگانے والوں کو گھیرتے ہوئے باجوہ نے کہا یہ ملک کی منفی تصویر کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یہ پیغام جاتا کہ جو بحث میں نہیں جیتیں گے و ہ دھمکیاں دیں گے۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمان سندیپ دکشت نے بی جے پی پر نفرت کا ماحول پیدا کرنے اور پچھلے 10 سالوں سے تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے راہل گاندھی کا دفاع کیا ، وہ بولے کہ حزب اختلاف کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی خطرات سے لوگوں کو خبردار کرے۔

سندیپ دکشت کے مطابق سابق وزرائے اعظم نے قومی اتحاد کے لیے اپنی جانیں دیں۔ اب راہل گاندھی کو (قومی اتحاد سے روکنے کے لیے) دھمکی دینا ایک مذموم منفی سیاست ہے۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ بی جے پی کا ایوان زیریں میں 400 کے بجائے 240 سیٹوں پر سمٹ جانا ہے۔ وہی مایوسی زعفرانیوں کو راہل گاندھی کی مخالفت پرمجبور کررہی ہے ۔ بی جے پی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دکشت نے سوال کیا کہ کیا واقعی وہ سکھوں کی خیر خواہ ہے؟ایسا ہے تو وہ تین کسان مخالف قوانین نافذ کرکے انہیں واپس لینے پر مجبور کیوں ہوئی ؟ کانگریسی رہنما نے یاد دلایا کہ جب مذکورہ ظالمانہ قوانین کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کسان احتجاج کررہے تھے تو انہیں بھی دہشت گرد اور علیحدگی پسند قرار دیا گیا اوران سے کیے جانے والے قانونی ایم ایس پی کے وعدے پر ہنوز عمل نہیں کیا گیا ۔ اب راہل گاندھی کو بھی انہیں القاب سے نوازہ جارہا ہے۔

راہل گاندھی پر تنقید کی ابتدا بی جے پی کے کسی للو پنجو رہنما نے نہیں بلکہ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کی ۔ انہوں نے راہل گاندھی پر الزام لگایا کہ غیر ملکی سرزمین پر ملک توڑنے والی طاقتوں کے ساتھ کھڑا ہونا راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کی عادت بن گئی ہے۔ امیت شاہ ہنوز کون سے زمانے میں رہ رہے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ انٹرنیٹ نے ساری دنیا کو ایک ننھا سا گاوں بنادیا ہے۔ فی الحال کے سورت میں ہونے والی ماب لنچنگ منٹوں کے اندر امریکہ اور برطانیہ کے اندر کروڈوں لوگوں کے موبائل پر رونق افروز ہوجاتی ہے۔ اس لیے بدنامی یا نیک نامی کے لیے کسی کو بیرونی سرزمین پر جاکر کچھ کہنے سننے کی چنداں حاجت نہیں ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے ایک دہشت گردانہ سانحہ کے بعد اپنے ملک میں بیٹھ کر نام کما لیا اور ہمارے وزیر اعظم نے منی پور کے حوالے سے گھر بیٹھے عزت و وقار خاک میں ملا دیا۔

امیت شاہ نے کانگریس کی ملک مخالف عادتوں کا حوالہ دے جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی مثال دے دی۔ یعنی پہلے غیر ممالک کی سرزمین اور پھر جموں کشمیر کی مثال تو کیا وزیر داخلہ جموں کشمیر کو اس ملک سرزمین سے باہر سمجھتے ہیں۔ وہ بھول گئے کہ نیشنل کانفرنس اٹل جی کی سرکار میں شامل تھی اور جس عمر عبداللہ کو وہ کشمیر کے سارے مسائل کی خاطر موردِ الزام ٹھہراتے ہیں وہ بی جے پی حکومت میں وزیر مملکت تھے۔ مفتی خاندان کو بھی ہدفِ تنقید بنانے والے شاہ جی کا یہ معاملہ ہے کہ پی ڈی پی جب بی جے پی کو اپنی حکومت میں شامل کرلیتی ہے تو محبِ وطن ہوجاتی ہے اور دامن چھڑاتے ہی علٰحیدگی پسند کہلانے لگتی ہے۔بی جے پی چونکہ اپنے آپ کو ملک سمجھنے لگی ہے اس لیے اس کے خلاف بولنے والا ملک دشمن ہوجاتا ہے ۔ بی جے پی کو ٹھیس پہنچانے سے اس کے خیال میں قومی جذبات مجروح ہوجاتے ہیں حالانکہ اس کا حقیقتِ حال سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی ریزرویشن کا مخالف کہہ کر شاہ جی نےسورج پر تھوکنے کی کوشش کی ہے۔ لیٹرل انٹری کے ذریعہ سرکاری ملازمتیں پُر کرنے والی سرکار جب ریزرویشن کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہے تو ہنسی کے ساتھ رونا بھی آتا ہے۔ اس ہنگامہ کے دوران ترویندر سنگھ مارواہ نے اپنے ایک احمقانہ بیان سے راہل کے وارے نیارے کردئیے اور بی جے پی کے لیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اسے کہتے ہیں نادان کی دوستی جی کا جنجال اور ایسے میں غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb