اہم ٹیکنالوجی پرتحقیق کے موضوع پر چین کو امریکہ پر سبقت حاصل ہو گئی
لندن، ۱۴؍ستمبر ( آئی این ایس انڈیا )
تکنیکی مسابقت پر نظر رکھنے والے ایک آسٹریلوی تھینک ٹینک نے کہا ہے کہ چین کو تقریباً 80 فی صد اہم ٹیکنالوجی پر تحقیق میں عالمی رہنما کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، اور اب وہ دفاع سے متعلق ٹیکنالوجی پر اجارہ داری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ چین کو یہ سبقت حکومت کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کے باعث گزشتہ دو عشروں کے دوران حاصل ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ترقی کے باوجود ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے کلیدی اجزا پر بیجنگ کا انحصار اب بھی دوسرے ملکوں پر ہے اور اس میں وہ خودکفالت سے خاصا دور ہے۔
حکومت کی سرمایہ کاری سے چلنے والے آسٹریلین اسٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ASPI) کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے 2019 سے 2023 کے پانچ سال کے عرصے کے دوران 64 میں سے 57 جدید ٹیکنالوجیز پر تحقیق کی ہے۔تھینک ٹینک ASPI کلیدی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے دنیا کے ممالک کی اختراعی صلاحیتوں کی درجہ بندی کرتا ہے جس کا تعین وہ ان شعبوں کے سرفہرست جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں میں کی بنیاد پر کرتا ہے جن میں مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیکنالوجی، سائبر اور دفاع سمیت مختلف شعبوں کی کلیدی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین اور امریکہ نے دو عشروں کے دوران جدید ٹیکنالوجیز کی تحقیق میں مؤثر طریقے سے اپنے درجات تبدیل کیے ہیں۔چین 2003 اور 2007 کے عرصے میں صرف تین ٹیکنالوجیز میں قیادت کر رہا تھا لیکن اب اس نے تیزی سے امریکہ کی جگہ لے لی ہے جو اب صرف 7 کلیدی ٹیکنالوجیز میں آگے ہے۔جوش کینیڈی وائٹ سنگاپور میں مقیم ایک ٹیکنالوجی سٹرٹیجسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران تحقیق کے میدان میں چین کی تیز رفتار ترقی کا سبب ریاست کی جانب سے سرپرستی اور سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین خاص طور پر مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپوٹنگ اور طیاروں کے جدید انجنوں جیسے شعبوں میں سخت محنت کر رہا ہے جہاں وہ ابھی تک پیچھے ہے۔اس سال دس ٹیکنالوجیز ک ’ہائی رسک‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق دفاعی صنعت سے ہے۔ایک مشاورتی کمپنی پروٹوسٹار سٹریٹیجی کے بانی ٹوبیاس فیکن نے اس سلسلے میں کہا کہ موجودہ اور مستقبل کے جیوپولٹیکل تناظر میں دفاع سے متعلق 24 شعبوں جن میں ریڈارز اور درونز شامل ہیں، چین کی جانب سے ممکنہ اجارہ داری کا خطرہ ہے۔
چین کے صدر جن پنگ 2015 میں شروع ہونے والے ’میڈ ان چائنا 2025‘ کے وژن کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد اہم شعبوں میں بیجنگ کی خودانحصاری کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا اور چین کو عالمی ٹیکنالوجی کا پاور ہاؤس بنانا ہے۔چین کے عزائم پر واشنگٹن گہری نظر رکھ رہا ہے اور بائیڈن انتظامیہ جدید ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی محدود کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔